ابن خلدون کے یہ خیالات کانگریس پارٹی سے وابستہ ہر فرد کو پڑھنے (اور انہیں ہضم کرنے) کی ضرورت ہے۔ ان میں شاید سونیا گاندھی کو یہ پڑھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
جنوری 2013 میں کانگریس بر سر اقتدار تھی اور لوک سبھا انتخاب ایک سال سے کچھ زیادہ دور تھے، راقم السطور نے مؤقر انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف میں راہل گاندھی پر ایک مضمون لکھا تھا۔ تب میدان سیاست میں انہیں دس سال ہو چلے تھے۔ راقم نے ان کے بارے میں لکھا تھا؛
راہل گاندھی کے بارے میں کوئی بہت اچھی بات کہہ سکتا ہے تو وہ یہ کہ راہل خود ارادی طور پر نا پختہ کار ہیں۔ انہوں نے ابھی تک انتظامی امور میں کوئی پختہ کاری نہ دکھائی، نہ کوئی بڑی اور اہم ذمہ داری لینے میں یا کیے گئے عہد پورا کرنے میں جوش و ولولہ یا دلچسپی دکھائی، اسی طرح وہ سنگین معاشرتی مسائل سے بھی دوری بنا کر رکھتے ہیں۔
ناچیز نے یہ بھی لکھا تھا کہ ؛
راہل گاندھی کی یہ ناپختہ کاری کوئی معنی نہیں رکھتی اگر وہ کالج کے طالبعلم ہوتے یا کسی پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کر رہے ہوتے یا اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام دھندہ کر رہے ہوتے۔ لیکن وہ ہندوستان کی بھاری بھرکم، تاریخی حیثیت کی حامل اور آج بھی مؤثر سیاسی پارٹی کے نہ صرف نائب صدر ہیں بلکہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی ہیں، اس لیے اس بات کے گہرے معنی ہیں۔
کانگریس سے قربت رکھنے والے ایک سوشل ورکر نے یہ مضمون پڑھ کر مجھے ایک دلچسپ بات بتائی۔ راہل گاندھی کسانوں کے مسائل کی بہت باتیں کر تے تھے۔ یو پی اے نے 2009 کے انتخابات میں جیت درج کرائی تو سول سوسائٹی کارکنان نے ان سے اصرار کیا کہ وہ دیہی ترقیات کی وزارت سنبھال لیں تاکہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکیں، ساتھ ہی انہیں انتظامی امور کا تجربہ بھی ہو جائےگا، لیکن راہل گاندھی نے اسے مسترد کر دیا۔ اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ البتہ ایسا محسوس کرایا گیا کہ کانگریس کی صدر، ان کی والدہ محترمہ کا خیال تھا کہ ان کے فرزند ارجمند صرف وزارت عظمیٰ کے قابل ہیں اور وہ کانگریس کی سرکار میں وزیر اعظم ہی بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس بات کو مزید تقویت تب ملی جب ستمبر 2013 میں اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ‘2014 میں ہونے والے انتخاب کے بعد راہل گاندھی وزارت عظمیٰ کے لیے ایک مثالی انتخاب ہو سکتے ہیں۔’ انہوں نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ ‘راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی خدمت کر کے انہیں بہت خوشی ہوگی۔’
لیکن وہ وقت آ نہ سکا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور راہل گاندھی کی پارٹی کو لوگوں نے اکھاڑ پھینکا۔ کوئی 160 سیٹوں پر کانگریس کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی مہینے میں یونائیٹیڈ کنگڈم کے انتخاب بھی ہوئے تھے، جس میں لیبر پارٹی کو 20 سیٹوں پر ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس پر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈ نے فوراً استعفیٰ دے دیا۔ لیکن ویسٹ منسٹر طرز کی جمہوریت پر عمل پیرا ہونے کا دم بھرنے والی ہندوستانی جمہوریت کا انداز نرالا ہے۔ یہاں انتخابی تشہیری مہم کا مرکزی کردار، پارٹی کے نائب صدر پر اس ہار کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کے لیے تو ہار کے انعام بطور، پارٹی صدر بنائے جانے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
اور اب مسلسل دوسرے عام انتخاب میں شکست سے دو چار ہونے کے باوجود راہل گاندھی پارٹی کے صدر بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت کانگریس کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ ایک نئے صدر کی تلاش کرے گی؟ کیا وہ اولین درجہ حاصل خاندان سے آگے سوچ سکتی ہے؟ میں ان سوالوں پر بات کروں گا، لیکن پہلے2014 اور 2019 دونوں میں انتخابی تشہیری مہم کی کمان سنبھالنے والے فاتح دھڑے کے لیڈران کی کچھ بات کرلیتا ہوں۔ کئی مبصرین نے اس کی نشاندہی کی ہے کہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے فرقہ پرستانہ افتخار کو درکنار کر وکاس کے نام پر کھیل کھیلا، انہوں نے قومی سلامتی کی بات کرنے کے ساتھ ہندو اکثریت پسندی کی بات اٹھائی۔ اس کے علاوہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی دونوں بار کی انتخابی مہم میں ایک مماثلت تھی۔
سنہ 2014 میں مودی نے راہل کو نامدار کا نام دیا۔ ایک ایسا شخص جس کی شناخت اپنے خاندان کی وجہ سے ہے، جبکہ انہوں نے خود کو کامدار بتایا۔ ایسا شخص جس نے اپنے صوبے و اس کی عوام کے لیے کام کیا ہے۔ مودی نے خود کو غریب طبقے کا بتاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ برے دنوں میں انہوں نے چائے تک بیچی ہے۔ جبکہ ان کا مخالف خاص شاہی گھرانے کی چوتھی (یا شاید پانچویں) نسل ہے۔ وہ منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہے۔ 2019 کی تشہیری مہم میں شاطر مودی نے ہمیشہ کی طرح اسے ایک بار پھر اہم موضوع بنا ڈالا۔ وہ ووٹرس سے پوچھتے تھے، آپ کو ایک محنتی کامدار چاہیے یا خطاب یافتہ ‘نامدار’؟
مشہور ویب سائٹ Scroll.in پر 21 مئی 2019 کو سپریا شرما کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے چار بڑی ریاستوں (بہار، راجستھان، اتر پردیش اور مہاراشٹر) کے دورے سے اخذ شدہ نتائج کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان صوبوں میں وزیر اعظم کی شہرت عروج پر تھی اور ووٹرس یہ مان رہے تھے کہ مودی کی وجہ سے انہیں بی جےپی کو ووٹ دینا ہے۔ شرما نے آگے لکھا، دوسری طرف ‘ان چاروں صوبوں میں کوئی ایک ووٹر بھی ایسا نہ ملا، جو راہل اور ان کے کاموں کو ٹھیک سے جانتا ہو، جس کے لیے اسے ووٹ دینا ہے۔’ دو دن بعد آنے والے نتائج نے ان باتوں کی توثیق کر دی۔ اعدادوشمار کے مطابق 188 سیٹوں پر بی جے پی ا ور کانگریس یا یوں کہیں کہ مودی اور راہل کا سیدھا مقابلہ تھا، ان میں سے بی جے پی یا مودی نے 174 پر جیت درج کی۔
لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کی مسلسل دوسری شکست، پہلی سے زیادہ شرمناک تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے باوجود کانگریس کے طریقہ کار میں صرف راہل گاندھی وہ شخص ہو سکتے ہیں، جو سوچ رہے ہیں کہ کچھ جوابدہی طے ہونا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے استعفیٰ دینے کا آفر کر دیا، جو محض آفر ہی رہا، کیونکہ کانگریس کی مجلس عاملہ نے اسے اتفاق رائے سے ٹھکرا دیا ہے۔ اس بیچ کانگریس نواز دانشوران راہل کو نہرو کے سیکولرزم کا واحد علمبردار بتاتے ہوئے دہلی میں کانگریس کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں۔ جگن ریڈی اور نوین پٹنایک کی جیت کا حوالہ دیتے ہوئے انگریزی زبان کے صحافی کہہ رہے ہیں کہ یہ خاندانی وراثت نہیں ہے۔ اصل میں تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ویسے راہل کے کانگریس کی صدارت سے ہٹنے کی سب سے زیادہ مخالفت ان کی والدہ سونیا گاندھی کی جانب سےہو گی۔ لگتا ہے کہ خاندان سے باہر کے کسی شخص کو پارٹی کی قیادت سونپنے میں انہیں خاصی جھجک ہے۔
راقم کے اس ٹوئٹ ‘کانگریس کو خاندانی وراثت دفن کر دینا چاہیے’، کے رد عمل میں اتر پردیش کے میرے دوست و ادیب انیل مہیشوری نے عرب کے عظیم دانشور ابن خلدون کی نگارشات کا طویل خلاصہ مجھے بھیج دیا۔ 14ویں صدی میں ابن خلدون نے لکھا کہ سیاسی وراثتیں عموماً تیسری نسل کے بعد کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ خلدون لکھتا ہے؛
کسی (خاندان کی) سربراہی قائم کرنے والا جانتا ہے کہ اس نے کس قیمت پر یہ عظیم کام سر انجام دینے میں کامیابی حاصل کی ہے، اور وہ ان اعمال کو برقرار رکھتا ہے، جس سے اس کا کام و نام باقی رہے۔ اس کا جانشین بیٹا اپنے والد کے کام کاج کو سامنے دیکھتا اور اس سے سیکھتا ہے۔ لیکن وہ اپنے والد کے سامنے احساس کمتری کا شکار رہتا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے مطالعے کی بدولت کچھ سیکھنے والا انسان اس شخص کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا رہتا ہے، جس نے وہ مہارتیں عملی طور پر حاصل کی ہوں۔
اس کی اگلی نسل لوگوں کو جمع تو کر سکتی ہے، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ابن خلدون آگے کہتا ہے؛
تیسری نسل تقلید کرتی اور علی الخصوص روایت پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ تیسری نسل اپنے پہلے والی نسل سے کمتر ہوتی ہے، جیسے قدامت پسندی پر (آنکھ بند کرکے) بھروسہ کرنے والا کوئی شخص آزادانہ فیصلے لینے والے سے کمتر ہوتا ہے۔’ چوتھی نسل تو ‘ہر معاملے میں اپنے سے پہلی والی نسل سے کمتر ہوتی ہے۔ یہ ہر اس خوبی سے عاری ہوتی ہے، جن سے ان کی عظمت قائم ہوئی تھی۔’ یہ نسل تصور کرتی ہے کہ ان کے اب و جد کی عظمت جہد و عمل کے ذریعے قائم نہیں ہوئی تھی۔ ان کی سوچ ہوتی ہے کہ مقدر سے ان کی پیش رو نسل کو یہ سب مل گیا۔ ان کی اجتماعی (کواشش) اور (انفرادی) خوبیوں کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔
سیاسی وارثان کی تیسری یا چوتھی نسل کا مسئلہ یہ ہوجاتا ہے کہ، ابن خلدون کے مطابق ‘عوام میں اسے بہت وقار حاصل ہوتا ہے، لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ وقار کیسے حاصل کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ یہ اس کے اب و جد کے ذریعے کی گئی عظیم خدمات کی وجہ سے ہے–اسے یقین ہوتا ہے کہ (وہ اس کا حکم مانیں گے کیونکہ) اسے ان سے اعزاز پانے کا حق حاصل ہے–’
ابن خلدون کے مطابق جب بھی کوئی سیاسی وراثت چوتھی یا پانچویں نسل کو منتقل ہوتی ہے تو اس کے زوال کے اسباب خود اسی میں سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوسرے یا تیسرے ہاتھوں میں وراثت آتے آتے ان کا وقار کم ہونے لگتا ہے اور وہ نامدار کہے جانے لگتے ہیں۔ سو ‘اس کا اطمینان کرنے کے بعد کہ (نئی قیادت کی) اہلیت ان کے لیے اطمینان بخش ہے’ تب ‘وہ (سیاسی) قیادت خود سے اور اپنے اہل خاندان سے منتقل کر دیتے ہیں۔’
ابن خلدون کے خیالات ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتے ہیں کہ جگن اور نوین کیوں کامیاب اور راہل کیوں ناکامیاب ہیں۔ وہ دونوں دوسری نسل کے وارث ہیں، انہوں نے اپنے والد کو دیکھا ہے کہ وہ کیسے کام کرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح اندرا گاندھی اپنے والد جواہر لعل نہرو اور جنگ آزادی کے نامور سپاہیوں کو کام کرتے دیکھ بڑی ہوئیں۔ اسی لیے وہ اپنے بیٹے اور پوتے سے زیادہ معتبر و مؤثر سیاستداں تھیں، جیسا ہونے کی وہ تمنا کر سکتے ہیں۔
ابن خلدون کے یہ خیالات کانگریس پارٹی سے وابستہ ہر فرد کو پڑھنے (اور انہیں ہضم کرنے) کی ضرورت ہے۔ ان میں شاید سونیا گاندھی کو یہ پڑھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ایک والدہ کی حیثیت سے وہ راقم السطور کی اس بات سے بھلے اتفاق نہ کریں کہ راہل ‘خود ارادی طور پر نا پختہ کار’ ہیں۔ اس کے باوجود راہل واقعی بہت ذہین و سمجھدار، بہت متحرک اور سیاسی طور پر پختہ کار ہوں اور میرا یقین ہے کہ وہ ہیں، تب بھی حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اور سماجی محرکات ان کے خلاف جائیں گے۔ ایسے میں جب عہد وسطیٰ کا قدامت پسند عرب معاشرہ حکمرانوں کی چوتھی اور پانچویں نسل کو بمشکل قبول کرتا ہے، تب ماڈرن اور جمہوری ہندوستان ان سے الگ کیوں ہوگا؟
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
Categories: فکر و نظر