گورنر ستیہ پال ملک نے 8؍ فروری کو ایک اہم اور سیاسی طورپر حساس فیصلے میں لداخ خطے کو علاحدہ ڈویژن بنانے کاحکم جاری کیا ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ریاست کے دُور دراز کے خطوں کی ترقی کا بہانہ ایک طرف ، مرکز سوچے سمجھے منصوبےکے تحت ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
2017 میں جب بی جے پی کے صدر امت شاہ نے جموں کے دورے پر آکر پارٹی قیادت کو 2019 میں جموں وکشمیر میں اپنی سرکار بنانے کے لئے جموں اور لداخ خطوں پر خصوصی توجہ دینے کے لئے کہا تھا ،اُس وقت اس بات کا تاثر مل گیا تھا کہ بی جےپی اگلے اِنتخابات تک ریاست کو تین حصوں میں بانٹنے کو بَل دے گی ۔ریاست میں پہلے گورنر اور اب صدر راج کے نفاذ نے بی جے پی کے اس منصوبے کو دوام بخشا ہے جو اب کُھلے میں ریاست کی تقسیم کی حمایت کر رہی ہے ۔جموں وکشمیر میں اِس وقت صدر راج نافذ ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے منتخب کئے گئے ستیہ پال ملک ریاست کے موجودہ گورنرہیں جن پر نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس جیسی سیاسی جماعتیں ریاست میں بی جے پی کے ایجنڈے کوفروغ دینے کا الزام لگا رہی ہیں۔
گورنر ستیہ پال ملک نے 8؍ فروری کو ایک اہم اور سیاسی طورپر حساس فیصلے میں لداخ خطے کو علاحدہ ڈویژن بنانے کاحکم جاری کیا ۔ اس طرح اب کشمیر ، جموں اور لداخ سمیت ریاست کے تین ڈویژن ہوں گے ۔ لداخ اب تک کشمیرڈویژن کا حصہ تھا۔اپنے بیان میں گورنر نے کہا کہ لداخ خطہ جغرافیائی اعتبارسے کافی دشوار گزار ہے اور دور دراز خطہ ہونے اور خراب موسمی صورتحال کی وجہ سے یہ ریاست اور ملک کے دیگر حصوں سے سال میں کم سے کم 6ماہ تک کٹ کے رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں رہنے والے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں کسی بھی اِنتظامی یا سرکاری کام کے لئے سری نگر یا پھر جموں آنا پڑتا ہے ۔ اکثر اوقات سرما میں برفباری ہونے پر وہ سفر نہیں کر پاتے ۔
JK Govt orders creation of separate Ladakh Division pic.twitter.com/Uqkzr0PhP4
— DIPR-J&K (@diprjk) February 8, 2019
گورنر کے اس فیصلے نے وادی اور کرگل میں اضطرابی کیفیت پیدا کی ہے ۔ ریاست کی اکثر سیاسی پارٹیوں اور دیگر تنظیموں نے اگرچہ اس فیصلے کاخیرمقدم بھی کیا ،ساتھ ہی یہ بھی مانگ کی کہ اگر تین لاکھ کی آبادی والے اس خطے کوالگ ڈویژنبنایا گیا ہے پھر اس سے بھی دشوار گزار اور بڑی آبادی والے پیر پنچال اور چناب خطوں کو الگ ڈویژن کیوں نہیں بنایا جاتا ۔اکثر حلقوں نے اس فیصلے کو بی جے پی کی سیاست قرار دے کر بی جے پی پر منافرت اور فرقہ پرستی پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
لداخ کی سیاسی و جغرافیائی ہئیت
سطح سمندر سے 9800فٹ کی اونچائی پر واقع لیہہ اور کرگل کے دو اضلاع پر مبنی لداخ خطہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ہے ۔لداخ اپنی خوبصورتی اور پہاڑی سلسلو ں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے اور ایشیا کا ایک بڑا سیاحتی مرکز تصور کیا جاتا ہے ۔ایک وقت میں خطے کاحصہ رہنے والی بلتی یل وادیاں پاکستان جبکہ اکسا ئی چِن اب چین کے زیر قبضہ ہیں ۔ہندوستان اور چین نے 1962میں اکسائی چِن اور اروناچل پردیش کے کنٹرول کی اعتباریت پر جنگ لڑی جبکہ 1996 میں ہندوستان اور پاکستان نے بھی کرگل جنگ لڑی ۔یوں یہ خطہ جغرافیائی اور دفاعی اعتبار سے کافی اہم ہے ۔ہندوستان اور چین نے 1993اور 1996 میں حقیقی لائن آف کنٹرول کو متعین کر کے باہمی سمجھوتوں پر دستخط کئے ۔
جغرافیائی لحاظ سے منفرد یہ خطہ ماضی میں سینٹرل ایشیا اور دیگر خطوں کے لئے اہم تجارتی راستہ تھا جو سِلک رُوٹ کے طور جانا جاتاتھا۔چین کی طرف سے 1960میں تبت اور سینٹرل ایشیا میں اپنی سرحدوں کو بند کرنے کے بعد اس خطے میں یہ روایتی تجارتی راستے بند ہوگئے اور یہ خطہ اپنی ساخت کھو کر محض ایک سیاحتی مقام بن کر رہ گیا۔2011 کی مردم شماری کے مطابق لداخ میں مسلمانوں کی آبادی (46.4فیصد) ، جبکہ 39.7 فیصد آبادی بودھوں پر مبنی ہے اور 21.1فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے۔لداخ کو 1979 میں کرگل اور لیہہ نامی دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا ۔ لیہہ میں بودھوں جبکہ کرگل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔
سرکار نے 1990 میں مقامی عوام کی خواہشات کو پورا کرتے ہوئے لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کو معرض وجود میں لایا ۔کونسل کو مقامی سطح پر اِنتظامی امور ، پالیسی سازی اور ترقیات کو فروغ دینے کا منڈیٹ ہے ۔ 2018 میں ان پہاڑی کونسلوں کو متعلقہ ایکٹ میں اہم ترامیم کے بعد مزیدبااختیار بنایا گیا۔یہ کونسل اب ملک کے سب سے خود مختار کونسل بن گئے ہیں۔
سال 2018 کے کونسل اِنتخابات میں نیشنل کانفرنس نے 10 ، کانگریس نے 8، پی ڈی پی نے 2اور بی جے پی نے ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی جبکہ پانچ سیٹوں پر آزاد امید واروں نے کامیابی حاصل کی۔ان اِنتخابات میں بی جے پی نے پہلی بار بودھ اکثریت والے چھا حلقے میں کامیابی حاصل کر کے اپنا کھاتہ کھولا ۔
گورنر ستیہ پال ملک کی صدارت میں 2018 میں ریاستی انتظامی کونسل نے ایک ترمیمی بِل کے ذریعے ان خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسلوں کو مزید انتظامی اور مالی اختیارات دیے ۔لیہہ میں 1995 میں جبکہ کرگل میں 2003میں ان کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔گورنر کے حکم نامے کی رُو سے ان کونسلوں کومتعلقہ خطوں میں ٹیکس عائد کرنے ،ان کے حد اختیار والے علاقوں میں مختلف محکموں کے کام کاج اور اثاثوں پر کنٹرول کے علاوہ مالی تصرف پر اہم اختیارات دئیےگئے ۔
گورنر کے اس فیصلے کی کشمیرمیں نکتہ چینی ہوئی اور کئی حلقوں نے یہ الزام لگایا کہ لداخ اِنتظامی لحاظ سے کشمیر ڈویژن کا حصہ ہے اس لیے ان کونسلوں کو ٹیکس عائد کرنے سمیت منتخبہ حکومت کی عدم موجود گی میں بڑے حد تک مالی اور اِنتظامی اختیارات دینا عوام کے سیاسی اور اقتصادی حقوق کی سخت خلاف ورزی ہے ۔کئی حلقوں نے ریاستی انتظامی کونسل کے اس فیصلے کو رد کرنے کی بھی مانگ کی تھی البتہ ایسا نہیں ہو ا ۔ آج یہ کونسل ملک کے سب سے بااختیار ترقیاتی کونسل بن گئے ہیں۔
لداخ کو ڈویژنبنانے کے فیصلے کا ردعمل
گورنر ستیہ پال ملک کی طرف سے 8؍ فروری کو لداخ خطے کو نیا ڈویژن بنانے کے فیصلے کااگر چہ یہ کہہ کر دفاع کیا گیا کہ علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے یہ بے حد ضروری ہے تاہم ریاست خاص کر وادئ کشمیر میں اس کامنفی ردِّعمل سامنے آیا ہے ۔ ریاست کی بڑی جماعتوں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا مگر اُنہوں نے گورنر انتظامیہ پر منافرت اور امتیاز برتنے کا بھی الزام لگایا ہے۔اِ ن تینوں پارٹیوں نے جموں خطے کے دُشوارگزار مسلم اکثریت والے پیر پنچال اور چناب کو بھی اسی طرز پر ڈویژن بنانے کی مانگ کی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگرانہیں اسمبلی اِنتخابات میں کامیابی ملی ، وہ فوراً خطۂ چناب اور پیر پنچال کو ڈویژن کا درجہ دیں گے جن کی آبادی لداخ خطے سے زیادہ ہے۔
گورنر انتظامیہ نے لداخ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر کو لیہہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سیاسی و سماجی حلقے خاص کر کرگل کے عوام نے سخت مخالفت کی ۔ کرگل میں اس معاملے کو لے کراحتجاج ہوئے ۔کرگل کے عوام کا الزا م ہے کہ مسلم اکثریت والے کرگل کوماضی کی طرح اس بار بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔کرگل کے رہنے والے ایک نوجوان اُستاد عبدالحسین نے وائر کو بتایا؛ ‘چاہے 1990 میں ہِل ڈیولپمنٹ کونسل کا قیام ہو یا حال ہی میں لداخ میں اعلان شدہ یونیورسٹی کا قیام ، کرگل کے عوام کی خواہشات کو ہمیشہ نظر انداز کر کے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔حسین کے مطابق ،بی جے پی لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے پر کاربند ہے جو کرگل کے عوام کے لئے ناقابل قبول ہے کیوں کہ اس سے کرگل کی عوام مزید کسمپرسی کی حالت میں مبتلا ہوں گی۔’
کرگل کی عوام اور سیاسی قیادت نے کرگل کے ساتھ امتیاز برتے جانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ لداخ ڈویژن کاہیڈ کوارٹر لیہہ میں رکھنا اُن کے لئے ناقابل قبول ہے ۔اِسے ششماہی بنیادوں پر سری نگر اور جموں کی طرح لیہہ اور کرگل میں رکھا جانا چاہیئے۔کرگل کی سیاسی قیادت گورنر کے اس فیصلے پر سیخ پا ہے ۔
پہاڑی ترقیاتی کونسل کرگل کے چیف ایگزیکٹیو کونسلر فیرو ز احمد خان نے وائر کو بتایا؛’ گورنر کا فیصلہ ہمارے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں ۔ہم کسی بھی صورت میں لداخ کا ہیڈ کوارٹر لیہہ میں رکھے جانے کو قبول نہیں کریں گے۔’فیروز خان نے گورنر کے اس فیصلے کے بعد جموں میں سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ میں فیصلے کا جائزہ لیا ۔ میٹنگ کے بعد اُنہوں نے کہاتھا؛’ہم لداخ کو الگ ڈویژن بنانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔اگر ششماہی بنیادوں پر کرگل میں بھی ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر نہیں رکھا گیا تو ضلع کے تمام سیاسی نمائندے اجتماعی طور استعفیٰ دیں گے۔’ اُنہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ الگ ڈویژن کی مانگ پہلے کرگل کی عوام نے سامنے رکھی تھی مگر انہیں ماضی کی طرح نظر انداز کر کے گورنر انتظامیہ نے جو فیصلہ لیا ہے وہ مایوس کُن اور ناقابل قبول ہے ۔
فیصلے کی شدید نکتہ چینی کے بعد گورنر نے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے سیکریٹریز کی ایک کمیٹی تشکیل دی مگر اس سب کے باوجود بھی کرگل میں زور دار احتجاج ہوئے ۔ کمیٹی کی تشکیل پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر نے کہا ؛’یہ ایک بھونڈا مذاق اور معاملے کو تہہ خانے میں رکھنے کی چال ہے کیوں کہ لداخ کو ڈویژن کا درجہ دینے کے فیصلے سے پہلے گورنر نے کسی بھی سیاسی پارٹی یا مقامی عوام کو اعتما د میں نہیں لیا۔’نعیم اختر نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ،’ کمیٹی کے پاس کوئی لیبارٹری نہیں ہے جس میں وہ اس معاملے کا حل ڈھونڈ سکے۔’
اس سخت عوامی اور سیاسی ردعمل کے بعد سرکار نے گھٹنے ٹیک دئے اور 15 فروری کو بالآخر گورنر انتظامیہ نے کرگل کے عوام کی مانگ کو قبول کرتے ہوئے نئے لداخ ڈویژن کا ششماہی ہیڈکوارٹر لیہ میں بھی رکھنے کا اعلان کیا۔اسطرح لداخ میں فی الحال منافرت اور فرقہ پرستی کا خدشہ ٹل گیا مگر پیر پنچال اور چناب کو الگ صوبے بنانے کی مانگ جاری ہے۔
اِدھر کئی سیاسی تجزیہ کار تجزئیے کر رہے ہیں کہ ریاست کے دُور دراز کے خطوں کی ترقی کا بہانہ ایک طرف ، مرکز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔کشمیر کے ایک ممبر اسمبلی انجینئر رشید کے مطابق؛’ گورنر کا یہ فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جو انہوں نے بی جے پی کی ایما پر لیا ہے تاکہ لداخ خطے میں مسلم اکثریت والے کرگل ضلع کی ہیئت کو تبدیل کرکے لداخ کومرکزی کا زیر انتظام علاقہ یا’یونین ٹریٹری’ بنایا جاسکے۔’انجینئر کے مطابق،’یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ ریاست کے تین حصے کئے جائیں اور حقِ خود رادیت کی آواز کو دبایا جاسکے۔
سینئر صحافی یوسف ندیم کے مطابق؛’لداخ ایک دُشوار گزار خطہ ہے جسے ڈویژن کا درجہ دینا ناگزیر بن گیا تھا مگر مسلم اکثریت والے کرگل اور چناب و پیر پنچال خطوں کو بار بار نظر انداز کرنا ایک سوچا سمجھا منڈویژنہے ۔’ان کے مطابق ،’اگر ریاست کو منافرت سے دُور رکھنا ہے تو پیر پنچال اور چناب کو بھی جلد سے جلد صوبوں کا درجہ دیا جانا چاہیئے مگر ہندوتوا کے نام پر اقتدار میں آئی بی جے پی کے لئے شاید یہ مناسب نہ ہو۔’
دوسری طرف خطۂ چناب کی سیاسی قیادت بھی آگ بگولہ ہے ۔ پی ڈی پی کے سابق وزیر اور درہال راجوری حلقے کے سابق ممبر اسمبلی چودھری ذوالفقار علی نے بتایا؛’پیر پنچال خطے کی عوام کو ہمیشہ جموں کے لیڈروں نے نظر انداز کیا ہے۔ اگر خطے کو الگ ڈویژن نہیں بنایا گیا توہم ریاست گیر احتجاج شروع کریں گے ۔’ چناب ویلی ورکرس یونین نے خطے کی پسماندگی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ؛’چناب خطہ ترقی کے محاذ پر کافی پسماندہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خطے کی آبادیوں میں سے محض 22فیصد آبادیوں تک گاڑیوں کی آمد رفت ممکن ہے جبکہ باقی ماندہ تک سڑکیں بھی نہیں جاتیں۔’
اِدھر بی جے پی قیادت لداخ کو مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنانے پر اڑی ہوئی ہے ۔بی جے پی کے ترجمان سنیل سیٹھی نے اس فیصلے کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ لداخ تمدنی اور جغرافیائی لحاظ سے کشمیر سے مختلف ہے اس لئے اس فیصلے میں کوئی خرابی نہیں۔سیٹھی نے پیر پنچال اور چناب خطوں کو صوبوں کا درجہ دینے کی مانگ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جموں میں اس طرح کا کوئی تضاد نہیں اس لئے انہیں الگ صوبوں کے طور درجہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ایک طرف کرگل کی سیاسی قیادت اور عوام’امتیازی سلوک ‘کے لئے سراپا احتجاج ہیں ، دوسری طرف بودھ اکثریت والے لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل لیہہ کے چیف ایگزیکٹیو کونسلر جمیانگ نمگیال کا کہنا ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کا لداخ کی عوام کے لئے ایک’مشفقانہ’ فیصلہ ہے جو لداخ کوایک یونین ٹریٹری بنانے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے ۔
ایسے میں جب لداخ کوالگ ڈویژن بنایا گیا ہے اور کرگل اور خطۂ چناب کوعلاحدہ ڈویژن بنانے کی مانگیں بڑھ رہی ہیں ،تجزیہ کار یہی تجزئیے کر رہے ہیں کیا ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے بیج اب باضابطہ طور پر بو دئیے گئے ہیں!
(نصیر احمد سرینگر میں مقیم ملٹی میڈیا صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔)
Categories: فکر و نظر