کانگریس صدر کو اب پرینکا گاندھی کا کام کاج و پارٹی میں ان کی حیثیت بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ سونیا گاندھی اور ان کے دو بچوں کے بیچ کا کوئی خاندانی کام کاج جیسا معاملہ نہیں ہے۔
اب یہ پوری طرح واضح ہو چکا ہے کہ اگلے پانچ سال تک کے لیے راہل گاندھی کی کانگریس کو لوک سبھا میں حزب اختلاف کا کردار نبھانا ہے۔ یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ بھانت بھانت کے کانگریسی راہل کو ہی اپنا ناخدا بنانا چاہتے ہیں۔راہل کو اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ صرف صدر رہ کر ہی کانگریس کی خدمت کر سکتے ہیں یا بڑا بدلاؤلاکر۔آج کے نا گفتہ بہ حالات میں راہل گاندھی کے سامنے ایک مشکل کام اپنا اوراپنے کارکنان کا حوصلہ بنائے رکھنا ہے۔ انہیں اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور خاص کر ملک کی عوام کو یہ یقین بھی دلانا ہے کہ نریندر مودی اور بی جےپی کا معقول متبادل پیش کرنے کے لیے وہ پوری سنجیدگی سے محنت کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ملی شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد انہیں اندرونی طور پر پارٹی میں بھی ہر سطح پر اس کی ذمہ داری طے کرنا ہوگی۔
پارٹی کے کمیونی کیشن ونگ کی ذمہ داری طے کرنے پر انہیں دھیان دینا ہوگا، جس کا کام کاج اس پورے انتخاب کے دوران ہر سطح پر قابل رحم تھا۔ پھر چاہے وہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہو، نیوز چینلس، قومی یا علاقائی سطح کا پرنٹ میڈیا ہو۔ خود راہل کو اسے لے کر نشانہ بنایا جاتا رہا کہ ان کے پاس ہر وقت موجود رہنے والا میڈیا صلاح کار نہیں ہے، نیز انتخاب کے دوران فوری ردعمل ظاہر کرنے یا تبصرہ کرنے کا کوئی سلیقے کا نظم بھی نہیں تھا۔
کانگریس صدر کو اب پرینکا گاندھی کا کام کاج و پارٹی میں ان کی حیثیت بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ سونیا گاندھی اور ان کے دو بچوں کے بیچ کا کوئی خاندانی کام کاج جیسا معاملہ نہیں ہے۔ پارٹی کارکنان کو صاف طور پر اس کا علم ہونا چاہیے کہ پرینکا کس حیثیت سے پارٹی میں کام کر رہی ہیں۔ راہل کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ پارٹی کی تشکیل نو میں ان کی مدد لیں، جبکہ وہ خود پارلیامنٹ پر توجہ دیں۔ 2022 میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخاب دیکھتے ہوئے پرینکا کو ان کی آزادانہ ذمہ داری بھی دی جا سکتی ہے یا مہاراشٹر، ہریانہ اسمبلی کے آنے والے انتخاب میں بھی ان کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے تاکہ پارٹی کارکنان کے ذہن میں الجھاؤ نہ ہو اور پرینکا کے سامنے بھی ایک واضح ہدف ہو۔اس بیچ پارٹی کے اعلیٰ عہدےداران کی سنجیدگی کا ٹیسٹ بھی لے لیا جانا چاہیے کہ وہ کس حد تک قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اس سے مفت میں ملائی مارنے والے بھلے دور ہو جائیں، لیکن پارٹی کارکنان کے بیچ یہ پیغام جائےگا کہ راہل اپنے ہدف کو لے کر پوری طرح سنجیدہ ہیں اور اس کے لیے قیمت چکانے کو بھی تیار ہیں۔
کانگریس کے ذریعے پہلی دفعہ پیش کی گئی نیائے یوجنا، پہلی بار ووٹ دینے والے نوجوان طبقے سے رابطہ، کسانوں کے مسائل، بےروزگار نوجوانوں کی پریشانیاں اور خاتون ووٹرس کے لیے پیش کیے گئے منصوبوں کے فوائد عوام کے سامنے صحیح ڈھنگ سے رکھ پانے میں ناکامی کے بعد بھی ان میں ابھی کافی امکانات ہیں۔ “کھو دیے مواقع”کے نام سے انہیں دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ ابھی کچھ خاص دیر نہیں ہوئی ہے اور ان معاملوں میں کافی عوام الناس کی دلچسپی ہو سکتی ہے۔ کانگریس صدر ان پر فوری توجہ دے کر مہاراشٹر و ہریانہ کے اسمبلی میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
