سیکریٹ آؤٹ ہونے پر ہی گھوٹالہ آؤٹ ہوتا ہے۔ گھوٹالہ آؤٹ ہونے پر فائل کو سیکریٹ بتانے کا فارمولہ پہلی بار آؤٹ ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو ہر بات میں خود کو چوکیدار نہیں کہنا چاہیے۔ خود کو چوکیدار اور پردھان سیوک کہتےکہتے بھول گئے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر کچھ بھی بول جاتے ہیں۔
ہندوستان کی چوکیداری سسٹم میں بنیادی کنفیوژن ہے۔ چوکیدار کو پتہ ہے کہ اس سے چوکیداری نہیں ہو سکتی۔ اب لوگوں نے اس کو چوکیدار رکھنے کی غلطی کی ہوتی ہے، تو وہ اس کو ان کی غلطی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ ہر رات جاگتے رہو، جاگتے رہو چلاتا رہتا ہے۔ایسی چوکیداری ہندوستان میں ہو سکتی ہے۔ چین سے سونے کے لئے چوکیدار رکھو اور وہ سونے بھی نہ دے۔ الارم لگا لو بھائی۔ بہتر ہے کہ ہم وزیر اعظم کو چوکیدار سمجھنے کا بوگس ماڈل فوراً سمجھ لیں۔
جب سے انہوں نے خود کو چوکیدارمقررکیا ہے، وہ جاگتے رہو، جاگتے رہو کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ سب کی نیند خراب کر رہے ہیں۔ گلی کے ہر مکان کے پاس جاکے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر نکل جاتے ہیں۔ جب تک لوگ کروٹ بدلتے ہیں، چوکیدار دوسرے مکان کے پاس جا چکا ہوتا ہے۔آپ نے پنچ تنتر کی کہانیوں سے لےکے فلموں میں دیکھا ہوگا، اس ٹائپ کے چوکیدار کی دوسری گلی میں جاتے ہی چوری ہو جاتی ہے۔ وزارت دفاع سے سیکریٹ فائل چوری ہو گئی ہے۔ چوری چوکیدار کے پہنچنے سے پہلے ہوئی یا بعد میں،غیرذمہ دارانہ سوال ہے۔
اٹارنی جنرل کافی تخلیقی انسان لگتے ہیں۔ سیکریٹ فائل چوری ہونے کی بات کر کئی باتیں کر دیں۔ دی ہندو میں چھپی ساری رپورٹ کو صحیح بتا دیا۔ رپورٹ کے اندر چھپی رافیل معاہدے میں چوری کی باتوں کو صحیح بتا دیا۔ حکومت کی طرف سے جو سیکریٹ تھا، اس سیکریٹ کو آؤٹ کر دیا۔اب حکومت نہیں کہہ سکتی کہ دی ہندو میں جو چھپا ہے وہ صحیح جانکاری نہیں ہے۔ اس کی فائل کا حصہ نہیں ہے۔ اسی بات پر سپریم کورٹ کو جانچ کا حکم دے دینا چاہیے۔
وزارت دفاع سے سیکریٹ فائل کیسے چوری ہو گئی۔اوریجنل کاپی چوری ہوئی یا فوٹوکاپی۔ جہاں سیکریٹ فائل رکھی جاتی ہے اس کمرے میں کھڑکی اور دروازے ہیں یا نہیں۔ سیکریٹ فائل لے جانےلے آنے کا عمل کیا ہے۔ وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ ہے یا نہیں۔دوسرا جب دی ہندو میں چھپی خبریں صحیح ہیں تو یہ الزام صحیح ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کو ساری جانکاری نہیں دی۔ نہیں تو سپریم کورٹ اب بتائے کہ یہ وہی سیکریٹ فائل ہے جو بند لفافے میں ہمیں ملی تھی!
جنوری مہینے سے این رام دی ہندو میں رافیل معاہدے پر رپورٹ لکھ رہے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ کیسے وزارت دفاع کو اندھیرے میں رکھکے وزیر اعظم دفتر رافیل معاملے میں خودہی ڈیل کرنے لگا تھا۔ کیسے وزارت دفاع کے بڑے افسر اس پر اعتراض کررہے تھے۔ کیسے رافیل کا دام یو پی اے کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ ہے۔ کیسے بینک گارنٹی نہیں دینے سے رافیل کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ان سب خبروں کو ہندی اخباروں نے اپنے یہاں نہیں چھاپا۔ ان کے چمچے مدیروں کا ایک ہی ہدف ہے۔ حکومت سے سوال کرنے والی ہر جانکاری کی سیکریٹ فائل بناکر رکھ لو۔ چھاپو ووٹ۔
یہ بھی پڑھیں: رافیل ڈیل: دستاویز’چوری‘کے الزام کے بعد دی ہندو کے چیئر مین نے کہا-اپنے ذرائع کے تحفظ کے لئے پرعزم ہوں
این رام نے کہا ہے کہ وہ اپنے ذرائع کو لےکرسنجیدہ ہیں۔ اس کے بارے میں جاننے کی کوئی کوشش بھی نہ کریں۔سیکریٹ آؤٹ ہونے پر ہی گھوٹالہ آؤٹ ہوتا ہے۔ گھوٹالہ آؤٹ ہونے پر فائل کو سیکریٹ بتانے کا فارمولہ پہلی بار آؤٹ ہوا ہے۔ بوفورس سے لےکے 2 جی تک تمام گھوٹالے کی خبروں کو اسی طرح سے حاصل کیا گیا ہے۔
دنیا بھر کی عدالتوں میں منظور ہوا ہے اور ان کی بنیاد پر تفتیش آگے بڑھی ہے۔ حکومت رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔ فائل کی جانکاری کو سیکریٹ بتاکے وہ پھر سلامتی کے ہنگامے میں بچ نکلنا چاہتی ہے۔ ترجمان کی ہلاگاڑی لگاکرشور پیدا کر دےگی۔ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے نکل جائےگی۔دی ہندو کی ساری رپورٹ پڑھیں۔ اس میں رافیل سے متعلق ٹیکنیکل باتیں نہیں ہیں جو سیکریٹ ہوتی ہیں۔ وہ باتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ کیسے وزیر اعظم دفتر تمام پروسیس کو درکنار کرتے ہوئے، وزارت دفاع کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے اپنی سطح پر دلچسپی لے رہا تھا۔
اگر حکومت کو واقعی لگتا ہے کہ رافیل کی تکنیکی جانکاری سے متعلق سیکریٹ آؤٹ ہوا ہے تو اس کو فوراً معاہدہ منسوخ کر دینا چاہیے۔سیکریٹ کی دلیل بوگس ہے، جیسے چوکیدار کا جاگتے رہو کہنا بوگس ہے۔ اٹارنی جنرل غضب کے وکیل اور تھانیدار ہیں۔ کاش اتنی صفائی سی اے جی کو آتی۔ جس نے عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے رافیل معاہدے کی قیمتوں پر رپورٹ دی ہے۔
نمبر کی جگہ ‘ا ب ج’ لکھکر پیسے کا حساب کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں دی ہندو کی جانکاری کو سیکریٹ فائل کا حصہ بتاکر سی اے جی کی رپورٹ پر بھی سوال کر دیا ہے۔وزیر اعظم مودی کا رافیل معاملہ پیچھا کر رہا ہے۔ احساسِ جرم کی طرح۔ وہ ہر اس موقع کا استعمال کرتے ہیں جس میں وہ رافیل کو لےکر لگے الزامات سے پیچھا چھڑا سکیں۔ اس کے لئے جھوٹ کا دفاعی لبادہ اوڑھے گھومتے ہیں۔
پلواما کے بعد آپریشن بالاکوٹ کے ہوتے ہی کہنے لگے کہ رافیل ہوتا تو یہ ہو جاتا۔ ان کا یہ بیان جاگتے رہو سنڈروم کا تھا۔ آدھی ادھوری جانکاری کی بنیاد پر لوگوں کو جگائے رکھنے کی کوشش یہ چمتکاری بابا ہی کرتا ہے۔عام لوگوں کو کیا پتہ کہ ہوا میں طیاروں کی دفاعی قطارکیسے تیار ہوتی ہے۔ اس میں رافیل آگے ہوتا یا سکھوئی 30 آگے ہوتا۔
چوکیدار گاؤں کیا، فوج کیا، تھانے کا حفاظتی تظام نہیں جانتا ہے۔ وہ صرف رات بھر گھومنے کے لئے ہوتا ہے۔ وہ سلامتی کی آخری اور اعلیٰ ترین گارنٹی نہیں ہے۔ بنیادی گارنٹی ضرور ہے۔وزیر اعظم کو ہر بات میں خود کو چوکیدار نہیں کہنا چاہیے۔ خود کو چوکیدار اور پردھان سیوک کہتے کہتے بھول گئے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر کچھ بھی بول جاتے ہیں۔
وزیر اعظم کے اس چوکیداری ماڈل سے باخبر رہیں۔ یہ ماڈل بوگس ہے۔ ویسے وزیر اعظم اب بھی ایک کام کر سکتے ہیں۔ ساتویں پاتال میں جاکر سیکریٹ فائل کھوج سکتے ہیں۔ جس پر وہی سب سیکریٹ باتیں ہیں جن کے بارے میں ان کو بتاتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہاتھ کب کانپتے ہیں۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر