بہت منصوبہ بند طریقے سے پورے الیکشن کے دوران یا مشترکہ محاذ بنانے کے معاملے پر سونیا خاموش رہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ راہل کی والدہ یا کانگریس کی سابق صدر ہونے کا کوئی اثر راہل کی سیاسی سرگرمیوں پر پڑے۔ لیکن اب چناوی سرگرمیاں تھمنے کے بعد، سونیا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری غلام نبی آزاد نے 23 مئی 2019 کو آنے والے لوک سبھا انتخاب کے نتائج کی بابت ایک دانشمندانہ فارمولہ پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان نتائج کی بنیاد پر پارٹی وزیر اعظم کے عہدے سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ غیر این ڈی اے پارٹیوں پر اس بات کا یقیناً مثبت اثر پڑےگا۔اس کے علاوہ بی جے پی -این ڈی اے کے مقابلے کانگریس کو ایک اور فائدہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ بی جے پی کے پاس ایک وزیر اعظم ہے جو اپنی اگلی مدت کار کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ بی جے پی کی یہ طاقت اب کمزوری بن گئی ہے کہ اس کے پاس وزیر اعظم ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ داخلہ، دفاع، ریلویز، ٹرانسپورٹ، دیہی ترقیات جیسی اہم وزارتوں میں سے بھی غیر این ڈی اے پارٹیوں کو این ڈی اے کے ساتھ جانے پر کچھ خاص ملنے کا امکان کم ہی ہے۔ جبکہ کانگریس اس وقت اچھی پوزیشن میں نظر آ رہی ہے۔ اس کی آنکھیں وزارت خزانہ اور امور خارجہ پر ہیں کہ وہ خود کو ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد گزار مانتی ہے، نیز معاشیات میں بھی اس کا عمل دخل ہے۔
2019 کے اس انتخاب میں میڈیا کے ذریعے کانگریس کی یہ کہہ کر تنقید کہ اس نے میدان چھوڑ دیا، اب غلط ثابت ہو رہی ہے۔انتخاب کی پوری تشہیری مہم کے دوران نہ تو راہل گاندھی نے، نہ ہی کانگریس نے اپنے صدر کو وزیر اعظم کے عہدے کا دعوےدار بتایا۔ راہل کو وزیر اعظم بنانے کی بات تو جنوبی ہند کے اہم نیتا ڈی ایم کے کے صدر ایم کے اسٹالن نے تب کی جب مقبولیت کے زمرے میں صوبائی رجحانات کے تحت وہاں راہل کو مودی سے آگے بتایا گیا۔ویسے 2019 کے یہ انتخاب مودی کی قیادت والے این ڈی اے اور حزب اختلاف کی پارٹیوں نے تقابلی انداز میں لڑا۔ اب 23 مئی کو یہ تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
مودی کی قیادت والے این ڈی اے کو واضح اکثریت مل جائے۔ ٹی وی پر دکھائے جا رہے ایگزٹ پول میں اس کا دعویٰ کیا بھی جا رہا ہے۔
مودی کی قیادت والے این ڈی اے کو واضح اکثریت کے لیے مطلوب 272 سیٹیں نہ مل کر 230 سے زیادہ سیٹیں ملیں۔ ایسی صورت میں وائی ایس آر کانگریس، ٹی آر ایس، بی جے ڈی، اے ڈی ایم کے جیسی علاقائی پارٹیاں مودی کی حمایت جاری رکھنے کے لیے مول بھاؤکر کے اپنے لیے وزارتی عہدے مختص کرا سکتی ہیں۔
کانگریس اور غیر این ڈی اے علاقائی پارٹیوں کو 300 سے زیادہ سیٹیں مل جائیں اور یہ پارٹیاں مل کر ایک متحدہ محاذ بنا لیں۔ ایسی صورت میں کانگریس کو یہ اطمینان رہے گا کہ اس نے مودی کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
دوسرے الفاظ میں نریندر مودی کی قیادت والی بی جےپی سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھرے اور اسے حمایتی پارٹیوں کے اشتراک سے واضح اکثریت مل جائے۔ البتہ بی جے پی کو 180 سے 190 سیٹیں ملیں تو اس کے سامنے ایک مشترکہ سرکار چلانے کا امتحان ہوگا۔دوسری جانب اگر کانگریس کو آدھے میں سے آدھی سیٹیں (یعنی لوک سبھا کی 272 سیٹوں سے بھی آدھی) ملتی ہیں تو یہ مودی جی والی بی جے پی کے لیے مشکل مقام ہوگا۔ کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ تر علاقائی پارٹیاں کانگریس کے ساتھ جانا پسند کریں گی۔اگر کسی کو بھی واضح اکثریت نہ ملی تو مایاوتی اور ممتا دونوں کو اسٹالن، نوین پٹنایک، اکھلیش یادو، کے چندرشیکھر راو، جگن موہن ریڈی، تیجسوی یادو کے ساتھ سونیا، راہل، پرینکا تینوں کی حمایت مل سکتی ہے۔ ممتا کے لیے البتہ یہ تذبذب کا مقام ہو گا کہ کولکاتہ میں انہوں نے اپنا کوئی قائم مقام تیار نہیں کیا ہے، جو وہاں کی سرکار سنبھال سکے۔
ادھر بہت منصوبہ بند طریقے سے پورے الیکشن کے دوران یا مشترکہ محاذ بنانے کے معاملے پر سونیا خاموش رہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ راہل کی والدہ یا کانگریس کی سابق صدر ہونے کا کوئی اثر راہل کی سیاسی سرگرمیوں پر پڑے۔ لیکن اب چناوی سرگرمیاں تھمنے کے بعد، سونیا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ غیر این ڈی اے پارٹیوں کو ایک سائبان چاہیے۔ جے پرکاش نرائن (1977) یا وی پی سنگھ، ہرکشن سنگھ سرجیت (1996، 2004) جیسی کوئی شخصیت ہو جو انا پرست، متلون مزاج علاقائی مہارتھیوں کو ساتھ لا سکے۔ صرف سونیا کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ راہل سے کہہ سکیں کہ وہ قربانی دیں اور علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلیں۔
سینئر کانگریسی نیتا جے پال ریڈی نے سونیا کو “زندگی کے مکتب سے فارغ ہونے والی بے مثال صلاحیتوں میں سے ایک” کے طور پر تشبیہ دی تھی۔ سو سونیا جلد ہی سمجھ گئیں کہ مشترکہ سیاست کے اس دور میں اتحاد ہی آگے بڑھنے کی ایک صورت ہے۔ جیسا کہ راقم نے اپنی کتاب “سونیا – اے بایوگرافی” میں لکھا ہے، کئی سال پہلے سومناتھ چٹرجی کی رہائش گاہ پر منعقد ایک ڈنر میں سونیا ہلسا مچھلی کھا رہی تھیں۔ تب ملایم سنگھ یادو نے مذاقاً کہا: “میڈم دیکھ کے، ہلسا ہے۔ کانٹا چبھ جائے گا۔” سونیا نے فی الفور جواب دیا “میں کانٹوں سے جوجھنا جانتی ہوں۔”
2004 میں ڈی ایم کے کے ساتھ اشتراک ماہرانہ سیاست کی ایک اور اصلی تصویر تھی۔ کچھ سابقہ کانگریسیوں والی پارٹی ڈی ایم کے کی بابت 1997 میں کہا گیا کہ اس کی ہمدردی ایل ٹی ٹی ای یعنی لٹے کے ساتھ ہے۔ سری لنکا کی دہشت گرد تنظیم لٹے ہی نے راجیو گاندھی کا قتل کرایا تھا۔ اس کے باوجود سونیا نے 2004 سے 2014 کے بیچ اتحادی پارٹیوں سے تال میل بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ انا پرستانہ رویہ رکھنے والے این سی پی کے لیڈران بھی قریب آ گئے۔ یہی نہیں سونیا نے سماجوادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی سے بھی رشتے خوشگوار رکھے، جبکہ یوپی میں یہی پارٹیاں ان کے بالمقابل تھیں۔
سنہ 2007 میں نیدرلینڈس کے ٹِلبرگ میں واقع نیکسس انسٹی ٹیوٹ میں “لیونگ پولیٹکس: وہاٹ انڈیا ہیز ٹاٹ می” کے موضوع پر بولتے ہوئے سونیا نے کہا، “ہندوستان کی عوامی زندگی شدید مباحث اور مضبوط دلائل سے عبارت ہے۔ سیاست کی بے سری آوازیں ہماری جمہوریت کی خوبصورت موسیقی ہے۔”
کیا 23 مئی کو ووٹرس پھر فیصلہ سنانے جا رہے ہیں کہ :سونیا گاندھی دوبارہ؟
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )
Categories: فکر و نظر