بی جے پی اور میڈیا کے کچھ طبقے نے جنون اور دایونگی کا ایسا ماحول بنا دیا ہے، جیسے فوجیوں کی موت پر گھڑیالی آنسو بہانا اور بات بات پر جنگ کی بات کرنا-دیکھ لینا اور دکھا دینا ہی راشٹرواد کی اصلی نشانی رہ گئی ہے۔
1965 میں ایک طرف ملک کی سرحد پر پاکستان کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی اور دوسری طرف ملک سوکھے اور قحط کے سے جوجھ رہا تھا۔ ایسے وقت میں اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے نعرہ دیا تھا-‘جئےجوان، جئے-کسان۔ ‘آج پہلے سے زیادہ کسان خودکشی کرنے کو مجبور ہو رہے ہیں-کچھ نہیں بدلا، بلکہ اتنے برے حالات کبھی نہیں رہے۔ حکومت کی پالیسیوں نے ان کے مسائل کو اور بڑھا دیا ہے۔ یہاں تک کہ اتر پردیش میں تو آوارہ جانوروں سے فصل کو ہونے والا نقصان ان کے لئے سب سے بڑا مدعا بن گیا۔صحیح معنوں میں کہیں تو، کسانی ہر طرح سے خطرے میں ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو آنے والی نسل کسانی نہیں کرےگی۔ ایسے وقت میں، نریندر مودی سے وزیر اعظم کے طور پر ملک کا مکھیا ہونے کے ناطے ‘جئے جوان اور جئے کسان ‘کے نعرے کو مضبوطی سے دوہرانے کی ضرورت تھی۔
اس مدعے پر بحث کرکے ملک سے اپیل کرنا تھا۔ مگر، آج ہمارے وزیر اعظم انتخاب جیتنے کے لئے جوان کے نام پر کسان کی موت چھپانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔سابق ایئر فورس چیف ایڈمرل رام داس نے فوج کے موجودہ افسروں کی طرف سے الیکشن کمیشن کو خط لکھکر یہ مانگ کی تھی کہ انتخابات میں پلواما، بالاکوٹ یا کسی بھی شکل میں فوج کا استعمال نہ ہو۔ اس پر الیکشن کمیشن نے ہدایات بھی جاری کئے تھے۔مگر اس کا کوئی اثر وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں پر پڑتا نظر نہیں آتا۔ مہاراشٹر کے لاتور میں تو انہوں نے نے سیدھے سیدھے پلواما میں شہید ہوئے فوجیوں کے نام پر ووٹ مانگا۔
بی جے پی اور میڈیا کے کچھ طبقے نے ایک ایسا جنونی ماحول بنا دیا ہے، جیسے فوجیوں کی موت پر گھڑیالی آنسو بہانا اور بات-بات پر جنگ کی بات کرنا-دیکھ لینا اور دکھا دینا راشٹرواد کی اصلی نشانی رہ گئی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ یہ انتخاب ملک کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے حکومت چننے کی بجائے پاکستان کو سبق سکھانے والی حکومت چننے کے لئے ہو رہا ہے۔ماحول اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ، جہاں کل تک کسانوں، آدیواسیوں اور طالبعلموں کی موت پر سوال اٹھانا ہر بیدار شہری اور رہنما کا فرض مانا جاتا تھا، وہیں آج ایسا کرنے پر ان کو ‘غدار وطن ‘اور فوج پر سوال اٹھانے والا قرار دے دیا جاتا ہے! میڈیا آپ کو اور حکومت کٹہرے میں کھڑا کر دیتی ہے۔
وہیں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں؛2004سے13 کے دس سالوں میں کل 158865 کسان خودکشی کرنے کو مجبور ہوئے۔اور 2014 میں 12360 اور 2015 میں 12602 کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں، اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ (2015 کے بعد سے مودی حکومت نے ان اعداد و شمار کو جاری ہی نہیں کیا ہے۔)اگر دوسرے ذرائع کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، تو حالات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوگا-مہاراشٹر حکومت کے Relief & Rehabilitation Department کے مطابق اکیلے مہاراشٹر میں 2015 سے 2018 کے چار سال میں 12004 کسانوں نے خودکشی کی۔ وہیں کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے 2014 کے پانچ سال میں 8009 کسانوں نے ہی خودکشی کی تھی۔
وہیں فوج کے جوان بھی کارروائی کے بجائے دیگر وجہوں سے زیادہ مرتے ہیں۔ مارچ 2018 میں وزارت داخلہ نے پارلیامانی کمیٹی کو سونپی ایک رپورٹ میں بتایا کہ پچھلے 6 سالوں میں سی آر پی ایف کے جتنے جوان کام کے دوران نہیں مرے اس سے زیادہ-700 فوجیوں نے خودکشی کی۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے سی آر پی ایف کی خودکشی اور ایکسیڈنٹ سے ہونے والی موت کے 2015 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حادثہ میں مرنے والوں کی تعداد کارروائی میں مرنے والوں سے زیادہ تھی-کل 193 جوان غیر طبعی موت مارے گئے، اس میں صرف 35 کارروائی کے دوران مارے گئے، وہیں 60 جوانوں نے خودکشی کی۔
فوج میں حالات یہ ہو گئے ہیں کہ فوجی فوج چھوڑنے کو مجبور ہیں۔ دفاعی وزیر مملکت سبھاش بھامرے نے 27 دسمبر 2017 کے ذریعے راجیہ سبھا میں دئے گئے جواب کے مطابق سال 2014 سے مارچ 2017 کے درمیان فوج کے 41953 افسروں اور جوانوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لئے درخواست دی۔ 2009 سے 2011 میں 25062 ہزار فوجی افسروں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لئے درخواست دی تھی۔اوپر دئے گئے اعداد و شمار یہ دکھاتے ہیں کہ ‘فوج کی عزت ‘ اور ‘راشٹرواد’ کا نعرہ پچھلے پانچ سال میں فوج کے جوانوں کے حالات میں بھی بہتری نہیں لا پائی، بلکہ ان کے حالات اور بگڑے ہیں۔
اس تھوتھے راشٹرواد نے ہمیں اور ہمارے پڑوسی غریب ملک پاکستان کو ہتھیاروں کی دوڑ میں ضرور لگا دیا جبکہ 2018 ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں 189 ممالک میں ہندوستان 130واں اور پاکستان 150واں مقام پر ہے۔اگر انتخاب میں پاکستان کو سبق سکھانا مدعا رہا، تو پھر یہ دفاعی بجٹ اور بڑھےگا، یعنی روزگار، تعلیم، صحت جیسے ضروری مدعوں پر بجٹ میں کٹوتی کرنی ہوگی اور اگر واقعی میں جنگ ہو گئی، تو پھر ساری معیشت بےپٹری ہو جائےگی۔آج ضرورت تھوتھے راشٹرواد اور فوجیوں کی موت پر جنون کو بھڑکانے سے بچنے کی ہے۔ پاکستان اور ہماری بھلائی ان کے اور ہمارے’راشٹرواد’ کے ٹکرانے میں نہیں ہے، بلکہ پڑوسیوں سے رشتے سدھارنے میں ہے۔ اور ضرورت ہے فوجی اشیا بیچنے والے ممالک کی چالوں سے بچنے کی۔ نہ پاکستان کے عوام ہتھیار کھا سکتے ہیں اور نہ ہم۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر