خبریں

کیا ہے آرٹیکل 370 اور 35 اے، جو جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیتا تھا

سوموار کو راجیہ سبھا میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے کو ہٹانے کی تجویز پیش کی۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعے پیش کی گئی تجویز میں لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کرنے کا اہتمام رکھا گیا ہے۔ جموں و کشمیر اور لداخ یونین ٹریٹری  ہوں‌گے۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی ہوگی، جبکہ لداخ بنا اسمبلی کے یونین ٹریٹری  ہوگا۔آرٹیکل 370 کو 17 اکتوبر 1949 کو ہندوستان کے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے تحت جموں و کشمیر کو اپنا ایک الگ آئین بنانے اور ہندوستانی آئین (آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 کو چھوڑ‌کر) کو نافذ نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کے بارے میں پارلیامنٹ کے قانونی اختیارات   کو پابند کرتا ہے۔ ‘ انسٹرومنٹ آف ایکسیشن ‘ میں شامل کئے گئے موضوعات سے متعلق کسی مرکزی قانون کو جموں و کشمیر میں نافذ کرنے کے لئے ریاستی حکومت کا مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے بٹوارے کے بعد انسٹرومنٹ آف ایکسیشن لایا گیا تھا۔ اس کے ذریعے تقریباً 600 ریاستوں کو ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کی تجویز رکھی گئی۔ ہندوستان میں شامل ہونے کے لئے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کے ذریعے جموں و کشمیر سمیت دیگر ریاستوں نے اصول اور شرطیں رکھی تھیں۔

اصول کے مطابق، انسٹرومنٹ آف ایکسیشن میں لکھے سبھی وعدوں کا احترام کیا جانا چاہیے اور اگر ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو دونوں فریق اپنی ابتدائی حالت میں لوٹ سکتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے علاوہ دیگر ریاستوں کو بھی آرٹیکل 370 کے تحت (آرٹیکل 371اے سے لےکر آرٹیکل 371آئی تک) خصوصی درجہ دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 35اے آرٹیکل 370 سے ہی نکلا ہے۔ سال 1954 میں صدر جمہوریہ  کے ایک حکم کے ذریعے اس کو شامل کیا گیا تھا۔ آرٹیکل 35اے ریاست کے مستقل باشندوں کو متعارف کرنے اور ان کو خصوصی حق اور سہولت عطا کرنے کے لئے جموں و کشمیر مقننہ کو حق دیتا ہے۔آرٹیکل 35اے کے تحت ریاست میں زمین خریدنے سے متعلق کچھ خصوصی اختیارات وہاں کے شہریوں کو دئے گئے ہیں۔

انسٹرومنٹ آف ایکسیشن پر دستخط کرتے وقت جموں و کشمیر کے لئے کیا شرطیں رکھی گئیں

جموں و کشمیر کے لئے بنے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن میں لکھا گیا ہے کہ پارلیامنٹ کو جموں و کشمیر سے متعلق صرف دفاع، خارجہ اور کمیونیکیشن سے متعلق قانون بنانے کا حق ہے۔ جموں و کشمیر کے اس وقت کے راجا ہری سنگھ نے اس پر دستخط کیا تھا۔جموں و کشمیر کے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کے کلوز 5 میں راجا ہری سنگھ نے ذکر کیا ہے کہ اس انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کو کسی بھی ترمیم کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اس طرح کی ترمیم میرے ذریعے اس انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کی جگہ پر ایک دیگر انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کے ذریعے منظور نہ کی جائے۔

راجا ہری سنگھ نے شروع میں آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی بھی ملک میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ لیکن بعد میں جب قبائلی اور سادہ کپڑوں میں پاکستان کی فوج نے کشمیر پر حملہ کیا تو ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد مانگی۔تب ہندوستان نے کہا کہ اگر وہ جموں و کشمیر کے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن پر دستخط کرتے ہیں، تو ہندوستان مدد کر سکتا ہے۔

 اس کے بعد ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو انسٹرومنٹ آف ایکسیشن پر دستخط کیااور اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 27 اکتوبر 1947 کو اس کو منظور کیا۔ہندوستان کی اس وقت کی یہ پالیسی تھی کہ جہاں کہیں بھی ہندوستان میں شامل ہونے یا نہ ہونے کو لےکر تنازعہ ہے، وہاں پر عوام کے فیصلے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے‌گا نہ کہ کسی راجا کے ذریعے لیے گئے یکطرفہ فیصلے پر۔

اس وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا کہ حکومت کی یہ خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں لاء اینڈ آرڈر بحال ہو جاتا ہے اور وہاں سے حملہ آور باہر کر دئے جاتے ہیں، ویسے ہی ریاست کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ وہاں کے لوگوں کے ذریعے لیا جائے‌گا۔سال 1948 میں حکومت ہند کے ذریعے جموں و کشمیر پر پیش کئے گئے وہائٹ پیپرز میں لکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں کشمیر کا شامل ہونا پوری طرح سے عارضی اور لمحاتی ہے۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ شیخ عبداللہ کو 17 مئی 1949 کو ولبھ بھائی پٹیل اور این گوپالاسوامی اینگر کی رضامندی سے لکھے ایک خط میں سابق وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے بھی یہی بات دوہرائی تھی۔

کیا آرٹیکل 370 عارضی ہے؟

27 مئی 1949 کو آئین ساز اسمبلی کے ذریعے آرٹیکل 370 کو منظور کیا گیا تھا۔ اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے اینگر نے کہا تھا کہ ایکسیشن پورا ہو گیا ہے لیکن ہندوستان نے تجویز دی تھی کہ جب کشمیر میں حالاتنارمل ہوتے ہیں اس وقت وہاں پر عوام کی رائے لی جائے گی اور عوام ہندوستان میں شامل ہونے کی تجویز نہیں مانتی ہے تو کشمیر کے ذریعے خود کو ہندوستان سے الگ کرنے کو لےکر ہم بیچ میں نہیں آئیں‌گے۔

آرٹیکل 370 آئین کے حصہ 21 کا پہلا آرٹیکل ہے، جس میں میں ‘ عارضی، تغیرپذیر اور خصوصی اہتمام ‘ والی چیزیں شامل کی گئی ہیں۔ آرٹیکل 370 عارضی ہے یا نہیں، اس کو لےکر تنازعہ ہے۔ ایک طرح سے دیکھیں تو جموں و کشمیر دستور ساز اسمبلی کو اس میں تبدیلی / ہٹانے / قائم رکھنے کا حق تھا اور انہوں نے اس کو قائم رکھا۔

ایک دیگر پہلو یہ ہے کہ رائےعامہ جمع ہونے تک جموں و کشمیر کاہندوستان میں شامل ہونا عارضی تھا۔ گزشتہ سال مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے کماری وجیالکشمی (معاملے) میں عرضی خارج کر دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 370 عارضی ہے اور اس کو بنانا آئین کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہے۔

اپریل 2018 میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ‘ عارضی ‘ لفظ کا استعمال کرنے والے ہیڈ نوٹ کے باوجود، آرٹیکل 370 عارضی نہیں ہے۔ سمپت پرکاش (1969) معاملے میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کو عارضی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔آرٹیکل 370 میں آرٹیکل 1 کا ذکر ہے، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کو ہندوستان کی ریاستوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے کہ آرٹیکل 370 وہ سرنگ ہے جس کے ذریعے ہندوستان کے آئین کو جموں و کشمیر میں نافذ کیا جاتا رہا ہے۔

ہندوستان نے ہندوستانی آئین کو جموں و کشمیر میں نافذ کرنے کے لئے کم سے کم 45بار آرٹیکل 370 کا استعمال کیا ہے۔ یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے، صدر  جمہوریہ کےاحکام کے ذریعے، ہندوستان نے جموں و کشمیر کی اسپیشل اسٹیٹس کے اثر کو تقریباً زیرو کر دیا ہے۔سال 1954 کے حکم کے ذریعے، تقریباً پورے آئین کو جموں و کشمیر تک بڑھا دیا گیا تھا، جس میں زیادہ تر آئینی اہتمام بھی شامل تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)