راہل کو اپنے صلاح کاروں کی پوری ٹیم میں بھی بڑی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ ان کے مشیروں کی ٹیم میں تنوع ہونا چاہیے جس میں سینئر، تجربہ کار و جواں سال دانشور شامل ہوں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے راجیو گاندھی کی عوامی زندگی کے آغاز میں پی وی نرسمہاراؤ، این ڈی تیواری نیز اما شنکر دکشت جیسے سینئر اور تجربہ کار لوگ انہیں سنجیدہ اور قابل اعتماد رائے دیتے تھے۔ ان کے ساتھ ہی راجیو کے پاس کمل ناتھ، پی چدمبرم، اشوک گہلوت، غلام نبی آزاد، راجیش پائلٹ جیسے نوآمدہ اور نوجوان ساتھیوں کی ٹیم بھی تھی، جسے زمینی حقائق کی خبر تھی۔ خوش قسمتی سے راہل کے پاس بھی فی الحال کمل ناتھ، پی چدمبرم، غلام نبی آزاد اور اشوک گہلوت جیسے سینئر و تجربہ کار مشیروں کے ساتھ کیپٹین امرندر سنگھ و احمد پٹیل وغیرہ موجود ہیں۔ راجیو گاندھی کے پاس تکنیکی ماہرین جیسے سیم پترودا، ارون نہرو و ارون سنگھ جیسے لوگوں کی ٹیم بھی تھی، جن سے تازہ ترین معلومات حاصل ہوتی رہتی تھیں۔
حالانکہ راجیو نے جب محسوس کیا کہ سیاست میں دونوں ارون کا دخل حد سے زیادہ بڑھنے لگا ہے، تو انہیں باہر کا دروازہ دکھا دیا گیا۔ البتہ راہل و سونیا کانگریس میں ابھی تک کسی کے خلاف بھی سخت کارروائی نہیں کی گئی، نہ ہی کسی کو پارٹی سے باہر کیا گیا ہے۔پارٹی کی لیگل ٹیم نے ایک بڑی بھاری غلطی کر کے راہل کی کرکری کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ‘چوکیدار چور ہے’ معاملے کی پہلی شنوائی میں ہی سپریم کورٹ میں معافی نامہ داخل کر کے اس سے پنڈ چھڑایا جا سکتا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ادھ کچڑے قانونی معاون اسے ووٹنگ کے پانچویں مرحلے تک لے گئے۔ تب تک ملک بھر میں راہل کا مذاق بنایا جاتا رہا۔
پارٹی میں قابلیت اور تجربے کا خزانہ ہونے کے باوجود راہل کو تنظیمی سطح پر ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ پارٹی کا پارلیامنٹری بورڈ جو ہر پل آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے آئین کی رٹ لگاتا نہیں تھکتا، اس کی تشکیل سنہ 1991 سے نہیں ہوئی ہے! اسی طرح کانگریس کی مجلس عاملہ کے برے حال ہیں۔ جنوری سے مئی 2019 کے درمیان مجلس عاملہ سست پڑی رہی، جبکہ اسے سینٹرل الیکشن کمیٹی کے طور پر کام کرنا تھا۔ ایسے میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے راہل نے بھی امیدواروں کے سلیکشن کی ذمہ داری کے سی وینو گوپال پر چھوڑ دی، جو صوبے میں کانگریس کے وزرائے اعلیٰ یا صوبائی صدور سے صلاح و مشورہ کر کے امیدوار طے کر رہے تھے۔ اس کا منفی اثر پڑا اور نتیجے اچھے نہیں آنا تھے، یہی ہوا بھی۔ اسی طرح ماقبل و مابعد انتخاب معاون پارٹیوں سے گٹھ بندھن معاملے میں بھی کچھ تجربہ کار پارٹی رہنماؤں کی مدد لی جاتی تو نتیجے کچھ بہتر ہو سکتے تھے۔
اب مختلف پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں بھی قدیمی عظیم پارٹی کو شفافیت اختیار کرنا پڑے گی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ سیٹوں کا بٹوارہ کرنا پارٹی قیادت کے لیے مشکل ہوتا ہے، کیونکہ انہیں اپنے پارٹی کے مفادات بھی دیکھنے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آزاد، گہلوت، ناتھ، احمد، چدمبرم جیسے تجربےکار لوگوں کی ٹیم ہو تو اس بٹوارے میں آسانی ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ پارٹی سے الگ ہوئے دھڑوں جیسے نیشنل کانگریس پارٹی، وائی ایس آر کانگریس، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی یہاں تک کہ ترنمول کانگریس کو بھی گھر واپسی کی دعوت دی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہیں زمینی سطح پر بھی اور محنت کرنی ہوگی۔ انہیں پارٹی کا اجلاس بھی ہر دو سال میں بلانا ہوگا۔ پرینکا کے ساتھ مل کر ویک اینڈ وہ کسی صوبے میں بھی بتا سکتے ہیں، جہاں پارٹی کارکنان سے ان کا رابطہ ہوتا رہے گا۔
2006 میں حیدرآباد کے کانگریس اجلاس میں یہ بات اٹھی تھی،
ہر سیاسی دور کو ایک لیڈر اور ایک دور اندیش مفکر کی ضرورت ہوتی ہے، جو موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے معاشرے کے روایتی نقطہ نظر کو بدل ڈالے۔
کیا راہل گاندھی خود کو اس طرح کی خوبیوں کا مالک پاتے ہیں؟
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )
Categories: فکر و نظر