خبریں

چیف جسٹس کو جنسی استحصال کے معاملے میں کلین چٹ ملنے پر مظاہرہ، سماجی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا

سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ کل 52 عورتوں اور تین مردوں کو صبح پونے گیارہ بجے حراست میں لیا گیا ہے اور پولیس نے بتایا ہے کہ ان کو اوپر سے آرڈر آنے کے بعد رہا کیا جائے گا۔

SC-Protest

نئی دہلی : چیف جسٹس رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے معاملے میں کلین چٹ دیے جانے کے خلاف سماجی کارکن اور وکیل سپریم کورٹ کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں ۔مظاہرہ کرنے والے ان کارکنو ں کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ مظاہرین نے ٹوئٹ کر کے جانکاری دی ہے کہ ان کو منڈی مارگ پولیس اسٹیشن لے جایا جارہا ہے۔

سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ کل 52 عورتوں اور تین مردوں کو صبح پونے گیارہ بجے حراست میں لیا گیا ہے اور پولیس نے بتایا ہے کہ ان کو اوپر سے آرڈر آنے کے بعد رہا کیا جائے گا۔بھوشن نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ، سی جے آئی کو کلین چٹ ملنے کے خلاف میں مظاہرہ کر رہیں عورتوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پو لیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے ۔ کیا مخالفت کتنے آئینی حق سپریم کورٹ پر نافذ نہیں ہوتا؟

قابل ذکر ہے کہ اینی راجا، انجلی بھاردواج ، مایا راؤ، گوتم مودی ، نندنی راؤ، نندنی سندر، وانی جیسے کئی سماجی کارکنو ں کو پولیس نے حراست میں لیا ہے ۔ مظاہر ہ کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر دفعہ 144 لگادیا گیا ہے۔

واضح ہوکہ سوموار کو سپریم کورٹسپریم کورٹ کی انٹرنل جانچ کمیٹی نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے الزاموں پر کلین چٹ دے دی ہے۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس اندو ملہوترا اس جانچ کمیٹی کی ممبر تھے۔سپریم کورٹ کے جنرل سکریٹری کے ذریعے جاری ریلیز میں کہا گیا ہے کہ، ‘انٹرنل کمیٹی نے پایا کہ 19 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ کی ایک سابق اسٹاف کے ذریعے لگائے جنسی استحصال کے الزاموں میں کوئی دم نہیں ہے۔’سپریم کورٹ کی انٹرنل جانچ کمیٹی نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے الزاموں پر کلین چٹ دے دی ہے۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس اندو ملہوترا اس جانچ کمیٹی کی ممبر تھے۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازم نے سپریم کورٹ  کے 22 ججوں کو خط لکھ‌کر الزام لگایا تھاکہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی)جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میںان کا جنسی استحصال کیا تھا۔35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ذریعے ان کے ساتھ کئے ‘ قابل اعتراض سلوک ‘ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی ان کو، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ  26 اپریل کو اس معاملے میں بنی جانچ  کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی اور متاثرہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی۔اس کے بعد جسٹس رنجن گگوئی بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔معاملے کی شنوائی شروع ہونے کے کچھ دن بعد متاثرہ نے انٹرنل کمیٹی کے ماحول کو ڈراونا بتاتے ہوئے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔اس معاملے میں شکایت کرنے والی خاتون نے عدالت میں اپنے وکیل کی موجودگی کی اجازت نہیں دیے جانے سمیت کئی اعتراض کرتے ہوئے کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

خاتون نے کہا کہ اس کو اپنی حفاظت کی بھی فکر ہے کیوں کہ عدالت کی کارروائی سے لوٹتے وقت دو سے چار لوگوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس معاملے کو لے کر جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے تین ممبروں کمیٹی کو 2 مئی کو خط لکھ کر ایک فل کورٹ شنوائی کی مانگ کی ۔جسٹس چندر چوڑ نے جانچ کمیٹی کا دائرہ بڑھانے کے لیے ایک باہری ممبر کوبھی شامل کرنے کی مانگ کی ۔ اس کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ تین خاتوں ججوں کا نام بھی دیا تھا۔

 اس سے پہلے بار کاؤنسل آف انڈیا نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو معاملے میں کلین چٹ دیے جانے کی حمایت کی ہے ۔ بار کاؤنسل کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف الزام لگانے والی خاتون ‘نارمل’ نہیں ہے۔بار کاؤنسل کے چیئر مین منن کمار مشرا کی طرف سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا عام آدمی بیوقوف نہیں ہے ۔ لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ چیف جسٹس پر الزام لگانے والی خاتون کے پیچھے کسی طاقتور آدمی کا ہاتھ ہے ، خاتون کو نارمل نہیں مانا جاسکتا۔