کانگریس کی قیادت کا مسئلہ اس وقت بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون والے محاورے کے مصداق ہو گیا ہے۔ چونکہ راہل گاندھی کسی مکھوٹے نما صدر کو نامزد کرنے پر راضی نہیں ہیں، اس لیے کانگریس کی مجلس عاملہ کو بھی وفاداری نے عبوری صدر کے لیے کوئی نام پیش کرنے سے روک رکھا ہے۔
23 مئی کو ملی کراری شکست کے بعد کانگریس کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اب اس کی پوزیشن مزید خراب نہیں ہو سکتی۔راہل گاندھی پارٹی کی صدارت چھوڑنے پر اڑے ہوئے ہیں، لیکن پارٹی کا فرمانبردار طبقہ چاہتا ہے کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیں۔ سونیا اور پرینکا گاندھی انہیں 2019 میں ملی اس شکست کی ذمہ داری لینے سے باز رکھ سکتی ہیں، لیکن لگتا ہے کہ فی الحال وہ گاندھی خاندان کے تئیں کانگریسیوں کی گہری وفاداری کے مظاہرے سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے وہ فعال کھلاڑی کے بجائے متجسس تماشائی کے کردار میں ہیں۔ یہ ایک کھلا بھید ہے کہ قدیمی عظیم پارٹی میں شاہی وراثت کا کلچر بہت مضبوط ہے؛ جس میں خوشامد پرستی، خادمانہ انداز اور اپنے آپ کو ہر طرح سے پیش کر دینا بہتر مقام حاصل کرنے کی ضمانت ہو۔
کانگریس کی قیادت کا مسئلہ اس وقت بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون والے محاورے کے مصداق ہو گیا ہے۔ چونکہ راہل گاندھی کسی مکھوٹے نما صدر کو نامزد کرنے پر راضی نہیں ہیں، اس لیے کانگریس کی مجلس عاملہ کو بھی وفاداری نے عبوری صدر کے لیے کوئی نام پیش کرنے سے روک رکھا ہے۔ ایسے میں منیش تواری، راجیو گوڑا، سلمان خورشید، ملند دیوڑا، ششی تھرور اور انہیں کی طرح ‘غوروفکر کرنے والی قسم’ کے لوگوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ راہل کی خواہش کا خیال رکھتے ہوئے کانگریس کو جمہوری جامہ پہنانے کے اس عمل میں ان کا ساتھ دیں۔
ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں ہونے والے ودھان سبھا چناؤ سر پر آ چکے ہیں۔ پارلیامنٹ کا بےحد اہم بجٹ اجلاس جاری ہے، جہاں بجٹ پیش کیے جانے کے علاوہ اہم معاملات طے کیے جانے والے ہیں۔ عقل و فہم کا تقاضہ ہے کانگریس کو کئی مسائل جیسے تین طلاق سے متعلق اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنا چاہیے، لیکن مؤثر قیادت کے فقدان میں پارٹی عوام الناس کی منشا نہیں سمجھ پا رہی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ بنیادی معاشی، سماجی و ثقافتی معاملات پر بھی پارٹی کوئی موقف طے نہیں کر پا رہی ہے۔
ملک کے دونوں ایوانوں میں اظہار تشکر کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پر سخت حملے کیے۔اس قدیمی عظیم پارٹی پر انہوں نے پی وی نرسمہا راؤ، پرنب مکرجی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسے سینئر رہنماوں کی ناقدری کرنے و ان کے ساتھ نازیبا سلوک کرنے کا الزام لگایا۔ ایسے الزامات کا کرارا جواب دیے جانے کی کافی گنجائش تھی، لیکن کانگریس کی جانب سے مودی کو خاموشی ملی۔ بابری مسجد مسمار کیے جانے کا راؤکو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پینگوین کے ذریعے شائع اپنی کتاب ‘ایودھیا، دسمبر6، 1992’ میں انہوں نے اس کے لیے پوری طرح بی جے پی ا ور سنگھ پریوار کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ راؤ کی طرح ہی مکرجی اور منموہن بھی اپنے پورے سیاسی کیریئر میں کانگریس کے وفادار رہے۔ مکرجی تو کانگریس کے مفکر، ادیب و قلمکار تھے۔ انہوں نے پارٹی کے لیے کئی چیزیں لکھیں۔ انہوں نے ہی باقاعدہ اپنی تحریروں میں بی جےپی کو ‘ایک نمبر کی دشمن پارٹی’ اور اس کی فکر کو ‘زہریلی’ قرار دیا۔
ایسے حالات میں میڈیا کے بائیکاٹ کا احمقانہ فیصلہ کر لیا گیا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی سوشل میڈیا ہیڈ دویا اسپندن عرف رامیا نے اس سے کنارہ کر لیا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی بند کر لیا ہے۔ نتیجتاً میڈیا سے کانگریس کا رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس سے بھی بری بات یہ ہو رہی ہے کہ سستی شہرت پانے کے خواہاں افراد نے خود کو کانگریس کا ہمدرد ظاہر کر کے ٹی وی مباحث میں گھس پیٹھ کر لی اور پارٹی کے لیے مختص وقت پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ نا اہل لوگ ہیں، نہ ان میں صلاحیت ہے نہ قابلیت کے یہ کسی مسئلے پر مناسب بات کر سکیں یا اعتراضات کا جواب دے سکیں۔ اس طرح بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا پر عمل پیرا یہ لوگ کانگریس کو اور نقصان پہنچا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے اعصاب پر سوار کانگریس کا بھوت اس بات کا اشارہ ہے کہ حزب اختلاف کی کلیدی پارٹی نے ابھی سب کچھ نہیں کھویا ہے۔ کیا مودی کی قیادت والی بی جےپی اسے لے کر متفکر ہے کہ کانگریس بکھر کیوں نہیں رہی ہے؟ 1967 کے چناؤ میں شکست کے بعد 1969 میں کانگریس نے بڑی تقسیم دیکھی۔ 1977 میں پارٹی پھر دو حصوں میں بٹ گئی۔ 1987 میں جب راجیو گاندھی کا زوال شروع ہوا، تب پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر وی پی سنگھ کی قیادت میں چلا گیا۔ نرسمہا راؤ کے دور میں ارجن سنگھ، این ڈی تیواری، ایس بنگارپا، مادھو راو سندھیا نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔ البتہ 2014 کے بعد پارٹی سے جانے والوں کی تعداد کم رہی ہے۔
سیاسی گلیاروں میں افواہ ہے کہ کانگریس کے ایک درجن سے زیادہ نیتا امت شاہ کا در کھٹکھٹا رہے ہیں، لیکن انہیں کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے، کیونکہ جو بی جے پی میں جانا چاہتے ہیں ان کے پاس کچھ خاص ہے نہیں، اور جو خاص ہیں وہ جانا نہیں چاہتے۔
اس بابت بھی کانگریس میں قیادت کے مسئلے کی اہمیت آشکار ہو رہی ہے۔ ان حالات میں سونیا گاندھی کی خاموشی سمجھی جا سکتی ہے۔ غالباً انہیں اس کا اندازہ ہے کہ کانگریس کی صدارت کے لیے کسی بھی طرح کا متبادل پارٹی میں بغاوت کا طوفان لا سکتا ہے۔ لیکن ہوشمندی بھری اس خاموشی کی بھی ایک حد ہے۔ اس میں راہل کے اعتبار کو نقصان پہنچانے کے خدشات موجود ہیں۔
حالانکہ یہ کانگریس کے حق میں ہے کہ سونیا اور راہل رکن پارلیامان اور پرینکا پارٹی کی جنرل سکریٹری ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پارٹی میں تجربہ کار و ماہر سیاستدانوں کی کمی نہیں ہے۔ کمل ناتھ، کیپٹن امریندر سنگھ، اشوک گہلوت، بھوپیش بگھیل اور وی نارائن سوامی کی شکل میں پارٹی کے پاس پانچ قابل وزرائے اعلیٰ ہیں۔ ان کے ساتھ غلام نبی آزاد، آنند شرما، پی چدمبرم، احمد پٹیل، مکل واسنک، پرتھوی راج چوہان، جیوترادتیہ سندھیا، کپل سبل، دگوجئے سنگھ، ملند دیوڑا، جتن پرساد، ششی تھرور، منیش تیواری، شیو کمار، اجے ماکن کے ساتھ اور بھی کئی قابل ذکر لیڈران کانگریس کے معروف سپہ سالار ہیں۔ بھلے ان میں سے کچھ حالیہ لوک سبھا چناؤمیں ہار گئے، لیکن انہیں عوامی زندگی کا خاصہ تجربہ ہے۔ ان کے ساتھ پارٹی کے سینئر لیڈران میں ڈاکٹر منموہن سنگھ، اے کے انٹونی، ویرپا موئلی، ملیکاارجن کھرگے، سشیل کمار شندے، میرا کمار، امبیکا سونی، محسنہ قدوائی، شیلا دکشت و دیگر اپنے دہائیوں پرانے تجربات کی روشنی میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان سب کے بیچ کانگریس پارلیامنٹری بورڈ تشکیل دے دیا جانا چاہیے، جس کی تشکیل 1991 سے نہیں ہوئی ہے۔
2017-18 کے دوران اشوک گہلوت اے آئی سی سی جنرل سکریٹری و پارٹی معاملات کے انچارج تھے، تب گجرات اسمبلی الیکشن میں پارٹی کی کارکردگی اچھی رہی تھی۔ اسی دوران مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو جیت حاصل ہوئی۔ گہلوت کا تعلق پچھڑے طبقے سے ہے اور راجستھان کے باہر بھی کانگریس لیڈران کے بیچ وہ مقبول ہیں۔ آج کے حالات میں انہیں عارضی طور پر صدر بنایا جا سکتا ہے، لیکن پارٹی کے لوگ دلت ہونے کا حوالہ دے کر مکل واسنک یا صاف ستھری شبیہ کی بات کہہ کر اے کے انٹونی کا نام آگے کر رہے ہیں۔ کانگریس کو اب یہ قبول کر لینا چاہیے کہ واسنک یا میرا کمار جیسے رہنماؤں کو دلت ہونے کی بنیاد پر آگے بڑھانے جیسے علامتی اقدامات کے دن لد گئے۔ اسی طرح انٹونی بھی سیاسی طور پر اب پرانے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں انہیں پارٹی صدر بنایا جانا مشکلات میں اضافہ ہی کرے گا۔
کانگریس کو چاہیے کہ تھوڑا پیچھے جاتے ہوئے بنیادی کام کرے اور خود کو ایک ماڈرن سیاسی پارٹی کی شکل میں ڈھالنے کا کام شروع کر دے۔ نہرو گاندھی خاندان پر بے سود انحصار سے باہر نکلنا پارٹی کے سامنے پہلا چیلنج ہے، جس کا سامنا کرنے سے پارٹی کترا رہی ہے۔ پارٹی لیڈرس اس بنیادی حقیقت کو سمجھنا نہیں چاہتے کہ گاندھی خاندان ان سے دوری نہیں بنا رہا، نہ ہی وہ سیاست کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ لگتا ہے اب وہ اٹل بہاری واجپائی کی طرح کام کرنا چاہ رہے ہیں، جنہوں نے دہایئوں تک پارٹی میں کوئی پوسٹ نہ لی، اس کے باوجود ایک بلند قامت لیڈر اور بی جےپی کے اسٹار پرچارک رہے۔
23 مئی 2019 میں انتخابی نتائج آنے کے بعد کوئی کارگر قدم اٹھانے کے بجائے کانگریس نے شترمرغ کی سی کیفیت اختیار کر رکھی ہے۔ کانگریس کی مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ کے علاوہ پارٹی کے بڑے لیڈران نے کچھ نہیں کیا ہے۔ نہ انہوں نے پارٹی کا، نہ کارکنان کا اجلاس بلایا۔ جن کے سہارے وہ عوام الناس کے خیالات جان سکتے تھے۔ ظاہر ہے وقت تو تیزی سے گزر رہا ہے۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )
Categories: فکر و نظر