خبریں

سپریم کورٹ کے حکم سے 10 نہیں، تقریباً20 لاکھ آدیواسی ہو سکتے ہیں زمین سے بےدخل

قبائلی معاملات کی وزارت کے ذریعے جمع اعداد و شمار کے مطابق 30 نومبر، 2018 تک ملک بھر میں 19.39 لاکھ دعووں کو خارج کر دیا گیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تقریباً20 لاکھ آدیواسی اور جنگل میں رہائش پذیرلوگوں کوجنگل کی زمین سے بےدخل کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں چھتیس گڑھ کے دھارباگڑا میں ایک کیمپ میں بیٹھے آدیواسی۔ (فائل فوٹو : رائٹرس)

ہندوستان میں چھتیس گڑھ کے دھارباگڑا میں ایک کیمپ میں بیٹھے آدیواسی۔ (فائل فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: گزشتہ  بدھ کو یہ خبرآئی تھی کہ سپریم کورٹ نےتقریباً10 لاکھ سے زیادہ آدیواسیوں اور جنگل میں رہائش پذیر لوگوں کو جنگل کی زمین سے بےدخل کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت کے حکم کے مطابق، جن فیملیوں کے جنگل کی زمین کے دعووں کو خارج کر دیا گیا تھا، ان کو ریاستوں کے ذریعے اس معاملے کی اگلی سماعت سے پہلے بےدخل کیا جانا ہے۔حالانکہ کورٹ کے حکم کی وجہ سے تقریباً20 لاکھ آدیواسی اورجنگل میں رہائش پذیر  فیملی متاثر ہو سکتے ہیں۔یہ اعداد و شمار قبائلی معاملات کی وزارت کے ذریعے جمع اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ وزارت کے مطابق 30 نومبر، 2018 تک ملک بھر میں 19.39 لاکھ دعووں کو خارج کر دیا گیا تھا۔

کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی پہلی  مدت کار میں پاس ہونے والے فاریسٹ رائٹس ایکٹ (ایف آر اے)کے تحت حکومت کو طےشدہ معیار کے مطابق آدیواسیوں اور دیگر جنگل میں رہائش پذیر کو روایتی جنگل کی زمین واپس سونپنا ہوتا ہے۔ سال 2006 میں پاس ہونے والے اس ایکٹ کی متعلقہ افسروں کے ساتھ وائلڈ لائف گروپوں اور نیچرلسٹوں نے مخالفت کی تھی۔جنگل میں رہائش پذیر لوگوں  کی  ایک قومی تنظیم ‘ کیمپین فار سروائیول اینڈ ڈگنٹی’کے سکریٹری شنکر گوپال کرشنن کے مطابق، یہ حکم ان ریاستوں کے لئے نافذ ہوتا ہے جس کو سپریم کورٹ کے ذریعے ذاتی طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ حالانکہ آنے والے وقت میں یہ تعداد اور بڑھے‌گی۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،جیسے ہی دیگر ریاستیں عدالتوں میں اپنا حلف نامہ دائر کریں‌گی، ان کے لئے بھی ممکنہ طور پر ایسا ہی حکم منظور ہوگا اور اس طرح متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھ جائے‌گی۔ ‘گوپال کرشنن نے کہا کہ فارسیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے آدیواسیوں کو زمین سے بےدخل کرنے کے لئے اس حکم کاغلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔عدالت کا یہ حکم ایک وائلڈ لائف گروپ کے ذریعے دائر کی گئی عرضی کے پیش نظر آیا ہے جس میں اس نے ایف آر اے  کے جواز پر سوال اٹھایا تھا۔

درخواست گزار نے یہ بھی مانگ کی تھی کہ وہ تمام لوگ جن کے روایتی جنگل کی زمین پر دعوے قانون کے تحت خارج ہو جاتے ہیں، ان کو ریاستی حکومتوں کے ذریعے خارج کر دیا جانا چاہیے۔درخواست گزار بنگلورو واقع وائلڈلائف فرسٹ جیسی کچھ غیرسرکاری تنظیموں  کا ماننا ہے کہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی میں تیزی آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون بچا بھی رہ جاتا ہے تب بھی دعووں کے خارج ہونے کی وجہ سے ریاستی حکومتیں اپنےآپ قبائلیوں کو باہر کر دیں‌گی۔

قبائلی گروپوں کا کہنا ہے کہ کئی معاملات میں دعووں کو غلط طریقے سے خارج کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا نئے قانون کے تحت تجزیہ ہونا چاہیے جس کو قبائلی معاملات کی وزارت نے اصلاحاتی عمل کے طور پر لایا تھا۔ قانون کے تحت ان کو اپنےآپ باہر نہیں نکالا جا سکتا ہے اور کچھ معاملات میں تو زمینیں ان کے نام پر نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کو آبائی جنگل جائیداد کے طور پر ملی ہیں۔

ایف آر اے  کے بچاؤ کے لئے مرکزی حکومت نے جسٹس ارون مشرا، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس اندرا کی بنچ کے سامنے 13 فروری کو اپنے وکیلوں کو ہی نہیں بھیجا۔ اسی وجہ سے بنچ نے ریاستوں کو حکم دے دیا کہ وہ 27 جولائی تک ان تمام آدیواسیوں کو بےدخل کر دیں جن کے دعوے خارج ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے اس کی ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرنے کو بھی کہا۔ یہ تحریر شدہ حکم 20 جنوری کو جاری ہوا ہے۔

آدیواسی معاملات کے وزیر کو اس مہینے کی شروعات میں بھیجے گئے ایک خط میں، اپوزیشن پارٹیوں  اور زمینی حقوق کارکنان کے گروپوں نے تشویش  کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند نے قانون کا بچاؤ نہیں کیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے، پچھلی تین سماعت میں-مارچ، مئی اور دسمبر 2018 میں-مرکزی حکومت نے کچھ نہیں کہا ہے۔ ‘ اس کے علاوہ گزشتہ13 فروری کو ہوئی آخری سماعت کے دوران کورٹ میں سرکاری وکیل موجود ہی نہیں تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے خط میں، سابق راجیہ سبھا رکن پارلیامان اور مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات نے بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے متاثر لوگوں کی کل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ چونکہ 42.19 لاکھ دعووں میں سے صرف 18.89 لاکھ دعووں کو منظور کیا گیا ہے، باقی 23.30 لاکھ دعوے دار کو حکم کی وجہ سے بےدخل کیا جائے‌گیا۔انہوں نے مودی سے آدیواسیوں کے حقوق  کی حفاظت کے لئے آرڈیننس منظور کرنے کی گزارش کی ہے۔

(اس رپورٹ کو تفصیل سے انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )