وشو ہندو پریشد کو اپنی رام مندر تحریک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ اس کی مہم سے بی جے پی کو سیاسی فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کو لےکر کسی بھی طرح کی شدت پسندی مودی حکومت کے خلاف جائےگی، اس لئے اس نے مدافعتی رویہ اختیار کرتے ہوئے کچھوے کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں سمیٹ لئے ہیں۔
گزشتہ دنوں وشو ہندو پریشدنے ایک حیرت انگیز بیان میں کہا کہ اس نے ایودھیا میں’وہیں’رام مندر تعمیر کی اپنی مہم لوک سبھا انتخابات تک روک دی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ یہ انتخابی مدعا بنے۔اس کا اعلان اس معنی میں تو چونکاتا ہی ہے کہ یہ پریاگراج کمبھ میں اس کے ذریعے منعقد دھرم سبھا میں ہنگامے کے درمیان منظور اس تجویز کے بعد آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایودھیا میں عالی شان رام مندر کی تعمیر تک نہ ہندو خود چین سے بیٹھیںگے، نہ ہی دوسروں کو بیٹھنے دیںگے۔
ساتھ ہی اس معنی میں بھی حیران کرتا ہے کہ وہ اپنی ہی دھرم سبھا کی تجویز کی الٹی راہ پر چل پڑا ہے۔ اس حوالے سے، ملک کی دونوں بڑی قومی پارٹیوں-کانگریس اور بی جے پی-میں ہندو کارڈ کی چھیناجھپٹی کے درمیان ایک فروری، 1986 کو ایودھیا کی متنازعہ بابری مسجد میں لگے تالے کھولے جانے کے بعد سے اب تک کے لوک سبھا اور اتر پردیش اسمبلی کا ایک بھی ایسا انتخاب نہیں ہے، جس کے قریب آنے پر وشو ہندو پریشد نے رام مندر مدعا کو گرمانے، آسمان سر پر اٹھانے اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے سے ذرا بھی پرہیز کیا ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے رائے دہندگی کی تاریخوں کی منادی بعد میں ہوتی رہی ہے اور وشو ہندو پریشدکے فوجی اور سپہ سالار اس تنازعہ کے بہانے نہ صرف ایودھیا بلکہ سارے ملک کے امن و سکون کے دشمن بنکر اس کے سینہ پر مونگ دلنے پہلے آ جاتے رہے ہیں۔ایسے میں اس کے تازہ اعلان سے جڑا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا اچانک اس کا دل بدل گیا یا کم سے کم اتنی سمجھداری آ گئی ہے، جتنی صبح کے بھولے کو شام گھر لوٹنے کے لئے چاہیے ہوتی ہے؟
جو لوگ ایودھیا تنازعہ یا کہ وشو ہندو پریشد کو قریب سے نہیں جانتے، وہ اس کا جواب ہاں میں دے سکتے اور تنازعے کو انتخابی مدعا نہ بننے دینے کے اس کے مقصد کی تقدیس اور دریادلی کی تعریف بھی کر سکتے ہیں۔لیکن جو ان دونوں کو قریب سے جانتے اور تنازعے کی بدلی ہوئی حالات سے آگاہ ہیں، ان کے مطابق یہ مہم روکنا تنازعے کی دلدل میں آ پھنسی وشو ہندو پریشدکی اس سے باہر نکلنے اور تنازعے سے نریندر مودی حکومت کے سیاسی نقصان کوگھٹانے کی قواعد بھر ہے۔
ہاں، اس قواعد سے ایک بار پھر تصدیق ہوئی ہے کہ وشو ہندو پریشد کہتا بھلےہی رہا ہے کہ ایودھیا مدعا سیاسی نہ ہوکر ہندوؤں کے عقیدہ سے جڑا ہوا ہے، اس کے لئے اس کی بی جے پی کے سیاسی فائدہ کے لئے ناجائز استفادہ ہی پہلی ترجیح ہے۔تبھی تو اس بار اس ناجائز استفادہ کے الٹا پڑنے اور ساری جوابدہی مودی اور یوگی حکومتوں کے گلے آ پڑنے کا اندیشہ ہے تو اس نے نو سو چوہے کھاکر حج کو چلی بلی کی طرح اپنی مہم ملتوی کرکے اس کو انتخابی نہ بننے دینے کے مقدس مقصدسے جوڑ لیا ہے۔
یہاں اس کے ذریعے یہ کہنے کا ٹھیک ٹھیک معنی سمجھے جانے کی ضرورت ہے کہ وہ انتخاب کے بعد نئی حکومت بننے پر آگے کی حکمت عملی طے کرےگا۔اس کا صاف صاف معنی ہے کہ ‘اپنی’نریندر مودی حکومت لوٹ آئی تو وہ ایسے ہی اپنی تلواریں میان میں رکھے رہےگا، لیکن کوئی’غیر کی’یا’دشمن’حکومت بنی تو وہ ان کو میان سے نکالکر چمکانے، دھمکانے، آسمان سر پر اٹھانے اور بیخ کنی کی آگ بھڑکانے لگےگا۔
تھوڑا پیچھے جاکر دیکھیں تو وشو ہندو پریشد کا یہ اعلان ویسے ہی حکمت عملی کے تحت لگتا ہے، جیسے اس نے 9 نومبر، 1989 کو ایودھیا میں رام مندر کے سنگ بنیاد کے وقت اپنائی تھی۔تب اس نے سنگ بنیاد کے لئے سمجھوتہ میں مقامی انتظامیہ اور حکومت کی کئی’ناپسند’شرطیں مان لی تھیں لیکن بعد میں ان سے مکرکر ڈھیر سارے مسائل کھڑا کرنے لگا تھا۔
اٹل بہاری واجپائی کے دور میں وشو ہندو پریشد کی خاموشی بھی حکمت عملی کے ہی تحت تھی، جس میں بی جے پی کو مرکز ی اقتدار میں ٹکانے کے لئے قومی ڈیموکریٹک الائنس بناکر دفعہ 370 اور یکساں سول کوڈ کے ساتھ رام مندر مدعا کو بھی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا تھا۔
یہاں یاد کرنا چاہیے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی نے ‘وکاس کے مہانایک ‘کا اپنا خول پھٹنے سے بچانے کے لئے رام مندر مدعا کی بات تک سے پرہیز بنائے رکھا تھا، لیکن رام مندر تعمیر کا وعدہ بی جے پی کے منشور میں بدستور بنا رہا تھا۔ تاکہ عوامی ترقی کی آرزو کے ساتھ رام مندر معاملے کا کامیاب گھال میل کیا جا سکے۔
فطری طورپر 2014 میں بی جے پی کی مودی حکومت نے ملک کا اقتدار سنبھالیا اور 2017 میں اتر پردیش اسمبلی انتخاب جیتکریوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلی بنایا تو آگے کی انتخابی کامیابیوں کے لئے اشتہار دیا جانے لگا کہ اب تو کسی بھی طرح رام مندر کی تعمیر ہوکر رہےگی۔راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے انتخابات میں بھی ان امیدوں کو خوب ہوا دی گئی، لیکن بازی ہاتھ سے پھسلکر رہی۔ پھر تو نہ صرف وشو ہندو پریشدبلکہ اکثر تمام راشٹریہ سویم سیوک سنگھ فیملی نے اس بات پر زور دینا شروع کیا کہ مودی حکومت رام مندر تعمیر کے لئے فوراً کوئی نہ کوئی فیصلہ کرے-معاملے کے سپریم کورٹ میں ہونے کے باوجود فرمان لائے یا قانون بنائے۔
وشو ہندو پریشدنے اپنی اس مانگ پر زور دینے کے لئے ملک بھر میں ریلیاں تو کی ہی، اکثر تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے رکن پارلیامان سے رابطہ کرنے اور ملنے کا بھی دعویٰ کیا۔ لیکن کوئی بھی تدبیر کام نہیں آئی۔کئی بلاواسطہ – بِالواسطہ دباؤ کے باوجود عدالت نے معاملے کی فوراً سماعت کی دلیلیں خارج کر دیں اور پیچیدگیوں کی وجہ سے فرمان یا قانون کی راہ بھی ہموار نہیں ہوئی۔
