ہندوستان کی عوام نے دلائی لاما سے محبت کی اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا؛ بدلے میں یہی انہوں نے ہندوستانی عوام کو لوٹایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی حالیہ حکومتوں نے، چین کے خوف سے انہیں لے کر محتاط رویہ اپنایا۔ جبکہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
مارچ 1959 کے آخری ہفتے میں — ٹھیک ساٹھ سال پہلے— افراتفری کے عالم میں دلائی لاما ہندوستان پہنچے۔ تبت میں ان کے حامیوں کی بغاوت کو چینی افواج نے بری طرح کچل دیا تھا، جس کے نتیجے میں انہیں راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ ان کو مسلسل لوز موشن (اسہال) ہورہا تھا، جس کی وجہ سے ان کی حالت بہت خراب تھی ،بہر کیف ایک یاک پر سوار ہو کر وہ یہاں پہنچے تھے۔ اروناچل پردیش کے راستے، جو اس وقت نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی کہلاتا تھا، دلائی لاما ملک میں داخل ہوئے تھے۔
ہندوستان میں جن افسران نے ان کا استقبال کیا، ان میں ایک سکھ ہرمندر سنگھ اور جنوبی ہند سے ایک ہندو ٹی ایس مورتی شامل تھے۔ یہ ایک علامتی مرحلہ تھا؛ اس وقت جبکہ چین کے کمیونسٹ حکمراں اپنے زیر اقتدار علاقوں میں یکساں طور پر ‘ہان’ تہذیب تھوپنا چاہتے تھے، وہیں جمہوریہ ہند انہیں پناہ دے کر اپنے مذہبی اور لسانی تنوع کی مثال پیش کر رہا تھا۔محقق کلاوڈ آرپی نے اپنے ایک مضمون میں ان حالات کا ذکر کیا ہے، جن کی وجہ سے دلائی لاما کو اپنے وطن سے فرار ہونا پڑا۔ آرپی کا تعلق فرانس سے ہے، لیکن اب وہ پڈوچیری میں رہتے ہیں۔
انہوں نے وہ خط پیش کیا ہے، جو تبت کے اس رہنما نے ہندوستان کے وزیر اعظم کو لکھ کر پناہ دینے کی گزارش کی تھی۔ اس میں لکھا ہے؛
1951 میں جب سے سرخ چین نے تبت پر قبضہ جمایا اور تبتی سرکار کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے، تب سے میں، میری حکومت کے افسران اور عام شہری وہاں امن قائم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئےہیں، لیکن چینی سرکار لگاتار تبتی سرکار پر مسلط ہو رہی ہے۔ ان حالات میں ہم تسونا کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کرم خاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی سرزمیں پر ہمارے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ آپ کی جانب سے رحم دلانہ برتاؤ کا مکمل یقین ہے۔
تب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس کا جواب یوں دیا تھا؛
بحفاظت ہندوستان پہنچنے پر میں اور میرے رفقائے کار آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ آپ خود، آپ کے اہل خانہ اور مصاحبین کے لیے یہاں ضروری سہولیات مہیا کرا کے ہمیں خوشی ہوگی۔ ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں آپ کی بڑی عزت و توقیر ہے۔ یقیناً اپنی مہمان نوازی کی روایات نبھاتے ہوئے وہ بھی آپ سب کا استقبال کریں گے۔
گزشتہ چھہ دہوں سے دلائی لاما ہندوستان کی سرزمین پر ہیں۔ یہاں انہیں محبت، اپنائیت اور مخصوص احترام حاصل ہے۔ چین کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تبت سے ان کے بعد آنے والوں کی بھی ہر طرح مدد کی گئی تاکہ یہاں وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں؛ ایک ایسی جگہ، جو ان کا وطن نہیں ہے۔ دلائی لاما اور ان کے پیروکاروں کا یہاں کھلے دل سے استقبال اور ان کی ہر طرح سے امداد آزاد ہند کی تاریخ کا قابل تعریف باب ہے۔
اس مخلصانہ ہمدردی اور امداد کے جذبے سے دلائی لاما بخوبی واقف ہیں اور اس کے لیے مشکور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پیروکاروں میں روحانی اور تہذیبی روایات باقی رہ پائی ہیں تو صرف اس لیے کہ انہیں ہندوستان میں پناہ ملی، ورنہ چین تو انہیں برباد ہی کر چکا تھا۔ اپنے ناقابل تقلید انداز میں انہوں نے اس سرزمین کے تئیں جو اظہار تشکر کیا اس میں مزاح اور آگہی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں، یہاں نصف نالندہ اور نصف روٹی موجود رہتی ہے۔ آگہی کا ذکر وہ سرزمین ہند کے قدیمی فلاسفران کے تناظر میں کر رہے تھے۔ روٹی کا ذکر ان کے و پیروکاروں کی زندگی قائم رکھنے کے ضمن میں کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی عوام نے دلائی لاما سے محبت کی اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا؛ بدلے میں یہی انہوں نے ہندوستانی عوام کو لوٹایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی حالیہ حکومتوں نے، چین کے خوف سے انہیں لے کر محتاط رویہ اپنایا۔ جبکہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ میرے پاس دلائی لاما کے ساتھ لال بہادر شاستری کی ایک یادگار تصویر ہے۔ 1965 میں لی گئی یہ تصویر اس وقت کی ہے، جب شاستری جی ملک کے وزیر اعظم تھے۔ اس تصویر میں دراز قد نوجوان، اپنے سے ناٹے بزرگ کو قریب سے دیکھ رہا ہے اور دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔ یہ تصویر مجھے حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو کے آرکائیو سے حاصل ہوئی ہے۔ جس سے پتہ لگتا ہے کہ تب اس کو (میڈیا والوں کے بیچ) تقسیم کیا گیا ہوگا۔
شاستری چھوٹے قد کے، بڑے جگر والے انسان تھے۔ ایک نرم مزاج مگر آہنی ارادے والی شخصیت۔ بطور وزیر اعظم ہند وہ اس کی خواہش رکھتے تھے کہ اپنے ملک میں پناہ گزیں ایک عظیم ہستی کے ساتھ ان کی یادگار فوٹو ہو۔ کیا دلائی لاما کے ساتھ ایسی ہی تصاویر اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، پی وی نرسمہا راو، اٹل بہاری واجپائی، منموہن سنگھ یا نریندر مودی کے ساتھ ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ نہیں۔
دلائی لاما کی ہندوستان آمد پر لکھے اپنے مضمون میں کلاوڈ آرپی نے، ہندوستان کی سرزمین پر تبتی لیڈر کے پہلے قدم کا ذکر کیا ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے حوالے سے انہوں بتایا کہ سرحد پار کرنے کے اگلے دن یکم اپریل کی ‘صبح نو بجے اسسٹنٹ پولیٹکل افسر کو دلائی لاما نے طلب کر کے انہیں مندرج نکات بتائے: چین کی پالیسی مسلسل مذہب مخالف ہوتی جا رہی تھی؛ اس سے تبتی عوام میں بے چینی تھی اور چینی حکومت کے سائے میں ان کا گزارہ نا ممکن ہوتا جا رہا تھا؛ چین نے ان کے لوگوں پر خطرناک حملے کیے؛ تبت کو آزاد کیا جانا چاہیے؛ تبت کے عوام آزادی کے لیے لڑیں گے؛ ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان کی ہمدردی تبتی لوگوں کے ساتھ ہے…’
اپریل 1959 میں دلائی لاما کی سوچ تھی کہ ہندوستانیوں اور خصوصاً امریکیوں کی مدد سے ان کے عوام چینی استبداد سے آزاد ہو جائیں گے، لیکن سنہ 1972 میں امریکہ کے صدر نکسن نے جب چین کا دورہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ ایک کھوکھلی امید تھی۔ اب دہائیوں بعد وہ اس پر راضی نظر آتے ہیں کہ جب تک بیجنگ میں کمیونسٹوں کی سرکار ہے، تب تک تو تبت چین کا حصہ ہے۔ انہیں تبتی عوام کی تہذیب و ثقافت نیز روحانی روایات کا احترام کرنا چاہیے۔
کیا چین والے تاریخ کا، پناہ دینے کی روایت کا شعور رکھتے تھے، کیا وہ دوستی کے لیے بڑھائے گئے اس ہاتھ کو قبول کریں گے اور انہیں اپنی مادر وطن کے آغوش میں جانے کی اجازت دیں گے؟ اگر چین والے دلائی لاما کو لہاسا کے لیے مدعو کریں کہ وہ اپنے آخری ایام اپنی ہی سرزمین پر گزار لیں، تو یہ ایک بہت خوبصورت بات ہوگی۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے دنیا میں ان کی شبیہ بدلنے کا راستہ نکلے گا۔ کہہ دینا چاہیے کہ دنیا میں انہیں بنا روح کا سپر پاور مانا جاتا ہے اور فطری ہی دنیا میں انہیں کوئی خاص قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
افسوس ناک امر ہے کہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی میں اس بابت آگہی و شعور کا فقدان ہے۔ ہر آمر حکمراں کی طرح وہ بھی ہر کسی کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے کی عادی ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ یہ اسی سالہ امن پسند بزرگ، اگر اپنی سرزمین پر لوٹ آیا تو وہ ان کی تاناشاہی حکومت کے خلاف ایک مقبول خاص و عام شخصیت ہو جائیں گے۔
جیسا کہ پہلے بھی ہو چکا ہے، چین والے یہ مناسب کام نہیں کریں گے۔ لیکن ان حالات میں ہندوستان کو کیا کرنا چاہیے؟ میں سوچتا ہوں کہ نہ صرف ہندوستانی عوام، بلکہ سرکاری سطح پر بھی دلائی لاما کے تئیں محبت و احترام کا اظہار ہو۔ جیسے انہیں بھارت رتن کا اعزاز دیا جانا چا ہیے۔ جن لوگوں کو اس اعزاز سے سرفراز کیا جا چکا ہے، یہ بزرگ شخصیت ان میں سے کئی کے مقابلے اس کے زیادہ مستحق ہے۔ اسی طرح ان کی ہندوستان آمد کے ساٹھ سال پورے ہونے پر صدر جمہوریہ ہند کو ان کے لیے ایک اعزازی تقریب کا انعقاد کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم ہند اور حزب اختلاف کے قائد بھی اس طرح کے اعزازیہ کا انعقاد کریں۔
اعزازیہ کی بابت اپنی صلاح چند ہفتے پہلے میں نے ٹوئٹر پر دیا تھا۔ اسے ان صاحب تک بھی پہنچایا، جو صدر جمہوریہ ہند کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان تک بھی جن کی وزیر اعظم سے قربت ہے۔ لیکن انتخاب کا ماحول ہے، اس لیے اس میں کسی نے بھی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کے باوجود میں امید کرتا ہوں کہ اسی سال کبھی ایک باضابطہ تقریب اعزاز کا انعقاد کیا جائے گا۔ ہمارے ملک کے اس شہری کے لیے، جس کے عقیدت مند ملک میں اور بیرون ملک بھی موجود ہیں۔
حکومت ہند کے ذریعے دلائی لاما کا عوامی سطح پر اعزاز بہت مناسب اور منصفانہ ہوگا۔ حکمت عملی کے لحاظ سے بھی یہ ایک دانشمندانہ قدم ہوگا۔ اپنے اپنے مفادات کے مدنظر بائیں بازو کے دانشمند اور دائیں بازو کے تاجر دونوں چین سے معاملات کرنے میں از حد احتیاط کی صلاح دیتے ہیں۔ اول الذکر فکری وجوہات کی بناء پر تو مؤخرالذکر ظاہر ہے تجارتی نقطہ نظر سے۔
اس طرح کی باتوں کا اب وقت جا چکا۔ پاکستان کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردانہ حرکتوں کو چین کی حمایت جاری ہے۔ہندوستان کو اب سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو لال بہادر شاستری سے تحریک لینا چاہیے؛ انہیں فخریہ روحانیت کے قائد اور اعلیٰ اخلاق کی مثال اس شخصیت کے ساتھ اپنی موجودگی دکھانا چاہیے۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
Categories: فکر و نظر