خبریں

مہاتما گاندھی کشمیر کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟

مہاتما  گاندھی نے کہا تھا،کشمیر کی عوام اگر پاکستان میں جانا چاہتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے پاکستان جانے سے روک نہیں سکتی،لیکن اسے پوری آزادی اور آرام کے ساتھ اپنی رائے رکھنے  دیا جائے۔ان کے گاؤں کو جلا کر آپ انہیں مجبور نہیں کر سکتے ۔بھلے ہی وہاں مسلم  زیادہ تعداد میں ہیں لیکن اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جا سکتا۔

علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : موجودہ مودی حکومت نے گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کو دو  الگ الگ یونین ٹریٹری  میں تقسیم   کرنے کا فیصلہ کیا،اسی کے ساتھ آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں  کو ختم  کر دیا۔ایسے وقت میں 72 سال پہلے کہی گئی گاندھی کی باتیں آج بھی بامعنی  ہیں۔گاندھی اپنی زندگی میں صرف ایک بار کشمیر کے دورے پر گئے تھے۔ملک کی آزادی سے محض 14 دنوں پہلے راولپنڈی کے راستے گاندھی کشمیر پہنچے تھے،یہی ان کا پہلا اور آخری کشمیر   کا سفر تھا۔

ریاستوں کو ایک کرنے کے اس دور میں کشمیر کے راجاہری سنگھ نے اپنی ریاست کو ہندوستان -پاکستان دونوں سے الگ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔تب لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز پر گاندھی کشمیر گئے تھے۔گاندھی چاہتے تو کشمیر کے راجا یا انگریز ی حکومت سے بات کر کے کشمیر کا کاغذی طور پر ہندوستان میں انضمام کروا سکتے تھے،لیکن وہ کہتے تھے کہ کشمیر کامطلب وہاں کی زمین یا  راجانہیں،بلکہ وہاں کی عوام ہے۔

جن ستا کی ایک رپورٹ کے مطابق،جس فرد نے عدم تشدد  کے دم پر فرنگیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اس نے عوام کے جذبات کو عزت دی اور ان کی خواہش کو ہی سب سے اوپر رکھنے پر زور دیا۔29 جولائی 1947 کو اپنے کشمیر جانے کا ا علان کرتے ہوئے گاندھی نے کہا تھا ،’میں یہ سمجھانے نہیں جا رہا ہوں کہ کشمیریوں کو ہندوستان میں رہنا چاہیئے۔اپنے کشمیر کافیصلہ تو وہاں کی عوام ہی کرے گی۔’

1 اگست 1947 کو جب گاندھی کشمیر پہنچے تو وہاں لوگوں کی بھیڑ  امڈ پڑی۔ سڑکوں پراتنی بھیڑ تھی کہ گاندھی کو ناؤ میں بٹھاکر ندی کے راستے سری نگر لے جانا پڑا۔کشمیر پہنچنے پر وہاں کے شاہی خاندان نے ان کا استقبال کیا ۔ مہاراجا ہر ی سنگھ سمیت شاہی خاندان کے ممبروں نے اپنے محل سے باہر آکر ا ن کا استقبال کیا تھا۔وہیں بیگم اکبر جہاں عبداللہ نے بھی ان کا استقبال کیا۔یہاں خطاب کرتے ہوئے گاندھی نے کشمیر کے فیصلےمیں عوام کے رول پر  اپنی بات دوہرائی۔انہوں نے کہا تھا ،’کشمیر کا فیصلہ یہاں کی عوام کو کرنا ہے۔ریاست کے اصلی راجاوہی ہیں۔اس کی رائے جاننے کے لئے سازگار ماحول  اور بے خوفی کاماحول بنانا ہوگا۔اگر پاکستانی یہاں گھستے ہیں توپاکستان کی حکومت کو انہیں روکنا چاہیے۔ایسا نہیں کیا تو اس پر الزام تو لگے گا ہی۔’

آزادی کے چند مہینوں بعد کشمیر پر پاکستانی قبائلیوں  نے حملہ کر دیا تھا۔اس کی جانکاری گاندھی کو ملی تو وہ بہت دکھی ہوئے۔انہوں نے ہندوستان پاکستان دونوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہاتھا،

‘کشمیر کی عوام اگر پاکستان میں جانا چاہتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے پاکستان جانے سے روک نہیں سکتی،لیکن اسے پوری آزادی اور آرام کے ساتھ اپنی رائے رکھنے  دیا جائے۔ان کے گاؤں کو جلا کر آپ انہیں مجبور نہیں کر سکتے ۔بھلے ہی وہاں مسلم  زیادہ تعداد میں ہیں لیکن اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جا سکتا۔ہندوستان پاکستان کے لوگ انہیں مجبور کرتے ہیں تو انہیں روکا جانا چاہیے۔’