یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان کم از کم مزدوری کا قانون بنانے والا پہلا ترقی یافتہ ملک 1948 میں ہی بن گیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان سماجی تحفظ پر چین،سری لنکا، تھائی لینڈیہاں تک کہ نیپال سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔
نئی دہلی : ہندوستان میں روزگار کی حالت پر 28 مارچ کو آکسفیم کی رپورٹ ‘مائنڈ دی گیپ’جاری کی گئی ۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں 14 ریاستیں/ یونین ٹیریٹری منریگا کے تحت کم ازکم مزدوری سے بھی کم رقم کی ادائیگی کر رہی ہیں۔آندھر پردیش میں 2017سے18 کے دوران منریگا کے تحت کم از کم مزدوری 197 روپے یومیہ تھی لیکن ریاست میں اوسطاً 152 روپے کی ہی ادائیگی کی گئی۔ اس طرح طےشدہ مزدوری سے 45 روپے کم مزدوروں کو دئے گئے۔ اسی طرح تمل ناڈو میں طےشدہ مزدوری 205 تھی لیکن ادائیگی 152 روپے کی ہی کی گئی۔ یعنی مزدوروں کو 53 روپے کم دئے گئے۔ کل تیرہ ریاستیں ایسی ہیں جو طےشدہ مزدوری کی ادائیگی کر رہی ہیں۔
LIVE UPDATE: Our new report 'Mind The Gap- State of Employment in India' has been released.
It reveals that women workers are the most vulnerable in an unequal Indian #jobs market as #employment opportunities continue to be marked by identities including gender, caste and class. pic.twitter.com/VvVkQyC9QZ
— Oxfam India (@OxfamIndia) March 28, 2019
حالانکہ چار ریاستیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے طےشدہ مزدوری سے زیادہ ادائیگی کی۔ مثلاً بہار میں 168 روپے مزدوری طے ہے لیکن مزدوروں کو اوسطاً 177 روپے یومیہ کے حساب سے دیا گیا۔ ہریانہ، کیرل اور سکّم بھی طےشدہ مزدوری سے زیادہ دینے والی ریاستیں ہیں۔ یہ حالت اس وقت ہے جب ہندوستان کم از کم مزدوری کا قانون بنانے والا ملک 1948 میں ہی بن گیا تھا۔کم از کم مزدوری پر قانون بناکر ہندوستان پہلا ترقی پذیر ملک بنا تھا۔ اس قانون کے بعد مزدوری سے جڑے دیگر قانون بھی وجود میں آئے تھے۔ لیکن سماجی و اقتصادی فرق کی وجہ سے کم از کم مزدوری کو نافذ کرنا ایک پیچیدہ معاملہ بنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال مختلف ریاستوں میں کم از کم مزدوری سے متعلق 1709 شرحیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق،بڑے اوران آرگنائزڈ سیکٹر ہونے کی وجہ سے کم از کم مزدوری کو نافذ کرنا اور اس کی نگرانی بےحد مشکل کام ہے۔ اس وجہ سے جگہ جگہ کم از کم مزدوری کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ 2014 میں جاری لیبراور روزگار رپورٹ بھی کہتی ہے کہ دیہی علاقوں میں زرعی کاموں سے جڑے 73 فیصد کام کرنے والے، دیہی علاقوں میں غیرزرعی کاموں سے جڑے 37 فیصد کام کرنےوالے اور شہری علاقوں میں غیر زرعی کاموں سے جڑے 54 فیصد کام کرنے والوں کو کم از کم مزدوری نہیں مل رہی ہے۔ خواتین کی حالت اوربھی بدتر ہے۔
کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی کم از کم مزدوری نہیں مل رہی ہے۔2017 میں ہندوستان کی 99 کمپنیوں میں صرف 24 کمپنیوں نے کم از کم مزدوری کے تئیں اپنی وابستگی کا اظہار کیا تھا اور صرف 6 کمپنیوں نے مناسب مزدوری دی۔رپورٹ کے مطابق، 2011سے12 میں یومیہ مزدوری کا قومی اوسط 247 روپے تھا۔ لیکن دیہی اور شہری علاقوں میں یہ عدم مساوات دو گنے سے زیادہ ہے۔ اس مدت میں شہری علاقوں میں یومیہ مزدوری 384 روپے تھی جبکہ دیہی علاقوں میں یہ مزدوری صرف 175 روپے ہی تھی۔ مزدوری میں جنسی عدم مساوات بھی بڑے پیمانے پر ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کام کے مواقع 34 فیصد کم ملتے ہیں۔ ایس سی –ایس ٹی سے آنے والے مزدوروں کو دیگر مزدوروں کے مقابلے 15 فیصد کم مزدوری ملتی ہے۔
غور طلب ہےکہ ، ہندوستان میں تقریباً 93 فیصد ان آرگنائزڈ مزدور ہیں لیکن محض 8 فیصد کو ہی سماجی تحفظ حاصل ہے۔ ہندوستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 1.4 فیصد حصہ ہی سماجی تحفظ پر خرچ کرتا ہے جو ایشیا میں سب سے کم ہے۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان سماجی تحفظ پر چین،سری لنکا، تھائی لینڈیہاں تک کہ نیپال سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔ سماجی تحفظ اسکیموں پر 2018سے19 کے بجٹ کا محض 0.5 فیصد حصہ ہی خرچ ہوا ہے۔
Categories: خبریں