سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کر کے کہا گیا ہے کہ ہندو جو ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق ایک اکثریتی کمیونٹی ہے، نارتھ ایسٹ کی کئی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں اقلیت ہے۔ کورٹ نے اقلیتی کمیشن کو تعریف طے کرنے کے لئے تین مہینے کا وقت دیا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ‘ اقلیت ‘ لفظ کی تعریف طے کرنے میں جٹے اقلیتی کمیشن نے کہا ہے کہ اس تناظر میں کچھ عملی دقت ہے جس کی وجہ سے وہ آئینی معاملوں کے ماہرین کی رائے لےگا۔حالانکہ کمیشن نے واضح کیا ہے کہ آئین اور سبھی کے مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہ اپنی رپورٹ تین مہینے کی معینہ مدت کے اندر حکومت اور سپریم کورٹ کو سونپ دےگا۔
اقلیتی کمیشن کے صدر سید غیورالحسن رضوی کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں غور کرنے اور رپورٹ تیار کرنے کے لئے کمیشن کے نائب صدر جارج کرین کی صدارت میں تین رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی معینہ مدت میں اپنا کام پورا کرنے کی امید ہے۔رضوی نے کہا، ‘ اقلیت لفظ کی تعریف طے کرنے میں تین بنیادی بات ہوتی ہیں۔ ایک قومی سطح پر آبادی کی بنیاد ہے، دوسری زبان کی بنیاد ہے اور تیسری صوبائی سطح پر آبادی کی بنیاد ہے۔ کس بنیاد پر تعریف ہونی چاہیے، یہ ہمیں طے کرنا ہے۔ ‘
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کمیشن کے سامنے یہ طے کرنے میں کچھ عملی دقتیں ہیں تو انہوں نے کہا، ‘ دقت ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ صوبائی سطح پر آبادی کے مطابق تعریف طے کیجئے تو کچھ لوگ زبان کی بنیاد کی بات کرتے ہیں۔ کل لوگ یہ بھی کہنے لگیںگے کہ ضلع یا بلاک سطح کی آبادی کی بنیاد پر تعریف طے کیجئے۔ اس لئے ہمیں اتفاق رائے سے اور آئین کے مطابق حل نکالنا ہے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ میں نے کمیٹی سے کہا ہے کہ اس معاملے میں آئینی معاملوں کے ماہرین کی رائے لی جائے۔ ‘
ایک سوال کے جواب میں رضوی نے کہا، ‘ سپریم کورٹ کے حکم سے ملک کے اقلیتوں یا دوسرے کسی بھی طبقے کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آئین اور سبھی کے مفادات کے مطابق اپنی سفارشیں کریںگے۔ ‘غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 11 فروری کو قومی اقلیتی کمیشن کو اقلیت لفظ کی تعریف تین مہینے کے اندر طے کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ اپنی مانگ سے متعلق عرضی کمیشن کے سامنے پھر سے داخل کریں جس پر طے وقت کے اندر فیصلہ ہوگا۔وکیل نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ قومی سطح کی آبادی کی بجائے ریاست میں ایک کمیونٹی کی آبادی کی بنیاد پر اقلیت لفظ کی پھرسے تعریف کرنے اور اس پر دوبارہ غور کئے جانے کی ضرورت ہے۔
بی جے پی رہنما اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر پی آئی ایل عرضی میں کہا گیا تھا کہ ملک گیر آبادی کے اعداد و شمار کے بجائے ریاست میں ایک کمیونٹی کی آبادی کے تناظر میں اقلیت لفظ کو پھر سے واضح کرنے اور اس پر دوبارہ غور کئے جانے کی ضرورت ہے۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ ہندو جو ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق ایک اکثریتی کمیونٹی ہے، وہ نارتھ ایسٹ کی کئی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں اقلیت ہے۔
عرضی میں کہا گیا کہ ہندو کمیونٹی ان فوائد سے محروم ہے جو کہ ان ریاستوں میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے موجود ہیں۔ اقلیتی پینل کو اس تناظر میں ‘ اقلیت ‘ لفظ کی تعریف پر پھر سے غور کرناچاہیے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ مسلمان لکش دیپ میں 96.20 فیصد، جموں و کشمیر میں 68.30 فیصد ہوتے ہوئے اکثریت ہیں جبکہ آسام میں 34.20 فیصد، مغربی بنگال میں 27.5 فیصد، کیرل میں 26.60 فیصد، اتر پردیش میں 19.30 فیصد اور بہار میں 18 فیصد ہوتے ہوئے اقلیتوں کے درجے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ پہچان نہ ہونے کی وجہ سے جو اصل میں اقلیت ہیں، ان کو فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اس لئے حکومت کی نوٹیفکیشن من مانی ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ عیسائی میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ میں اکثریت میں ہیں جبکہ اروناچل پردیش، گووا، کیرل، منی پور، تمل ناڈو اور مغربی بنگال میں بھی ان کی تعداد اچھی ہے، اس کے باوجود یہ اقلیت مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں سکھ اکثریت میں ہیں جبکہ دہلی، چنڈی گڑھ، اور ہریانہ میں بھی اچھی تعداد میں ہیں لیکن وہ اقلیت مانے جاتے ہیں۔
اشونی کمار اپادھیائے نے عرضی میں یہ بھی مانگ کی ہے کہ مرکزی حکومت کی 23 اکتوبر، 1993 کی اس نوٹیفکیشن کو رد کیا جائے، جس میں پانچ کمیونٹی-مسلمان، عیسائی، بودھ ، سکھ اور پارسی کو اقلیتی قرار دیا گیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں