خبریں

بچہ چوری میں شامل روہنگیا مسلمانوں کے گروہ کا سچ

فیک نیوز راؤنڈ اپ: سوشل میڈیا پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف  نفرت کا ماحول تقریباً پانچ سال سے ہے اور کافی حد تک اس کے ذمہ دار بی جے پی کے وہ لیڈران ہیں جنہوں نے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے  اپنی انتخابی ریلیوں میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا تھا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

سنیتا جے رام نامی فیس بک  یوزر نے  دو ویڈیو اپلوڈ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ؛خبردار ! پورے ہندوستان میں روہنگیا کی 2000 لوگوں کی ٹیم آئی ہے جو بچوں کو اٹھا کر  لے جا رہی ہے، کوئی بیچتا ہے کوئی بلی کے لئے لے جاتا ہے۔ خود دیکھو، سنو اور زیادہ سے زیادہ اسے عام کرو۔

سوشل میڈیا پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف  نفرت کا ماحول تقریباً پانچ سال سے موجود ہے اور کافی حد تک اس کے ذمہ دار بی جے پی کے وہ لیڈران ہیں جنہوں نے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے  اپنی انتخابی ریلیوں میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا تھا اور اپنی فرقہ وارانہ تقریروں کی وجہ سے کامیاب بھی ہوئے۔ فیس بک صارف سنیتا جے رام کی یہ پوسٹ اسی سیاست کی ترجمانی کرتی ہے جس کو بی جے پی لیڈران نے عوام کے ذہنوں  میں داخل کیا تھا! روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی ایسی خبریں اکثر جھوٹی ثابت ہوئی ہیں اور ان کو بےبنیاد پایا گیا ہے۔

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ ویڈیو میں موجود خاتون جس کو روہنگیا کی دو ہزار کارکنوں پر مشتمل ٹیم کا ممبر قرار دیا گیا ہے دراصل وہ ذہنی طور پر معذور ہے۔ الٹ نیوز نے اپنی تحقیق کے دوران  یو ٹیوب پر  ایک ویڈیو حاصل کیا جس  میں اسی خاتون کے تعلق سے یہی دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بچوں کو اغوا کرنے والے گروہ کی ممبر ہے۔ یہ ویڈیو  بھارت نیوز نامی مقامی چینل پر موجود تھی جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ واقعہ اتر پردیش کے جھانسی ضلع کےڈیمرونی گاؤں کا ہے۔

 الٹ نیوز نے اپنی تحقیق کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اس خبر کو قومی سطح کے اخباروں میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ امر اجالا نے   3 اگست کو اس سے متعلق خبر شائع کی تھی۔ خبر کے مطابق اس خاتون کو مقامی شہریوں نے گھیر لیا تھا اور اس پر بچے اغوا کرنے کا الزام لگایا تھا، بعد میں اس کو پولیس کے سپرد کر دیا گیا۔ پولیس نے یہ واضح کیا کہ خاتون ہذا ذہنی  طور پر معذور تھی اور وہ کسی چائلڈ لفٹنگ گینگ کی ممبر نہیں ہے۔ امر اجالا کی خبر یہاں دستیاب ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر  کشتی  میں  ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے پہلوان یوگیشور دت نے نریندر مودی اور امت شاہ کو ٹیگ کرتے ہوئےایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے بطور کیپشن لکھا:

یہ تو ایک چھوٹا سا پیادہ ہے  انسانی اعضاء کی تسکری کا، اس جیسے کتنے لوگ ملوث ہیں اس  نفرت انگیز کام میں۔ میری اپیل ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسے لوگوں کو گرفتار کرنے کے لئے  سخت قدم اٹھائے جائیں  جو  چھوٹے بچوں کی تسکری کرکے انکے اعضاء کی تجارت کرتے ہیں یا ان سے بھیک  منگواتے ہیں۔ یوگیشور کا ٹوئٹ:

ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک لڑکا جس  پر بچے اغوا کرنے کا الزام ہے، اس کو کچھ لوگوں نے ایک رسی کے سہارے ایک درخت سے باندھ رکھا ہے۔ الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ  درخت سے باندھا گیا لڑکا  سونو شری واستو ہے اور سونو کو پیٹنے والا لڑکا  انکت بالمیکی ہے۔ یہ واقعہ اتر پردیش کے ضلع جالون کے تھانہ ایٹ میں ٹول پلازہ کے قریب پیش آیا تھا۔ امر اجالا کی ایک خبر کے مطابق سونو ٹول پلازہ کے قریب بس کا انتظار کر رہا تھا۔ جب انکت بالمیکی اور اس کے دوستوں نے سونو کو دیکھا تو اس پر بچے اغوا کرنے کا جھوٹا الزام لگایا اور اس کے ساتھ مار پیٹ کرنے لگے۔  جب یہ خبر جالون پولیس تک پہنچی تو انہوں نے معاملے کی تحقیق کی اور اپنے ایک ٹوئٹ میں واضح کیا کہ سونو پر بچے اغوا کرنے کا الزام بے بنیاد ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ ویڈیو میں سونو سے اس الزام کو جبراً قبول کروایا گیا ہے۔ پولیس نے اپنے ٹوئٹ میں عوام کو مطلع کیا کہ انکت بالمیکی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اتر پردیش کے ہی اٹاوا ضلع میں ایک نوجوان پر الزام لگایا گیا کہ وہ چائلڈ لفٹنگ گینگ کا ممبر ہے۔ Worldheadline News نامی فیس بک پروفائل سے ایک ویڈیو اپلوڈ کیا گیا  جس کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ:

‘بچے اٹھانے والے گینگ  ملک بھر میں  بہت ایکٹو ہیں ، نگرانی  کافی نہیں ہے۔ انسانی تسکری اور جسم فروشی کے کاروبار پر سخت اقدام کی ضرورت ہے…’

فیکٹ چیکر ویب سائٹ بوم لائیونے انکشاف کیا کہ  جس شخص پر بچہ اغوا کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، دراصل وہ ذہنی طور پر معذور ہے۔  بوم نے اپنی تفتیش میں پایا کہ اس واقعہ سے متعلق خبر دینک بھاسکر میں شائع ہوئی تھی جس میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ  یہ معاملہ اتر پردیش کے اٹاوا ضلع کا ہے۔ بھاسکر نے رپورٹ کیا کہ  ایک نامعلوم شخص نے  14برس کے ایک بچے  کو اغوا کرنے کی کوشش کی  لیکن اتفاق سے اس بچے کے بھائی نے شور مچا دیا اور اس شخص کو مقامی لوگوں نے گھیر لیا  اور اس کو بری طرح مارا۔ جب بوم نے اٹاوا کے ایس پی آفس میں رابطہ قائم کیا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ ملزم شخص ذہنی طور پر معذور ہے، اور یہ معاملہ بچے اغوا کرنے کا نہیں ہے۔

جب اڈیشنل ایس پی (سٹی) کے دفتر سے رابطہ قائم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ملزم اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے،  اور جب بھیڑ نے اس کو پیٹنا شروع کیا تو اس نے ڈر کی وجہ سے وہ جرم قبول کر لیا، وہ چائلڈ کڈنیپر نہیں ہے۔اڈیشنل ایس پی نے کہا کہ  احتیاط کے طور پر ہم نے ملزم کو حراست میں رکھ لیا ہے۔

ذاکر ملک نامی فیس بک پروفائل سے  کچھ تصویروں کو عام کیا گیا جن  کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ،’بچہ چور گینگ آج پکڑا گیا، ایسا کیا اور بھی ہو سکتا ہے آپ کے اس پاس کے علاقے میں، مہربانی کر کے دھیان رکھیے  اور اپنے بچوں کا اسکول جاتے ہوئے  آتے ہوئے  اس پاس کے ایسا کوئی اجنبی شخص  ان کے پاس  نہ  ہو…’

الٹ نیوز نے اپنی تفتیش کے دوران ایک ویڈیو حاصل کیا جس میں  بتایا گیا تھا کہ فتح  آباد میں بچے اغوا کرنے والے گروہ کو پکڑا گیا ہے۔ اس میں کچھ مرد موجود تھے جنہوں نے عورتوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔

جب الٹ نیوز نے فتح آباد پولیس سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ چائلڈ کڈ نیپر گینگ کے ممبر نہیں ہیں بلکہ ٹرانس جینڈر لوگوں کا ایک گروپ تھا جو فلاح و بہبود کے کسی کام کے لئے چندہ لے رہے تھے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کو اغوا کرنے سے متعلق جتنی بھی خبریں سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں وہ حقیقت کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتی ہیں اور اسی بنا پر ان کو فیک نیوز کے ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ تسلیم کیا جانا چاہیے اور عوام کو احتیاط کرنی چاہیے کہ وہ افواہوں پر یقین نہ کریں۔