جرم جتنا بھی سنگین ہو ملزم کو سزا دینا قانون کا کام ہے۔ اس میں چاہے جتنا وقت لگے یا خامیاں بھی ہوں ، عوام کے قانون کو ہاتھ میں لینے کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
تبریز انصاری ماب لنچنگ معاملے میں جھارکھنڈ پولیس نے چارج شیٹ میں تمام 11 ملزمین پر سے قتل کا معاملہ واپس لے لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ملزمین پر قتل کامعاملہ نہیں بنتا۔ پولیس کے مطابق کیونکہ جائے واردات پر موت نہیں ہوئی اس لئے اس کو قتل کا معاملہ نہیں مانا جا سکتا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تبریز کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔
واضح ہو کہ اسی سال جون کی 18 تاریخ کو جھارکھنڈ کے سرائے کیلا-کھرساواں ضلع میں چوری کےالزام میں تبریز کو بجلی کے کھمبے سے باندھکر بری طرح سے پیٹا گیاتھا۔ بتایا جاتا ہےکہ لوگوں نے تبریز کو پکڑکر جئے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے بھی لگوائے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ واقعہ کے بعد تبریز کو چوری کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ معاملہ کے چار دن بعد صورت حال بگڑنے پرتبریز کو ایک مقامی ہاسپٹل میں لے جایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی تھی۔اس بیچ ریاست میں بچہ چوری، گئو رکشا، ریپ اور دوسرے معاملوں کے نام پرہو رہے ماب لنچنگ کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
پچھلے ہفتہ جمعرات کی دیررات جھارکھنڈ کے دھنباد ضلع کے ایک گاؤں میں بچہ چوری کے شک میں گاؤں والوں نے ایک ادھیڑ کی جم کر پٹائی کر دی جس کی جمعہ کو موت ہو گئی۔ اس سے پہلے منگل کوجھارکھنڈ کے ہی کوڈرما ضلع میں چھ لوگوں پر بچہ چور ہونے کے شک میں بھیڑ نےبری طرح حملہ کیاتھا۔ ٹھیک اسی دن ریاست کے رام گڈھ ضلع سے بھی ماب لنچنگ کی خبر آئی۔ جھارکھنڈمیں پچھلے تین سالوں میں ایسے 20 واقعات ہو چکےہیں جس میں درجن بھر لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف جھارکھنڈ تک محدود نہیں ہے۔ بہار، اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور دہلی میں بھی ایسےواقعات ہوتے رہے ہیں۔ جنوبی ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔
تلنگانہ، کرناٹک اور کیرل میں بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ تب ہو رہا ہے جب کئی ریاستوں میں اس کے خلاف باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ بھی دخل دے چکی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں جاری ہے ماب لنچنگ کا یہ سلسلہ اور اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ کیوں قانون مؤثر ثابت نہیں ہو رہا؟ اس کو سمجھنےکے لئے ہمیں ان واقعات کے پیچھے کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔ لنچنگ میں شامل ہونےوالا کیا سوچکر اس طرح کے جرائم میں شامل ہوتا ہے؟ غور کرنے پر اس کے دو بنیادی پہلو سامنے آتے ہیں۔ پہلا، انصاف کو لےکر ہمارا نظریہ اور دوسرا جن لوگوں نے جرم کیا ہے ان کے ساتھ پولیس، سماج اور عدلیہ کا رویہ۔
ان واقعات کی بڑھتی تعداد کےپیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں مبینہ فوری انصاف کو بہت پسند کیا جاتاہے۔ یعنی اگر کسی پر صرف یہ الزام ہے کہ اس نے بچہ چوری کیا ہے، ریپ کیا ہےیا گائے گئو کشی میں ملوث ہے تو پھر ہم اس کو پیٹ پیٹ کر مار دینا یا ادھ مرا کر دیناغلط نہیں سمجھتے، بلکہ اس کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ بھلے وہ الزام غلط یاافواہ بھر ہو۔
اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔ اس کےپیچھے کہیں نہ کہیں یہ نظریہ بھی کام کر رہا ہوتا کہ اگر ہم ایسا نہیں کریںگے تویہ مبینہ مجرم بھاگ جائےگا یا پھر قانون کو چکمہ دےکر چھوٹ جائےگا۔ جو کسی حدتک صحیح بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا صرف عام لوگ نہیں سوچتے بلکہ وہ بھی مانتے ہیں جن کے اوپر قانون کا اقتدار قائم کرنے کی ذمہ داری ہے۔ کامن کاز اور سی ایس ڈی ایس کی جانب سے شائع ایک حالیہ سروے کے مطابق،35 فیصد پولیس اہلکاروں کا ماننا ہے کہ گئو کشی کے ‘ مجرم’کوبھیڑ کے ذریعے سزا دیا جانا فطری ہے۔ اسی طرح ریپ کے معاملے میں 43 فیصد پولیس اہلکار بھیڑ تنتر کے ‘انصاف ‘ کو صحیح مانتے ہیں!
جب قانون کے رکھوالے ہی ماب لنچنگ کو غلط نہیں مانتے تو ایسے میں قانون اپنا کام کیسے کرےگا؟ یہی وجہ ہےکہ ماب لنچنگ کے ملزم یا تو بری ہو جاتے ہیں یااگر ان کو سزا بھی ہو گئی تو اس کو کوئی رہنما یا تو بیل دلوانے پہنچ جاتا ہے یاپھر مالا پہنا کر استقبال کرتا۔ اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ جن پر ماب لنچنگ کاالزام ہے ان کا مقدمہ نہیں لڑا جانا چاہیے، ان کو بیل نہیں ملنا چاہیے۔ بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سے ماب لنچنگ کے ملزم کو زندہ رہنے، ضمانت پانے اوراپنا حزب رکھنے کا حق ہے ٹھیک اسی طرح سے گائے قتل کے ملزم، ریپ کے ملزم اور بچہ چوری کے ملزم کو بھی اس کا حق ہے اور یہ حق اس کو آئین دیتا ہے۔
اسی لئے سماج،پولیس یا کسی عدالت کو اس کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ ملزم کا حزب سنے بنا اس کےخلاف سزا سنا دے، وہ بھی ایک ایسی سزا جس کو پلٹا نہیں جا سکتا۔ اسی لئے جب تک ہم قانون کو اپنا کام صحیح سے نہیں کرنے دیںگے تب تک صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اس تناظر میں جو بات ہمیں سب سے پہلے سمجھنی پڑےگی اور جس پر عمل کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ جرم جتنا بھی گھناؤنا ہو ملزم کو سزا دیناقانون اور عدلیہ کا کام ہے نہ کہ سماج اور بھیڑ کا۔ اس میں چاہے جتنا وقت لگے یاجس طرح کی بھی غلطیاں ہوں۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہمارا کام نہیں ہے۔ جب تک ہم اس پر عمل نہیں کریںگے اور ماب لنچنگ کو فطری سمجھتے رہیںگے تو یہ سلسلہ چلتا رہےگا۔ کوئی اس کو روک نہیں پائےگا، حکومت جاہے جتنا بھی سخت قانون بنا دے۔
Categories: فکر و نظر