سپریم کورٹ نے سی جے آئی کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کو’سازش ‘ بتانے والے وکیل اتسو بینس کے دعووں کی تفتیش کی ذمہ داری ریٹائر ڈ جج اے کے پٹنایک کو دی ہے۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ جنسی استحصال کے الزامات سے متعلق شکایت پر غور نہیں کرےگی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو پھنسانے کی مبینہ سازش اور عدالت میں مقدموں کی سماعت کے لئے بنچ فکسنگ کے الزامات کی تفتیش کے لئے جمعرات کو سبکدوش جج اے کے پٹنایک کی ایک رکنی کمیٹی کی تقرری کی۔عدالت نے سی بی آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹرس اور دہلی کی پولیس کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ جانچکے دوران ضرورت پڑنے پر جسٹس پٹنایک کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کریں۔عدالت نے یہ واضح کیا کہ جسٹس پٹنایک کی تفتیش چیف جسٹس کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات سے متعلق شکایت کے موضوع پر غور نہیں کرےگی۔جسٹس ارون مشرا، جسٹس آر ایف نریمن اور جسٹس دیپک گپتا کی خصوصی بنچ نے کہا کہ جسٹس پٹنایک کی جانچ کمیٹی کے نتیجے چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی تفتیش کرنے والی انٹرنل کمیٹی کو متاثر نہیں کریںگے۔
عدالت نے کہا کہ تفتیش پوری ہونے پر جسٹس (سبکدوش) پٹنایک مہر بند لفافے میں اپنی رپورٹ عدالت کو سونپیںگے۔ اس کے بعد سارے معاملے میں پھر آگے سماعت ہوگی۔بنچ نے اس تفتیش میں مدد کے لئے لوگوں کی ضرورت کا مسئلہ کمیٹی پر چھوڑ دیا ہے۔ خصوصی بنچ نے اپنے حکم میں کہا،’مکمل حقائق اور وکیل اتسو سنگھ بینس کے حلف نامہ پر غور کے بعد ہم عدالت کے سبکدوش جج جسٹس اے کے پٹنایک کو بینس کے ذریعے حلف نامہ میں لگائے گئے الزامات کی تفتیش کے لئے مقرر کر رہے ہیں۔ ‘بنچ نے واضح کیا کہ وہ ‘چیف جسٹس کے ذریعے بد سلوکی کے الزامات پر غور نہیں کریںگے۔’بینچ نے یہ بھی کہا کہ’جانچکے نتیجے اور اس کی رپورٹ’اس انٹرنل تفتیش کو متاثر نہیں کرےگی جس کے لئے پہلے حکم دیا جا چکا ہے۔
بنچ نے آگے کہا، ‘سی بی آئی اور آئی بی ڈائریکٹر اور دہلی پولیس کمشنر ضرورت پڑنے پر جسٹس پٹنایک کو ان کی تفتیش میں تعاون کریںگے۔ ‘بنچ نے بینس کے ذریعے داخل حلف نامہ مہر بند لفافے میں جسٹس (سبکدوش) پٹنایک کو سونپنے کا بھی حکم دیا۔ حکم لکھتے وقت بنچ نے شروع میں ہی کہا، ‘ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وکیل چنندہ دستاویزوں پر خصوصی اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے اور اس کو جب بھی ضرورت ہوگی ساری جانکاری دینی ہوگی۔ ‘
‘ ادارہ کی امیج خراب کرنے کا منصوبہ بند کھیل چل رہا ہے ‘
اس سے پہلے عدالت نے عدلیہ پر ‘منصوبہ بند حملے ‘ کو لےکر جمعرات کو اپنی ناراضگی کااظہار کیا اور کہا کہ اب ملک کے امیروں اور طاقت ور لوگوں کو یہ بتانے کا وقت آ گیا ہے کہ وہ ‘ آگ سے کھیل رہے ‘ ہیں۔خصوصی بنچ نے کہا کہ وہ پچھلے تین-چار سال سے عدلیہ کے ساتھ پیش آنے کے طریقے سے بےحد مایوس ہیں۔بنچ نے کہا، ‘پچھلے کچھ سالوں میں اس ادارہ کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، اگر یہی ہوگا تو ہم بچیںگے نہیں۔ اس وقت منصوبہ بند حملہ ہو رہا ہے۔ اس ادارہ کی امیج خراب کرنے کا منصوبہ بند کھیل چل رہا ہے۔ ‘
بنچ کا کہنا تھا، ‘یہ مت سوچیے کہ زمین پر کسی بھی چیز سے سپریم کورٹ پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ پیسےکی طاقت ہو یا سیاسی طاقت ہو۔’اس صورتحال سے فکرمند ججوں کی رائے تھی کہ اس وقت ہوا میں بہت کچھ چل رہا ہے اور یقیناً اس کی تفتیش کی ضرورت ہے۔جسٹس مشرا نے گزشتہ سال عدلیہ کو تنازعات کی چپیٹ میں لینے والے واقعات کے تناظر میں تبصرہ کیا کہ ابھی بھی سچائی سامنے نہیں آئی ہے۔ بنچ نے کہا، ‘لوگوں کو سچائی کا پتہ لگنا چاہیے۔ یہ سب چل رہا ہے اور اس کو بند کرنا ہوگا۔ کیا ملک کے مالدار اور طاقتور یہ سوچتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کو ری موٹ سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ‘
عدالت نے جمعرات کو یہ بھی کہا کہ عدلیہ میں اتنا سب کچھ ہو رہا ہے اور جب کوئی آدمی اس کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو بدنام کیا جاتا ہے۔بنچ نے تفصیل سے کہا، ‘ ہم بلیک میلنگ کی اس حد تک آ گئے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ کیا چل رہا ہے۔ ‘عدالت نے کہا کہ نانی پالکھی والا، پھلی نریمن اور کے پراسرن جیسے روشن خیال قانون سازوں نے اس عظیم ادارہ کو بنایا ہے اور اب آئے دن بنچ فکسنگ کے بارے میں خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
بنچ نے کہا کہ چار-پانچ فیصد لوگ پورے ادارہ کو بدنام کر رہے ہیں اور ‘ جج ہونے کے ناطے ہم فکرمند ہیں کہ ہم یہاں کیوں پہنچ گئے؟ ہم بہت ہی فکرمند ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کھڑے ہوں اور اس ملک کے مالدار اور طاقتور لوگوں سے کہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ‘آگے بنچ نے کہا، ‘ہر دن، ہرکوئی ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘ بنچ نے واضح کیا کہ وہ دیکھےگی کہ کیا وکیل اتسو سنگھ بینس کا دعویٰ صحیح ہے یا نہیں۔
بنچ فکسنگ کی کوششوں کا دعویٰ
بینس نے جنسی استحصال کے الزام میں چیف جسٹس کو پھنسانے کی سازش اور عدالت میں مبینہ طور پر بنچ فکسنگ کی کوششوں کے بارے میں دعوے کئے ہیں۔بنچ نے یہ شدید تبصرہ اس وقت کیا، جب سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ تفتیش کرانے کی بجائے بینس کے الزامات کی تہہ تک جانے کے لئے خصوصی تفتیشی ایجنسی سے تفتیش کرائی جانی چاہیے۔ اس سے پہلے جمعرات کی صبح بینس نے اپنے دعووں کی حمایت میں مہر بند لفافے میں اضافی حلف نامہ داخل کیا۔بنچ نے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال سے بینس کے ذریعے کچھ دستاویز وکیل قانون کے اہتماموں کے تحت محفوظ ہونے سےمتعلق خصوصی اختیارات کے دعوے کے بارے میں پوچھا۔
وینو گوپال نے قانون کے اہتماموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں وکیل اور موکل کا مدعا نہیں ہے کیونکہ بینس نے اپنی ذاتی حیثیت میں حلف نامہ داخل کیا ہے اور اس لئے وہ چنندہ دستاویزوں پر خصوصی اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سینئر وکیل راکیش کھنہ نے بنچ سے کہا کہ عدالت کو معاملے سے متعلق کوئی بھی دستاویز منگانے کا حق ہے اور بینس چنندہ دستاویزوں پر خصوصی اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اس پر جسٹس نریمن نے کہا، ‘ کسی بھی صورت میں دستاویزوں کے جائزے کا حق ہمیشہ موجود ہے۔ ‘
وہیں اس معاملے میں ذاتی طور پر پیش سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے بنچ سے کہا تھا کہ اس کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ بینس کے حلف نامہ پر سماعت اور چیف جسٹس کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کی تفتیش کے لئے الگ تفتیشی کمیٹی کی کارروائی میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔بنچ نے کہا،’یہ بہت ہی سنگین الزام ہے کہ بنچ فکسنگ کا طریقہ اپنایا گیا اور جب وہ اس میں ناکام ہو گئے تو یہاں گھوم رہے کچھ فکسروں نے یہ کرنے کی کوشش کی۔ ‘جسٹس مشرا نے جئےسنگھ سے کہا، ‘آپ کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے ہم کیا کر رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان مہر بند لفافوں میں کیا ہے۔’حالانکہ، جئےسنگھ نے بنچ سے کہا کہ بینس کے پس منظر کی تفتیش کی جانی چاہیے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ وہ بےداغ طریقے سے عدالت آئے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں