ایودھیا کے تاریخی ہنمان گڑھی نے آزادی سے پہلے سے ہی اپنے سسٹم میں جمہوریت اور انتخاب کا ایسا انوکھا اور ملک کا غالباً پہلا تجربہ کر رکھا ہے، جس کا ذکر تک کرنا فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو راس نہیں آتا۔
1990 کے بعد سے جب بھی لوک سبھا یا اتر پردیش اسمبلی کے انتخاب ہونے کو ہوتے ہیں، مختلف اقتدار حامی پارٹیوں کے ذریعے اپنے اور حریف کے سیاسی نقصان اورفائدے کے مدنظر کسی نہ کسی بہانے ایودھیا کی رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کو ان کے مرکز میں لایا جاتا رہا ہے۔کئی بار تو وشو ہندو پریشد انتخابات کے مہینوں پہلے سے ہی ایودھیا پہنچکر اس معاملے کو گرمانا اور آسمان سر پر اٹھا لینا شروع کر دیتی رہی ہے۔اس بار کے بدلے ہوئے حالات میں اس نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے تاکہ نریندر مودی حکومت کو رام مندر کے بنانے کا وعدہ نہ نبھانے کا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
پھر بھی اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ اتوار کو لکھنؤ میں جس طرح ریاست میں بی جے پی کے سارے حریف کا سوپڑا صاف ہو جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ہندو رام جنم بھومی پر اپنا دعویٰ کبھی نہیں چھوڑیںگے اور جہاں رام للا موجود ہیں، وہی رام جنم بھومی ہے، اس سے صاف ہے کہ ان کی جماعتوں نے ابھی بھی ضرورت کے وقت اس تنازعے کو نچوڑنے کی نیت چھوڑی نہیں ہے۔
ایسے میں یہ یقین کرنے کی وجہ ہے کہ تشہیری مہم میں مناسب موقع آتے ہی اس بار بھی اس تنازعے کو ہوا دے دی جائےگی۔بتانے کی بات نہیں کہ اس تنازعے کے بہانے شروع کی گئی مذہبوں یا مندر-مسجد کی سیاست نے انتخابات کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی مدعوں سے دور لے جاکر ملک اور عوام کا کتنا نقصان کیا ہے۔لیکن ملک کے جمہوری مستقبل کے لحاظ سے یہ جاننا کہیں زیادہ ضروری ہے کہ بھگوان رام کے ٹاٹ میں ہونے کے بہانے رام جنم بھومی اور رام مندر کی رٹ لگانے والی جماعتیں ایودھیا کے تاریخی ہنومان گڑھی کا نام بھی زبان پر نہیں لانا چاہتیں۔
بھلےہی اس نے ملک کے آزاد ہونے سے پہلے ہی اپنے سسٹم میں جمہوریت اور انتخاب کا اپنی طرح کا انوکھا اور ملک کا غالباً پہلا تجربہ کر رکھا ہو اور ابھی بھی اس کو کامیابی سے چلاتی آرہی ہو۔یقیناً، اس کا یہ تجربہ ہماری جمہوریت کے لیے ایک بڑی ترغیب ہو سکتی ہے، لیکن ابھی تک یہ گمنام ہی چلا آ رہا ہے۔مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ سمیت پانچ ریاستوں کی اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں یوگی آدتیہ ناتھ نے ہنومان کو جنگل باسی گری واسی، محروم اور دلت وغیرہ قرار دیا توبھی ان کی اس گڑھی کی جمہوریت کی شان میں دو لفظ کہنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ ایسا کرنا ان کی فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست کو راس نہیں آنے والا تھا۔
ویسے ہی جیسے وہ یہ چھپانے میں ہی بھلائی سمجھتے ہیں کہ اودھ کی گنگاجمنی تہذیب کے مطابق اس گڑھی کی تعمیر میں نواب شجاع الدولہ کی قابل ذکر خدمات رہی ہے۔بہر حال، اس گڑھی نے اٹھارہویں صدی کے اختتام سے بیس-پچیس سال پہلے ہی بالغ حق رائے دہی پر مبنی جمہوریت کو سسٹم اور زندگی کے فلسفہ کے طور پر قبول کر لیا تھا۔وہ بھی غیر تحریر شدہ یا غیر رسمی طور پر نہیں، باقاعدہ آئین بنا کر اور نافذ کرکے۔ فارسی میں لکھے گئے ا س کے آئین کے مطابق اس کا اعلیٰ ترین اہلکار گدی نشین کہلاتا ہے، جو خاندانی روایت، استاد شاگرد کی روایت یا کسی وراثت سے نہیں آتا۔
اس کی طےشدہ مدت کے لئے باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے، جس کے بعد اس کو وعدہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ گڑھی کی ساری جائیداد کو اجتماعی مانےگا، اس کا محافظ بنکر رہےگا، اس کو ذاتی استعمال میں نہیں لائےگا، برباد نہیں کرےگا اور پنچوں کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائےگا۔وعدہ خلافی کرنے کی حالت میں آئین میں اس کو سزا دینے کا بھی اہتمام ہے۔رامانندی صوفیوں کے نروانی اکھاڑے کی اس گڑھی میں کوئی بھی ویشنو ورکت کسی نگا کے نگرانی میں درس و تدریس کے لئے رہ سکتا ہے، لیکن گڑھی سے متعلق یا حق رائے دہی اس کو یوں ہی نہیں مل جاتا۔
اس کے لئے اس کو ایک طےشدہ کارروائی سے گزرنا ہوتا ہے۔ تعلیم اور درس وتدریس کے لئے گڑھی میں آنے والے کو صادق شاگرد یا عبادت گزار شاگرد کہتے ہیں۔صوفی بننے سے پہلے اس کو چھورا بننا پڑتا ہے، پھر باری باری سے بندگیدار، ہردنگا، مریٹھیا، نگا اور پرتشرینی نگا۔ پرتشرینی نگا ہو جانے کے بعد وہ گڑھی کا ممبر ہو جاتا ہے اور اس کو حق رائے دہی مل جاتا ہے۔
جاننا دلچسپ ہے کہ چھٹے گدی نشین بابا بلرام داس کے وقت صوفیوں کی تعداد چھے سو سے زیادہ ہو گئی اور ان میں سے کئی کے مذہب کی تشہیر کے لئے گھومتے رہنے کی وجہ سے سسٹم میں مسائل پیدا ہونے لگے، تو ان کی چار پٹیاں بنائی گئیں-ساگریا، بسنتیا،ا وجینیا اور ہری دواری۔اہتمام کیا گیا کہ یہ چاروں نروانی اکھاڑے سے ہی وابستہ رہیںگی۔ ہرایک پٹی کے تین ذیلی محکمہ بھی بنائے گئے-جماعت کھالسہ، جماعت ہنڈا اور جماعت جھنڈی۔اصول کے مطابق گڑھی میں کل تین پنچایت ہیں-پٹی پنچایت، اکھاڑا پنچایت اور اکھاڑا عاملہ کی پنچایت۔ پہلے چاروں پٹیوں کے رائےدہندگان اپنے مہنت کا انتخاب کرتے ہیں، پھر اکھاڑا پنچایت چنی جاتی ہے۔
آخر میں اکھاڑا اور چاروں پٹیوں سے چنے گئے 24 پنچ اپنا سرپنچ چنتے ہیں، جو اکھاڑا عاملہ کی پنچایت کا سرپنچ کہلاتا ہے۔اس کی مدت کار دو سال ہوتی ہے اور اس کو گدی نشین کے سامنے سچائی، ایمانداری اور غیر جانبداری کا حلف لینا پڑتا ہے۔جیسا کہ پہلے بتایا ہی گیا ہے کہ گدی نشین کو بھی اکھاڑا کے پنچ ہی چنتے ہیں۔پٹی، اکھاڑا یا اکھاڑا عاملہ کی پنچایت کی میٹنگ طلب کرنے اور ان کی اطلاعات دینے-دلانے کے لئے ‘ کوتوال ‘ نام کے ایک اہلکار کی تقرری ہوتی ہے، جبکہ حساب-کتاب رکھنے والے اہلکار کو ‘ گولکی ‘ یا ‘ مختار ‘ کہتے ہیں۔
پٹیوں کی ہر جماعت سے ہر تین سال کے لئے گولکی تقرری کئے جاتے ہیں اور اس تقرری میں بھی رائےدہندگان کا فیصلہ ہی سرآنکھوں پر ہوتا ہے۔صحیح معنوں میں پنچ ہی گڑھی کے منتظم اور مالک ہوتے ہیں۔ اکھاڑا عاملہ کی پنچایت میں کورم تب پورا مانا جاتا ہے، جب کم سے کم 16 پنچ موجود ہوں۔سارے فیصلے اکثریت سے کئے جاتے ہیں اور کسی مسئلے پر حزب اورحزب مخالف کے ووٹ یکساں ہو جائیں تو سرپنچ کو فیصلہ کن ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔پنچایت ضرورت پڑنے پر گڑھی کی روایتوں پر عمل نہ کرنے یا اس کی اثر و نفوذ تحلیل کرنے والوں پر سزا طے کر سکتی ہے۔ ان کا سیر-سیدھا بند کر سکتی ہے۔
معلوم ہو کہ سیر-سیدھا کسی صوفی کی عزت کی علامت ہوتی ہے اور اس کے بند ہونے کا معنی ہے متعلقہ صوفی کا گڑھی سے نکالا جانا۔گڑھی کے حکمراں نے شروع سےہی اس کو موروثی یا حاکمی مٹھ بنانے کے بجائے پنچایتی مٹھ بنایا اور جمہوریت اور اجتماعیت کے اصولوں کو اپنانے پر زور دیا۔ لمبی تاریخ میں گڑھی کو اس کا فائدہ بھی ملا۔وہ جائیدادوں اور اثاثہ کو لےکر دوسرے مٹھ اور مندروں جیسے جھگڑوں کا شکار نہیں ہوئی کیونکہ نہ وہاں ذاتی جائیداد ہے اور نہ اس کے لئے جھگڑے کی بانسری بجتی ہے۔صوفیوں کی چاروں پٹیوں کو اقتدار کی جدو جہد سے بچانے کے لئے اصول ہے کہ گدی نشین باری باری سے ہر پٹی سے چنا جائےگا اور محض اکھاڑا کے متعلق جواب دہ ہوگا۔
پٹیوں کے مہنت کے انتخاب میں بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ یکساں مواقع کے اصول کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اس لیے تینوں جماعتوں سے باری باری سے مہنت چنے جاتے ہیں اور جس جماعت کی باری ہوتی ہے، وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیتی۔مدت کار کےخاتمہ سے پہلے عہدہ خالی ہو جانے پر ضمنی انتخاب بھی کرائے جاتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر