دوسرے مرحلے کی پانچ سیٹوں میں اس بار بھی مہاگٹھ بندھن آگے دکھائی دے رہا ہے۔یہ مرحلہ پہلے مرحلے کے انتخاب سے ان معنوں میں الگ ہے کہ پہلے مرحلے میں جہاں تمام چار سیٹوں پر سیدھا مقابلہ ہوا وہیں اس مرحلے میں دو سیٹوں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔
بہار میں دوسرے مرحلے یعنی 18 اپریل کی ووٹنگ کئی معنوں میں خاص ہے۔ جن 5سیٹوں میں اس مرحلے میں ووٹنگ ہوگی ، ان سبھی پر این ڈی اے کی طرف سے جے ڈی یو کے امیدوار ہیں۔ اس وجہ سے بہار کے وزیراعلی نتیش کمار کے لئے یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔ وہیں بہار کے اپوزیشن مہاگٹھ بندھن کے سامنے اپنی گزشتہ کارکردگی کو دوہرانے کا چیلنج ہوگا کیونکہ 2014 کے عام انتخاب میں ان پانچ میں سے چار سیٹوں پر اس نے جیت درج کی تھی۔
دوسرے مرحلے میں بہار کے بانکا، بھاگلپور، کٹیہار، پورنیہ اور کشن گنج لوک سبھا حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیںگے۔کشن گنج سیٹ کو چھوڑ کرباقی چار سیٹوں پر موجودہ رکن پارلیامان ایک بار پھر سے انتخابی میدان میں ہیں۔ کشن گنج رکن پارلیامان اسرارالحق قاسمی کا کچھ مہینوں پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ ان پانچ سیٹوں پر سب سے بڑے چہرے کے طورپر کانگریس کے طارق انور کٹیہار سے انتخابی میدان میں ہیں۔سابق مرکزی وزیر طارق نے 2014 کا انتخاب کٹیہار سے ہی راشٹروادی کانگریس پارٹی کے امیدوار کے طور پرجیت حاصل کی تھی ۔
2014 میں ان سبھی سیٹوں پر بی جے پی نے امیدوار اتارے تھے مگر تمام سیٹوں پر اس کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بی جے پی کے ہارنے والے رہنماؤں میں ایک بڑا نام بھاگلپور سے الیکشن لڑ رہے شاہنواز حسین کا بھی تھا۔ تب نتیش کمار بی جے پی کے خلاف لڑرہے تھے اور اب ساتھ ہیں۔ ایسے میں نتیش سیٹ بٹوارے میں بی جے پی کی یہ سبھی ہاری سیٹ اپنے کھاتے میں کرنے میں کامیاب رہے ۔نتیش کی وجہ سے شاہنواز حسین جیسے بی جے پی کے بڑے رہنما کو بھی بے ٹکٹ ہونا پڑا جس کا درد شاہنواز نے عوامی طور پر شیئر کیا تھا ۔ اس مرحلے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے نتیش نے ان سیٹوں پر سشیل مودی اور رام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کر پورا زور لگایا ۔ نتیش نے ان حلقوں میں ہر دن تین انتخابی اجلاس کیے۔
یہ مرحلہ پہلے مرحلے کے انتخاب سے ان معنوں میں الگ ہے کہ پہلے مرحلے میں جہاں تمام چار سیٹوں پر سیدھا مقابلہ ہوا وہیں اس مرحلے میں دو سیٹوں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔ بہار میں یوں تو اس بار این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے مگر دوسرے مرحلے کی بانکا اور کشن گنج ایسی سیٹیں ہیں جہاں مقابلہ سہ رخی بن گیا ہے۔
بانکا میں آزاد امیدوار اور سابق رکن پارلیامان پتل کماری کے انتخابی میدان میں آ جانے سے ایسا ہوا ہے۔ بہار این ڈی اے میں ہوئے سیٹ شیئرنگ میں بانکا کی سیٹ جے ڈی یو کے کھاتے میں گئی اور اس طرح 2014 میں بی جے پی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے والی پتل کماری بےٹکٹ ہو گئیں۔ اس کے بعد پتل نے آزاد امیدوار بننے کا فیصلہ کیا۔ وہیں کشن گنج سیٹ پر اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے اختر الایمان کے انتخابی میدان میں اترنے کی وجہ سے سرگرمی بڑھ گئی ہے۔ اسدالدین اویسی خود کشن گنج کے کئی علاقوں میں تشہیر کر چکے ہیں۔ اختر الایمان وہیں امیدوار ہے جو 2014 کے انتخاب میں جے ڈی یو امیدوار کےطور پرچہ بھرنے کے باوجود انتخاب کے درمیان میں میدان سے ہٹ گئے تھے۔
مہاگٹھ بندھن کو 2014 میں مودی لہر میں بھی ان پانچ سیٹوں پر زبردست کامیابی اس وجہ سے ملی تھی کیونکہ ان علاقوں میں اس کی کور سماجی بنیاد (یادو-مسلم آبادی) دیگر علاقوں کے مقابلے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ کٹیہار، پورنیہ اور کشن گنج بہار کےMinority Concentration Districts (ایم ایس ڈی) میں آتے ہیں۔ کشن گنج میں جہاں قریب دو تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے وہیں کٹیہار میں تقریباً 45 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اسی وجہ سے 2014 کے سہ رخی مقابلے میں بھی ابھی کے مہاگٹھ بندھن نے پانچ میں سے چار سیٹ پر درج کی تھی۔
بہار میں پہلے مرحلے میں جن چار سیٹوں جموئی، نوادہ، گیا اور اورنگ آباد پر انتخاب ہوئے وہ تمام سیٹیں ابھی این ڈی اے کے پاس ہیں۔ ووٹنگ کے بعد ان علاقوں سے مل رہے اشاروں کے مطابق اس بار مقابلہ برابری کا ہے۔ اورنگ آباد میں مہاگٹھ بندھن کو آگے اس وجہ سے بتایا جا رہا ہے کیونکہ وہاں اس کے امیدوار کے حق میں پچھڑے طبقے کے رائےدہندگان کی صف بندی کی خبریں ہے۔ وہیں جموئی میں این ڈی اے رہنماؤں اور اس کے اصل بنیادی طبقے کی ایک حد تک ناراضگی کی وجہ سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ چراغ پاسوان کی مشکلیں بڑھی ہیں۔ وہیں گیا میں سابق وزیراعلیٰ جیتن رام مانجھی اپنے قد کی وجہ سے ایک مضبوط امیدوار بتائے جا رہے ہیں۔
دوسرے مرحلے کی پانچ سیٹوں میں اس بار بھی مہاگٹھ بندھن آگے دکھائی دے رہا ہے۔ بانکا میں جہاں آزاد پتل کماری کی امیدواری آر جے ڈی کی راہ آسان بناتی دکھائی دے رہی ہے وہیں بھاگل پور میں جے ڈی یو امیدوار کی امیج کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی حمایت کرنے والے طبقے کی خاموشی آر جے ڈی امیدوار کو مضبوط کر رہی ہے۔ باقی کی تین سیٹوں کےسماجی-سیاسی فارمولے بھی ابھی مہاگٹھ بندھن کے حق میں دکھائی دے رہی ہے۔
(منیش شانڈلیہ پٹنہ میں مقیم آزاد صحافی اور مترجم ہیں۔)
Categories: فکر و نظر