آدیواسیوں کی جنگل سے بے دخلی کا جو سلسلہ آزادی کے بعد سے کبھی ترقی تو کبھی ماحولیات کے نام پر چلا آ رہا ہے، کیا وہ کسی منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ حالانکہ جیسےجیسےآدیواسی تباہ ہو رہے ہیں،پریڈوں،عجائب گھر،آرٹ میلہ اور شہری تہواروں میں ان کی نمائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
23 لاکھ سے زیادہ آدیواسیوں کے سر پر ہفتے بھر سے ٹنگی بے دخلی کی تلوار چار مہینوں کے لئے ہٹا لی گئی ہے۔جس سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ ٹنگی تھی اسی نے اس کو فی الوقت کنارے کر دیا۔مرکزی حکومت اس معاملے کی پچھلی چار سماعتوں سے پراسرار طریقے سے غائب تھی۔مگر انتخاب سے عین پہلے آدیواسیوں کو اجاڑنے سے ان کے ووٹ سے بھی بےدخل ہونے کے امکان کو سونگھتے ہوئے وہ حلف نامہ لےکر 27 فروری کو سپریم کورٹ میں نمودار ہوئی۔
اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے پر روک لگا دی، مگر سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے پوچھ ہی لیا کہ مرکز نیند میں کیوں تھا، جبکہ پچھلا حکم 2016 میں جاری کیا جا چکا تھا۔بنچ نے کہا،آپ اب جگے ہیں نیند میں تھے؟ آپ پچھلے کئی سالوں سے کیوں سوئے ہوئے تھے؟ مہتہ کو مرکز کی طرف سے ہوئی چوک کو تسلیم کرنا پڑا۔
حکومت کی پچھلے سالوں کی خاموشی دراصل ملک کے جنگلات میں کارپوریٹ اور آدیواسیوں کے درمیان ہوتے دنگل کے پیچھے کی کہانی کو بیان کرتی ہے۔ مگر حکومت کی خاموشی سے کوئی کم بڑا سوال نہیں ہے ملک کے متوسط طبقے کی خاموشی۔تقریباً 20 لاکھ آدیواسیوں کے دردر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہو جانے کے قومی المیہ پر ملک میں دکھ یا غصہ کی کوئی لہر نہیں دوڑی۔اتنی بڑی خبر اخباروں کے حاشیے میں سمٹ گئی۔ ایک آدھ چینلوں نے ہی اس کو بحث طلب مانا۔
آدیواسیوں کے درمیان کام کرنے والی تنظیموں اور چند ذمہ دار صحافیوں اور دانشوروں نے ضرور آواز اٹھائی۔ مگر یہ خبر متوسط طبقہ دنیا کے اینٹینے کی گرفت سے باہر رہی۔ تب ہمیں اس سوال کا سامنا کرنا چاہیے کہ کیا ملک کے ڈسکورس اور ورکنگ لسٹ سے آدیواسی کو سرکاری طور پر باہر کر دیا گیا ہے؟آدیواسیوں کی جنگل سے بے دخلی کا جو سلسلہ آزادی کے بعد سے کبھی ترقی تو کبھی ماحولیات کے نام پر چلا آ رہا ہے، کیا وہ اپنے کسی منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ حالانکہ جیسےجیسے آدیواسی تباہ ہو رہے ہیں، پریڈوں، عجائب گھر، آرٹ میلہ اور شہری تہواروں میں ان کی نمائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
حال ہی میں ہم نے یہ منظر دیکھا کہ گورنر جیسے اہم آئینی عہدے پر بیٹھا کوئی آدمی یہ پیغام دے سکتا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے، مگر کشمیری نہیں۔ کشمیریوں کے بغیر کشمیر کی خوبصورتی اور اس کی جمالیات جنون کی نفسیات سے ہم رشتہ ہوکر وائرل ہو گئی۔ اس پر متوسط طبقہ کے سائبر ملک کی دنیا میں لائکس کے ڈھیر لگ گئے۔کیا یہی دل کا میل آدیواسیوں کے بارے میں متوسط طبقہ کے شعور میں داخل کر چکا ہے؟آدیواسی علاقے ملک کے ہیں۔مگر آدیواسی نہیں۔ اس کے معدنیات، لکڑی، دستکاری، شیر، چیتا، قدرتی فضا، حیاتیاتی تنوع سب ہمارے ہیں۔ آدیواسی نہیں۔
آدیواسی کو جنگل سے نکالے جانے کے بعد جنگل صاف ہو جائیںگے۔ وہاں کے وسائل کا- ملک یعنی متوسط طبقہ اور اس کے اوپر کے رؤسا کے لئے کھل کر استحصال کیا جا سکےگا۔ شہروں سے جنگل پہنچے سیاح بھوپال کے ون وہار جیسے کھلے اور وسیع قدرتی چڑیا گھروں میں فطرت اور جنگلی حیوانات کی الگ خوبصورتی پا کر اپنی زندگی کو خوبصورت بنا سکیںگے۔
جتنا یہ آدیواسیوں اور جنگلات میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے، اتنا ہی ملک کے جنگلات کے مستقبل پر خطرہ کی گھنٹی ہے۔ جنگل ملک کے ان اضلاع میں ہی بچے ہیں، جہاں آدیواسی رہتے ہیں۔اتر پردیش، بہار، ہریانہ، پنجاب میں آدیواسی نہیں کے برابر ہیں۔ جنگل بھی نہیں کے برابر ہیں۔
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اڑیسہ میں جہاں جہاں آدیواسی ہیں، بھرپور جنگل ہے۔ چھتیس گڑھ میں جن ضلعوں میں آدیواسی زیادہ ہیں، وہیں جنگل زیادہ ہیں۔ یہی بات کم و بیش ملک کی باقی ریاستوں پر نافذ ہوتی ہے۔ کیا عدلیہ تک یہ سمجھ پہنچ پائےگی کہ آدیواسی کی جنگل والی طرز معاشرت ہی جنگل کو بچاتی ہے۔
حکومت، کارپوریٹ، کاروباری، ٹھیکے دار، محکمہ جنگلات کے افسر، خود میں ڈوبا متوسط طبقہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو پتہ ہی نہ ہو کہ آدیواسی کی آسان غیرصارفی زندگی کا طریقہ اور جنگل کو وسائل نہیں بلکہ گھر ماننے کی اخلاقیات نے ہی آج تک جنگل بچائے ہیں۔ انگریزوں نے صنعتوں اور ریلوے کے لئے بانس، عمارتی لکڑی اور دیگر لکڑی کے اندھادھند صرفہ کے لئے جنگل محکمہ بنایا تھا۔
المیہ یہ ہے کہ جس بھی آدمی کی جنگل محکمہ میں نوکری لگ جاتی ہے، وہ راتوں رات محب جنگلات اور ماہرماحولیات ہو جاتا ہے اور ریٹائر ہوتے ہی ہمیشہ کے لئے جنگل چھوڑ کرکسی شہر، قصبے میں لوٹ آتا ہے۔ آدیواسی وہیں رہ جاتا ہے، کسی نئے افسر سے جنگل کے تحفظ کا علم حاصل کرنے کے لئے۔
اس لئے بائیں محاذکی حمایت والی یو پی اے حکومت سے پہلے پانچ سالوں کے درمیان آیا 2006 کا جنگل حقوق قانون اس معنی میں تاریخی تھا کہ اس نے مانا تھا کہ تجارتی مفادات کے ساتھ انگریزوں کے آدیواسیوں کے گھر جنگل میں گھسنے کے بعد سے آدیواسیوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور یہ آزاد ہندوستان میں بھی جاری رہی ہے۔
اس قانون کا بڑا حاصل یہ تھا کہ اس نے شہروں کے بند کمروں میں بیٹھے ماحولیات کے بہادروں کے دل میں بنی آدیواسی کے جنگل میں دراندازی کی امیج کو تھوڑا دشوار کردیا تھا۔ حالانکہ یو پی اے-دو میں اس قانون کو کمزور کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔سیاحتی لابی، صنعتی لابی، مائن لابی، رئیسوں کی شہری ماحولیاتی لابی نے ٹھیکے داروں اور محکمہ جنگلات کے افسروں کے ساتھ ملکر قانون کو کمزور کرنے کا کام شروع کر دیا تھا، جس نے نئی حکومت آنے پر اور زور پکڑ لیا۔
بے دخلی کے تازہ فیصلے سے آدیواسی علاقوں میں یہ ڈر پھیل گیا تھا کہ کیا ہندوستانی ریاست 2006 کے پہلے کی’تاریخی ناانصافی’ کی طرف لوٹ جائےگا۔ اس لئے 28 فروری کو سپریم کورٹ کا اپنے ہی فیصلے کی تعمیل پر روک لگانا اہم ہے۔عدالت نے جنگل حقوق قانون کے تحت خارج دعووں کو حل کرنے کے لئے اپنائے گئے لائحہ عمل کی تفصیل بھی مانگی ہے۔ آدیواسی علاقوں میں کام کر رہی تنظیموں کو اگلے چار مہینے میں قانونی لڑائی میں خود کو جھونکنا ہوگا۔
مناسب کارروائی تب بڑا مدعا ہو جاتی ہے، جب جنگلات میں محکمہ جنگل کی چودھراہٹ کے درمیان ہی سارا عمل پورا کیا جا رہا ہو اوراس پر آدیواسیوں کو قانون-کچہری یا کاغذ- پتر کا شوق نہ ہو، وہی نوکرشاہی آدیواسیوں کے متعلق حساس نہ ہو۔اس لئے ریاستی حکومتیں الزام عدالت پر عائد کرکے اپنی جوابدہی سے پلہ نہیں جھاڑ سکتیں۔ زمین پر دعویٰ کے تصفیہ کا مناسب طریقہ اپنانا آخرکار ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ کارروائی میں اور اس کی نگرانی میں آدیواسیوں اور ان کے مفادات کی بات کرنے والی تنظیموں کو حصےداری دیںگی، تبھی اس کو ‘مناسب ‘کہا جا سکےگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر