بہت کچھ اس پر منحصر کرےگا کہ بی جے پی کو کتنی سیٹیں ملیںگی-200 سے کم سیٹیں آنے پر اس کو رعایتیں دینی پڑیںگی، 220 سے اوپر سیٹیں آنے پر یہ مول بھاؤ کرنے کی بہتر حالت میں ہوگی۔
ان دنوں گٹھ بندھن کا ذکر فضاؤں میں ہے۔ علاقائی پارٹیاں مختلف ریاستوں میں دوسری علاقائی پارٹیوں سے رابطہ بنا رہی ہیں اور خبر یہ بھی ہے کہ ان میں سے کچھ نے انتخاب کے نتائج آنے سے پہلے ہی کانگریس کے پاس بھی اپنے دوت بھیجے ہیں۔کمل ناتھ نے کہا ہے کہ کانگریس دوسری پارٹیوں کے ساتھ ملکر اتحاد بنا سکتی ہے اور اب تو بی جے پی کے رام مادھو نے بھی یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ان کی پارٹی کو اتحاد کی درکار ہوگی (حالانکہ انہوں نے اپنی پارٹی کو 271 سیٹیں دیں، جس کے بعد بہت زیادہ اتحادیوں کی ضرورت نہیں رہ جائےگی۔)یہ بات اب تقریباً صاف ہوتی جا رہی ہے کہ بی جے پی کو اکیلے دم پر اکثریت ملنے نہیں جا رہی ہے اور اس کو حکومت بنانے کے لئے این ڈی اے کے اندر اور باہر کے حمایتوں کی مدد لینی پڑےگی۔
ممکن ہے کہ اس نے اب تک پردے کے پیچھے کچھ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ بات چیت پکی بھی کر لی ہو، جو کسی کمزور علاقائی گروپ کے ساتھ ہاتھ ملانے کی جگہ سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ جانے میں زیادہ فائدہ دیکھ سکتے ہیں۔ کافی کچھ اس پر منحصر کرےگا کہ بی جے پی اپنے دم پر کتنی سیٹیں جیت پاتی ہے۔ایک خاص حد کے بعد مان لیجئے 200-کے بعد بی جے پی کو رعایتیں دینے پر مجبور ہوا ہوگا۔ 220 سے زیادہ سیٹیں آنے سے یہ زیادہ بہتر مول بھاؤ کرنے کی حالت میں ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی اور ان کے پارٹی صدر امت شاہ اس بات سے واقف ہوںگے کہ بڑی کامیابیوں کے بعد اکثر ہار کا منھ دیکھنا پڑتا ہے-1971 میں اندرا گاندھی اور 1984 میں راجیو گاندھی بڑی اکثریت سے انتخاب جیت کر آئے تھے، لیکن ان کو جلد ہی اٹھا پٹک کا سامنا کرنا پڑا اور اگلے انتخاب میں ان کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔
2014 میں مکمل اکثریت پانے والے نریندر مودی کی چمک پھیکی پڑی ہے، جبکہ حزب مخالف منقسم ہے اور کانگریس کمزور ہے۔ پچھلے دو سالوں میں وہ تیزی سے تبدیل ہوئی ہیں، بھلےہی مودی کی ذاتی مقبولیت مستحکم رہی ہے، لیکن ان کے لئے 2014 جیسے شاندار نتائج کو دوہرا پانا ٹیڑھی کھیر ہوگا۔نئےنظر یے کے کسی دعوے دار کی جگہ وہ ایک تھکا ماندے رہنما کی طرح نظر آنے لگے ہیں، جو تھکا ہوا ہے اور جس کے پاس ایک بھی نیا نظریہ نہیں ہے، سوائے اپنے من پسند نشانے-نہرو گاندھی فیملی، کے مذاق اڑانے کے۔یہ ان کے بھکتوں کو تو اپیل کر سکتا ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی دوسرے کو یہ متاثر نہیں کر رہا ہے۔ کیا راجیو گاندھی واقعی ایک انتخابی مدعا ہیں؟
مودی کا پاگل پن رائےدہندگان کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، خاص کر نوجوان ہندوستانی رائےدہندگان، جو ہو سکتا ہے ان سے متاثر ہوں، کے تو یہ بالکل ہی پلّے نہیں پڑ رہا ہے کہ آخر مودی کیا بات کر رہے ہیں۔لیکن یہ طے نہیں ہے کہ بی جے پی-اس کو سب سے زیادہ سیٹیں ملنے کی حالت میں بھی-حکومت بنا ہی لےگی۔ مودی کو 15 دنوں کے اندر اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے کہا جا سکتا ہے، لیکن اچھا ہوگا اگر وہ یہ یاد کر لیں ایک اہم حمایتی-جئے للتا کے ذریعے حمایت واپس لئے جانے کے بعد 1999 میں اٹل بہاری واجپائی حکومت ایک ووٹ سے کیسے گر گئی تھی۔موجودہ وقت میں کون یہ کہہ سکتا ہے کہ مودی کی قیادت والے این ڈی اے میں دوسری جماعت شامل بھی ہوںگے یا نہیں؟
انتخابی نتائج کے بعد تین ممکنہ تصویریں بنتی ہوئی دکھتی ہیں۔ یقینی طور پر اس کے ساتھ کچھ سابقہ شرطیں جڑی ہیں۔ مثلاً، اگر بی جے پی اکثریت سے یا تقریباً اکثریت سے حکومت بنا لے، لیکن اگر بہت ساری جماعتوں کے اتحاد کی صورت سامنے آتی ہے، تو یہ حالتیں پیدا ہو سکتی ہیں :
اگر بی جے پی 180 کے آس پاس سیٹیں جیتے
یہ ناممکن صورتِ حال نہیں ہے، خاص کر اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ 2014 میں بی جے پی ہندی بیلٹ کی کئی ریاستوں (اور گجرات) میں 90 سے 100 فیصدی سیٹیں جیت گئی تھی۔ اس بار بی جے پی کو اتر پردیش اور بہار میں گٹھ بندھن کے ہاتھوں اور گجرات، مہاراشٹر، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔بی جے پی ہونے والے نقصانات کی بھرپائی بنگال، اڑیسہ اور شمال-مشرق سے کرنے کی امید کر رہی ہے۔ لیکن یہاں ہونے والے فائدے ہندی بیلٹ کی اہم ریاستوں میں میں آنے والی کمی کو بھر پانے کے لئے کافی نہیں ہوںگے۔اس اعداد و شمار کے ساتھ پارٹی کو نہ صرف اپنے این ڈی اے کے حمایتی-شیوسینا، جنتا دل یونائٹیڈ، شرومنی اکالی دل اور انا درمک وغیرہ کی ضرورت پڑےگی، بلکہ اس کو دوسروں کی طرف بھی دیکھنا پڑےگا۔ بیجو جنتا دل، تلنگانا راشٹر کمیٹی اور وائی ایس آر جیسی کچھ جماعت ساتھ ہو سکتی ہیں۔
اگر اس کے باوجود جادوئی اعداد و شمار دور رہ گیا تو کچھ دیگر جماعت بھی اتحاد میں شامل ہو سکتی ہیں۔ چرچے میں مایاوتی، ایچ ڈی کمارسوامی اور یہاں تک کہ شرد پوار سمیت کئی نام چل رہے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے ووٹ بینک کو گنوانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہےگا۔اس کے علاوہ مودی-شاہ کی جوڑی کا ٹریک ریکارڈ، جس کی امیج اپنے حمایتی کو نظرانداز کرنے-یہاں تک کہ دھونس دکھانے تک کی ہے، راستے میں ایک اور رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے۔ شیوسینا کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اتحاد میں رہتے ہوئے بھی بی جے پی کو دھمکاتی رہ سکتی ہے۔لیکن دوسرے اس حالت میں شاید نہ پڑنا چاہیں، جہاں وہ اپنے اوپر خطرہ محسوس کریں۔ حقیقت میں وہ شاید ایسی حکومت میں شامل بھی نہ ہونا چاہیں جس کے وزیر اعظم مودی ہوں۔ ایسی حالت میں بی جے پی کے لئے کشمکش کی حالت ہوگی کہ کیا کسی دوسرے کی قیادت میں حکومت بنائی جائے یا اس موقع کو ہاتھ سے جانے دے۔
مودی-شاہ جوڑی کو اس ممکنہ حالت کا سامنا کرنا پڑےگا-کیا مودی کرسی پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیںگے اور کسی دوسرےکو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے دیںگے؟
کانگریس کے ساتھ اتحاد
اگر کانگریس ٹھیک ٹھاک سیٹیں جیتتی ہے، تو غیربی جے پی اتحاد کی کنجی ا س کے ہاتھوں میں ہوگی۔ لیکن ایسی متاثر کن حالت میں آنے کے لئے اس کو کم سے کم 140 سیٹوں کی درکار ہوگی، جو مشکل دکھائی دیتی ہے۔اتنی سیٹوں کے ساتھ یہ کسی اتحاد میں قیادت کی حالت ہوگی۔ لیکن 120 یا اس کے آس پاس سیٹوں کے ساتھ یہ صرف حمایت کی پیشکش کرنے لائق ہی ہوگی۔ کچھ کانگریسی اس بات کو لےکر پرامید ہیں کہ ان کی پارٹی کے دن پھر رہے ہیں اور یہ یو پی اے-3 کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔لیکن یہ ایک دور کی کوڑی ہے۔ انتخابات کے نتیجے اکثر حیران کن کرنے والے ہوتے ہیں، لیکن فی الحال 44 سے 140 کی چھلانگ لگانا مشکل نظر آتا ہے۔ ایسے اتحاد میں کون شامل ہوگا؟ آرجے ڈی، ڈی ایم کے اور این سی پی جیسے موجودہ مددگار یقینی طور پر اس کا حصہ ہوںگے۔ تلنگانا راشٹر کمیٹی اور وائی ایس آر کانگریس بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے۔
ترنمول کانگریس نے ابھی تک اپنے پتے نہیں کھولے ہیں، لیکن اگر اس کی مکھیا ممتا بنرجی کو بی جے پی اور نریندر مودی کو باہر رکھنے کا یہی ایک راستہ دکھائی دیتا ہے، تو وہ اپنی حمایت دے سکتی ہیں۔ جہاں تک مہاگٹھ بندھن کا سوال ہے، تو مایاوتی کو تھوڑا منانے کی ضرورت ہوگی۔
غیربی جے پی-غیر کانگریس حکومت
اس کا امکان تبھی بنےگا، جب دونوں قومی پارٹیوں کو ملاکر 280 سے کم سیٹیں ملیں۔ اس حالت میں علاقائی پارٹیاں 1996 کے مشترکہ مورچے کی طرح ایک ساتھ آنے کو کافی فائدے کے سودے کے طور پر دیکھیںگی۔اس وقت وزیر اعظم عہدے کے لئے ایچ ڈی دیوگوڑا کے نام پر اتفاق نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ ایسا اس لئے ہو پایا تھا کیونکہ مضبوط رہنماؤں نے ایک دوسرے کے نام پر ویٹو لگا دیا تھا۔ کوئی بھی مضبوط رہنما کسی دوسرے مضبوط رہنما کے نام پر راضی ہونے کے لئے تیار نہیں تھا-ایسے میں واحد راستہ کوئی’باہری’تھا، جو کسی کے لئے خطرہ نہیں ہوتا، جس کے پاس تجربہ تو تھا، مگر کوئی اہم بنیاد نہیں تھی۔علاقائی رہنماؤں کا موجودہ گروپ بھی کچھ ایسا کر سکتا ہے-شرد پوار یا ممتا بنرجی جیسے رہنماؤں کا بڑا قد وزیر اعظم عہدے کی ان کے مقصد کے آڑے آ سکتا ہے اور آخر میں سمجھوتہ کے طور پر ایک زیادہ فرماں بردار یا سب کو ساتھ لےکر چلنے والا چہرے کے سر پر تاج رکھا جا سکتا ہے۔
ایسا شخص کون ہو سکتا ہے؟ یہ فی الحال اندازے کا ہی موضوع ہے۔ کیا ایسی حکومت پائیدار ہوگی؟ اگر ماضی کو کوئی اشارہ مانا جائے تو ایسے اتحاد کی عمر چھوٹی ہوتی ہے۔ وی پی سنگھ، چندرشیکھر، دیوگوڑا اور آئی کے گجرال سب کے لئے ایک سال پورا کرنا بھی مشکل ثابت ہوا تھا۔ایسے تجربات کے بعد ہوئے انتخابات میں کانگریس یا بی جے پی کی قیادت والے اتحاد کی جیت ہوئی۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ ایک قومی پارٹی کی موجودگی ایک مستقل حکومت کی تشکیل کے لئے بےحد اہمیت رکھتی ہے۔کئی علاقائی پارٹیوں کو اس بات کا احساس ہے اور وہ چاہیںگی کہ دونوں میں سے کوئی ایک بڑی پارٹی کافی تعداد میں سیٹیں جیتکر آئے اور ایسے کسی اتحاد کے مرکز کا کام کریں۔
شیوسینا جیسی پارٹیاں بی جے پی کو ترجیح دیںگی (کانگریس کبھی بھی اس کو کسی اتحاد میں شامل نہیں کرےگی)، تو آرجے ڈی جیسی پارٹیاں کبھی بھی بی جے پی کے اکھاڑے میں نہیں جائیںگی۔ کئی پارٹیاں کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتی ہیں۔اس کی وجہ سے منظرنامہ میں پس و پیش کا عنصر شامل ہو رہا ہے۔ یہ خیالی صورتِ حال ہیں اور ممکن ہے کہ ان تینوں سے کوئی بالکل الگ نتیجے ہمارے سامنے آئیں۔لیکن اگر سچ مچ ایسی حالت آتی ہے کہ کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پاتی، تو حکومت کی تشکیل ان دو بڑی پارٹیوں کے ذریعے جیتی جانے والی سیٹوں کی تعداد، علاقائی جماعتوں کے ذریعے دونوں اتحاد میں شامل ہونے سے ہونے والے فائدے کا اندازہ اور آخر میں-اور یہ اہم ہے-اس قواعد میں شامل شخصیتوں پر منحصر کرےگا۔
Categories: فکر و نظر