تب وقت کی نزاکت دیکھ مودی’مہانایک ‘کی کرسی سے نیچے اترکر اپنے خلاف مہاگٹھ بندھن بنانے کی کوششوں کو کمتر بتاتے ہوئے شاطر طریقے سے یہ ثابت کرنے لگ گئے کہ ان کے دور اقتدار میں رام مندر کی تعمیر نہ ہو پانے کے لئے بھی وہ یا ان کی حکومت نہیں، کانگریس اور اس کے وکیل ذمہ دار ہیں۔سچ یہ ہے کہ یہ وکیل رام مندر تنازعے کے ان جماعتوں کی ہی پیروی کرتے ہیں، جو ان کو فیس دیتے ہیں اور مودی اسی کے تباہ کن اور غیراخلاقی وضاحت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ان کی بدقسمتی کہ اس کے باوجود وہ وزیر اعظم کے طور پر خود کو ایسے سوالوں سے نہیں بچا پا رہے کہ ان کے جیسے’مہانایک’کے رہتےاپوزیشن میں بیٹھی کانگریس اتنی طاقتور کیسے ہو گئی ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر روک دے؟
اس کے وکیل ان کی حکومت کے وکیلوں سے زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں تو عوام کیا کریں؟ آخر وہ اس کو اقتدار سے ہٹانے کے علاوہ اور کون-سی سزا دے سکتے ہیں؟ظاہر ہے کہ وشو ہندو پریشد کو اپنی رام مندر تحریک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس کی تحریک چلانے سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔
اس سے پیدا ہوئے عدم تحفظ کا احساس اس کو گزشتہ سال نومبر میں ہی ہوگیا تھا، جب بی جے پی کی اتحادی شیوسینا نے’پہلے مندر، پھر حکومت ‘کا نعرہ دےکر وشو ہندو پریشد کو اس کے گڑھ ایودھیا میں ہی شکست دے دی تھی۔اب، اس سے ہوئے نقصان کے کنٹرول کے لئے کمبھ میں اسپانسرشدہ دھرم سبھا کا ہنگامہ بھی الٹے وشو ہندو پریشد کے منصوبوں پر ہی آ گرا ہے۔ شنکرآچاریہ سوامی سوروپانند کے 21 فروری کو مجوزہ ایودھیا کوچکے چلتے اس کے حامی بھی مانتے ہیں کہ سنتوں-مہنتوں اور رام مندر حامیوں کی’یکجہتی’خطرے میں پڑ گئی ہے۔
وشو ہندو پریشدسے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ ایسے میں رام مندر کو لےکر کوئی بھی شدت پسندی مودی حکومت کے خلاف ہی جائےگی اور اس کو کئی ناپسندیدہ اور ان چاہے سوالوں کے جواب دینے پڑیںگے، اس لئے اس نے مدافعتی رویہ اختیار کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اور کچھوے کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں سمیٹ لئے ہیں۔
لیکن اس بابت کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ سازگار ماحول کی آہٹ ملتے ہی یہ ہاتھ-پاؤں پھر سے باہر نکال لئے جائیںگے۔ اس بات کا اندازہ اس کی اس زبان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی مہم اس لئے ردکر رہا ہے تاکہ سیکولر برادری کو اس ‘مقدس’تحریک کو سیاسی دلدل میں گھسیٹنے کا موقع نہ ملے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر