مرحوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ 370 کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔ نیشل کانفرنس کا کشمیری میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھاجس کا مفہوم تھا کہ خواتین کی عزت و آبرو تین سو ستر میں ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اس کو ہندوستانی یونین میں ضم کرنے، کے حکم نامہ کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈران بشمو ل ہریانہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے نوید سنائی کہ ہندوستان کے کنوارے نوجوان اب کشمیر کی گوری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے طنز آمیز، جنسی اور نسلی تعصب سے بھرے ہوئے جملے ہندوستان کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہے ہیں۔ کئی افراد تو فون پر گلمرگ اور سونہ مرگ کی وادیوں میں زمینوں کے بھاؤ پوچھ رہے ہیں۔
ممبئی میں مقیم ہندوستان کے معروف قانون داں اور جموں و کشمیر معاملوں میں ایک طرح سے حرف آخر، اے جے نورانی نے ایک مرتبہ ہندوستانی آئین کی دفعہ 370کو ایک انڈے سے تشبیہ دیتے ہو ئے کہا کہ اس میں پائپ لگا کر نئی دہلی کے حکمرانوں نے سرینگر میں موجود اپنے گماشتوں کی مدد سے اس کی سفیدی اور زردی چوس لی ہے۔اب اس کا صرف چھلکا باقی تھا، جس کو اب ہندوستان کے نئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ دفعہ 370اور دفعہ35اے ایک طرح سے کشمیر کی انفرادیت، کلچر اور مسلم تشخص کو تحفظ فراہم کرتا تھا، اور ایک طرح سے ہندوستان کے تکثیری کلچر اور تنوع میں اتحاد جیسے نعروں کا نقیب تھا، جس کو مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کے ساتھ، سفارتی سطح پر پوری دنیا میں ہندوستان بیچتا تھا۔
مجھے یا د ہے کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ 370 کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔ نیشل کانفرنس کا کشمیری میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھا، ازء ہوند عزت فضء ہوند عزت، ترہت ستت ترہت ستت۔ ازء اور فضء کشمیر میں خواتین کے مقبول نام ہوتے تھے۔ نعر ہ کا مفہوم تھا کہ خواتین کی عزت و آبرو تین سو ستر میں ہے۔ شیخ صاحب سے میں کبھی روبرو نہیں ہوسکا۔تاہم ان کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے جب بھی مکالمہ ہوا،وہ آزادی پسند جماعتوں پر طنز کستے تھے کہ مسلم اکثریتی پاکستان میں کشمیری انفرادیت کبھی کی ضم ہوگئی ہوتی۔ جبکہ ہندوستان کا جمہور ی اور آئینی تکثیری معاشرہ ہی ریاست جموں وکشمیر کی وحدت و انفرادیت کا ضامن ہے۔
نورانی کا کہنا ہے کہ دفعہ 370نے ایک طرح سے جو کپڑے فراہم کئے تھے، و ہ کب کے اتر چکے تھے۔ اب شہریت، جھنڈے اور اسمبلی کے نام صرف ایک باریک سا زیر جامہ بچا تھا۔ 5اگست 2019 کو امت شاہ نے پارلیامان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں صبح 11 بجے کشمیریوں کے بدن سے یہ زیر جامہ اتار کر ان کو سر عام برہنہ کرکے رکھ دیا۔ کوسوں دور مجھے لگ رہا تھا کہ بھرے بازار میں میر ی عزت بھی تار تار کر دی گئی ہو۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف، شاہ نے ریاست کو تحلیل کرنے اور اس کو تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دوخطوں میں تبدیل کرنے کا قانون بھی ایوان میں پیش کیا۔ لداخ، جو مسلم اکثریتی ضلع کرگل اور بدھ اکثریتی لیہ اضلاع پر مشتمل ہے، میں اسمبلی ہی نہیں ہوگی۔
90کی دہائی میں اس خطے کی 39.65فیصد بد ھ آبادی نے لداخ کو مرکز کے زیر انتظا م علاقہ بنانے کی مانگ کو لیکر ایجی ٹیشن کی۔ مگر اس خطے میں آباد 46.40فیصد مسلم آبادی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب دانشور حضرات اور میڈیا، لداخ کو بدھ اکثریتی علاقہ تصور کرتے ہیں۔2003میں مفتی محمد سعید کی حکومت نے اس خطے کے دونوں اضلاع کے لیے ڈیولپمنٹ کونسل تشکیل دی، جو باضابط منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک طرح سے منی اسمبلی تھی۔ اس کو بھی تحلیل کردیا گیا ہے۔ مرکزی انتظام میں دینے سے قبل اسی علاقہ میں کم از کم ریفرنڈم ہی کرایا جاتا، توپتہ چلتا، کتنے لوگوں کو یونین ٹیریٹری یا مرکزی انتظام والا میکانزم منظور تھا۔ جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیر انتظام خطہ ہوگا، جس میں اسمبلی تو ہوگی،مگر وہ دہلی و پانڈیچری اسمبلی کی طرز پر ایک طرح سے میونسپل کارپوریشن کا کام کرےگی۔
تمام تر اختیارات مرکز کے نمائندے لیفٹنٹ گورنر کے پاس ہونگے۔ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کو معطل کر دیا گیا۔ اب بیوروکریسی کا تعین مرکزی حکومت کرےگی۔ مقتدر صحافی مزمل جمیل کا کہنا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ واپس 1846میں پہنچ گیا ہے، جب بیعنامہ امرتسر کے بعد ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے سرینگر کی باگ ڈور سنبھالی۔ پچھلی چار صدیوں سے مغل حکمرانوں کی کشمیر آمد کے بعد سے جس طرح عام کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو سسٹم سے باہر اور بے اختیار تصور کرتا تھا، اب اس میں اور شدت آئے گی۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سو سال قبل ڈوگرہ فرمانروا ہری سنگھ نے کشمیری پنڈتوں کی ایما پر ہی اسٹیٹ سبجکٹ قانون لاگو کیا تھا، جس کی رو سے بیرو ن ریاستی باشندوں کے لیے ریاستی حکومت میں ملازمت اور غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی عائد کی گی تھی۔ اس قانون کو دفعہ 370اور دفعہ 35اے نے تحفظ فراہم کیا تھا۔ کشمیری پنڈت لاہور اور سیالکوٹ سے آنے والے پنجابی اور محمد الدین تاثیر جیسے پنجابی نژاد کشمیریوں سے خائف تھے، جو تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمتیں حاصل کرکے پنڈتوں کی مسابقت کر تے تھے۔
اس کے علاوہ پنجاب سے زمیندار وغیرہ کشمیری خواتین سے شادیا ں کرکے کشمیر میں بس جاتے تھے۔اس قانون کی رو سے ان خواتین کو حق وراثت سے محروم کر دیا گیا۔ وہ اپنے والدین کی غیر منقولہ جائیداد کے حق سے سے محروم کر دی گئیں۔ پنڈتوں نے مہاراجہ کو یہ بھی بتایا کہ چونکہ کشمیر اور انگلستان کا موسم یکساں ہے، اس لیے انگریز افسران یہاں آکر بس سکتے ہیں اور ہمہ وقت مہاراجہ کے سر پر سوار رہیں گے۔
مؤرخ اور سیاسی کارکن پنڈت پریم ناتھ بزاز کا کہنا ہے کہ اس پورے قضیہ میں کشمیر ی مسلمان کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی، نہ ہی کسی نے اس سے رائے لی، کیونکہ ملازمت کے دروازے کشمیری مسلمان پر بند تھے۔ انتہائی خستہ حال اور غریب کشمیر مسلمان زیادہ تر یا تو کاریگر یا زرعی مزدور تھا۔ اس کو چک داروں، جاگیرداروں اور سرکار کے ٹیکس بھرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔ بزاز کے بقول سوسائٹی میں ہندو ہونا عزت و توقیر کی علامت تھی۔ مسلمان کوصرف اپنے مذہب کی بنیاد پر حقارت اور نیچ نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
کشمیر، کشمیریوں کے لیے دراصل کشمیری پنڈتوں کا نعرہ تھا۔ جب یہ قانون عمل میں آیا، تو اس وقت کسی کو بھی مسلم خواتین کے حقوق یاد نہیں آئے، جن کو بس غیر کشمیری کے ساتھ نکاح کی بنیاد پر حق وراثت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ایک صدی بعد یہی کشمیری پنڈت اس قانون کو ہٹانے کی مانگ کر رہے تھے اور اس کو ظلم اور خواتین مخالف قرار دے رہے تھے۔ چونکہ ا ب کشمیری مسلمان تعلیم یافتہ اور ترقی کی دوڑ میں ان کے ہم پلہ آگیا ہے، تو یہ قانون جو ایک صدی قبل ٹھیک تھا،اب پنڈتوں کی آنکھوں میں کھڑکنے لگا۔ جو خدشات ایک صدی قبل کشمیر ی پنڈتوں کو لاحق تھے، وہی خدشات اب کشمیری مسلمان کو لاحق ہیں۔
کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی آنکھوں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی۔ یہ وہ پارٹی ہے جس نے صوبوں و مرکز کے اختیارات کے تعین کرنے والے سرکاری کمیشن کے سامنے صوبوں کو انتہائی حساس سکیورٹی کے علاوہ بقیہ سبھی اختیارات تفویض کرنے کی مانگ کی تھی۔ ابھی حال ہی میں جینیوا میں ہندوستان کے سفیر نے شر ی لنکا کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آئین کی 13ویں ترمیم کو جلد از جلد لاگو کرکے شمالی شری لنکا میں مقیم تامل ہندو اکثریت کو تحفظ اور پاور فراہم کرے۔یعنی اورں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔ کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی خطہ ہے، اس لئے یہ انسانی حقوق وہاں لاگو نہیں ہوتے ہیں۔
خیر ریاست جموں و کشمیر اب تحلیل ہو چکی ہے۔ کشمیر ی تشخص اور انفرادیت پامال ہو چکی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کسی کا ضمیر بیدار ہوگا۔ امن عالم کے دعویدار ایک طرف افغانستان میں امن قائم کرنے کے کوشاں ہیں، وہیں دوسر ی طرف خطے میں دوسرا افغانستان بنایا جا رہا ہے۔ ہندوستانی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی 10ملین سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کاآبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ 1.25بلین ہندوستان کی آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیں گے۔
سابق فوجیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور ان کے اہل خانہ کو کشمیر میں بسانے کی مہم تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے قدم کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی ایک دلیل دی، کہ بیرون ریاست بیورکریٹ کشمیر جانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ و ہ اور ان کے اہل خانہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے ہیں۔ جب ہندوستان برطانوی تسلط سے آزادی کی مانگ کر رہا تھا، تو ایک بار ونسٹن چرچل نے کانگریسی لیڈروں کو مخاطب کرکے کہا،”کہ تم کو آزادی اس لئے چاہیے کہ دبے کچلے طبقوں اور مظلوموں پر حکومت کرکے ان کو دبادو۔“ آج چرچل کی روح اپنی اس پیشن گوئی کی صداقت پر قہقہے لگا رہی ہوگی۔
کشمیر ایک شاک کی کیفیت میں ہے۔ وہ ابھی شاید اس طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کریگا، جس کی توقع تجزیہ کار کر رہے ہیں۔ یہ ایک پر فریب سکون اور آتش فشاں کی خاموشی ہے۔ 1987کے بد نام زمانہ انتخابی دھاندلی کا بدلہ کشمیریوں نے 1989میں چکایا۔ کشمیر میں ایک نئے مزاحمتی کلچر کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے، جس میں فکری مزاحمت کا فوکس مظلومیت کے بجائے تخلیقی سطح پریادوں کو اجاگر کرکے اور سینوں سے لگا کر باوقار طور پر ابھرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ آئین کی دفعہ 370 کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر بھی تحلیل ہو گئی ہے، مگر قانون قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔
تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، یہ گھومتا رہتا ہے اور اس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ میری بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ 1984میں تہاڑ جیل میں پھانسی کے قبل مقبول بٹ نے ظہیر کاشمیری کے لفظوں میں کسی کو کہا تھا کہ ؛
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ؛
نہ مسکراؤ میری بے بسی پر اے تارو
تم اپنی خیر مناؤ کہ رات جاتی ہے
اور صرف چھ سال بعد ہی کشمیر نے کروٹ لی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔
Categories: فکر و نظر