گجرات کا وکاس ماڈل ایک فریب تھا۔ گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کا جو تجربہ شروع ہوا، مودی-شاہ اسی کے سہارے مرکز میں اقتدار میں آئے۔ آج یہی گجرات ماڈل سارے ملک میں اپنایا جا رہا ہے۔ 370 کا مدعا اسی تجربے کی اگلی کڑی ہے، جس کو مودی شاہ مہاراشٹر اور ہریانہ انتخاب میں بھنانے جا رہے ہیں۔
1980 میں گجرات میں کھام (KHAM) چھتریہ، ہریجن(دلت)، آدیواسی اور مسلمانوں کو ساتھ لاکر، ان 56فیصد ووٹر کے دم پر کانگریس نے لمبے وقت تک سنگھ اور بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا۔ لیکن آخرکارشروعات کے تین کمیونٹی کو مسلمانوں کے خلاف کھڑاکرکے مودی-شاہ نے 2002 میں اس تناؤ کو انتہا پر پہنچا دیا، جس کے بعد سے وہ وہاں اقتدار میں ہیں۔ اب یہ اب صاف ہو گیا ہے کہ گجرات کا وکاس ماڈل ایک فریب تھا اور گجرات فساد کے بعد مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کا جوتجربہ شروع ہوا، وہ اسی کے سہارے مرکزمیں اقتدار میں آئے۔ آج یہی گجرات ماڈل سارے ملک میں اپنایا جا رہا ہے۔
370 کا مدعا اسی تجربےکی اگلی کڑی ہے، جس کو مودی شاہ مہاراشٹر اورہریانہ انتخاب میں بھنانے جا رہے ہیں۔مودی-شاہ یہ جانتے ہیں کہ اقتصادی مدعوں پران کی مرکز کی حکومت اور انتخاب میں جا رہی مہاراشٹر اور ہریانہ کی حکومت بری طرح سے ناکام رہی ہے۔کاروبار-دھندے بند ہو رہے ہیں۔ کسانی پہلے سوکھے اور اب سیلاب کی مار سے شدیدبحران میں ہے۔ ایک طرف نوجوان بےروزگار گھوم رہے ہیں، دوسری طرف کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ وہیں ان مدعوں پر سنجیدہ بحث کرنے کے بجائے بی جے پی ان کوبھگوا سیاست کے ذریعے دبانے میں لگی ہیں۔
اس سیاست نے مسلمانوں کے ساتھ-ساتھ دلت، آدیواسی اور کسان کے ساتھ کسان کےاوپر دوہرا بحران کھڑا کر دیا ہے۔ بی جے پی جانتی ہے کہ اگر وہ ان اصلی مدعوں پرانتخاب لڑی، تو اس کو کراری ہار کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس لئے جس طرح سے لوک سبھا انتخاب میں اس نے بالاکوٹ کے ذریعے قومی سلامتی کو مدعا بنایا تھا، وہیں ان ریاستوں کے انتخابات کو وہ آرٹیکل 370 جیسے جذباتی اور متنازعہ مدعوں کے دم پر لڑنے جا رہی ہے۔
امت شاہ نے مہاراشٹر اور ہریانہ میں انتخابی ریلیوں میں یہ صاف بھی کر دیاہے۔ جہاں ہریانہ میں انہوں نے یہ بات 16 اگست کو جیندمیں ایک ریلی میں کہی، وہیں مہاراشٹر میں پہلے 1 ستمبر کو سولاپور میں وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کی مہاجنادیش یاترا کےدوسرے مرحلے کے اختتام کے بعد کہی۔ اور پھر، 22 ستمبر کو ممبئی میں ہوئی ریلی میں انہوں نے صاف کر دیا کہ یہاں 370 ہی اہم مدعا ہوگا۔
اگر کانگریس اوراپوزیشن کو ان کے اس مدعے کی کاٹ پیدا کرنا ہے، تو سب سے پہلے لوگوں کے اس فریب کو توڑنا ہوگا کہ مودی-شاہ کی جگل بندی اپنے سارےفیصلے ملک کی اکثریت کے مفاد میں لے رہے ہیں۔عوام کے سامنے یہ سوال اٹھانا ہوگا کہ کس طرح مودی دہشت گردی کو ختم کرنےکے لئے پہلے نوٹ بندی پھر بالاکوٹ کے دعوے کرتے رہے اور اب آرٹیکل 370 کی بات کر رہے ہیں۔ جبکہ اصلیت میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔
اور ساتھ میں یہ بھی زور شور سے کہنا ہوگا کہ اصل میں مودی-شاہ تاریخ کی سب سے بری بےروزگاری، برباد ہوتی معیشت اور کسانی پر بڑھتے بحران سے دھیان ہٹانےکے لئے یہ سب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد، اپوزیشن کو یہ دیکھنا ہوگا کہ مودی-شاہ کے ہندوتوا کے ایجنڈےسے متاثر کون-کون سی کمیونٹی ہے۔ کیونکہ گئورکشا کا مدعا کبھی بھی اپنے آپ میں اکیلانہیں ہوتا ہے، یہ مشتعل ہندوتوا کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہندوتوا کا نظریہ منواسمرتی سے نکلتا ہے نہ کہ ‘جئے شری رام ‘کے نعرے سے۔ سنگھ اور بی جے پی قیادت کا منواسمرتی میں پورا یقین ہے۔ یہ طبقاتی نظام کی بات کرتا ہے۔ یہ سوچ مودی جیسے پچھڑے سماج سے آنے والے کووزیر اعظم بنانے بھر سے نہیں بدلتی۔ بی جے پی کے ہندوتوا کی سوچ کا سیدھا اثر دلت، آدیواسی، مسلمان جیسے سماج کے دبے ہوئے طبقے پر پڑتا ہے۔ اس طرح کے مشتعل ایجنڈے سے ان طبقوں پر کئی طرح کےظلم بڑھتے ہیں، یہ پورے ملک میں صاف دکھائی دے رہا ہے۔
اپنے اس روایتی ووٹر کو بھولنے سے ہی کانگریس آہستہ آہستہ ہر ریاست میں ہار کا منھ دیکھتی رہی۔ آج ضرورت ہے اس کو اپنے ووٹ بینک کو سمجھنے کی۔ اس کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ‘کاؤ بیلٹ’کی تین ریاستوں-مدھیہ پردیش، راجستھان اورچھتیس گڑھ-میں لمبے وقت کے بعد یہ طبقہ اس کے پاس واپس لوٹا۔ان ریاستوں میں ایس سی-ایس ٹی لوگوں کے لئے ریزرو کل 180 سیٹوں میں سے، 2013 میں بی جے پی کے پاس 129 سیٹیں تھیں ؛یعنی 71 فیصد۔ جو 2018 کے انتخاب میں آدھے سے بھی زیادہ گھٹکر 60 پر آ گئیں۔ وہیں کانگریس کی سیٹیں 47 سے بڑھکر 110 ہو گئی ہیں ؛یہ دو گنا سے بھی زیادہ کا اضافہ ہے۔
مدھیہ پردیش میں تو اس کے 41 فیصد ایم ایل اے دلت اورآدیواسی کمیونٹی سے ہیں ؛ 2003 کی ہارکے وقت اس کے پاس اس کمیونٹی کے محض5 ایم ایل اےتھے، جو اب بڑھکر 47 ہو گئے ہیں۔ گجرات کے ‘کھام ‘کے تجربے کو دوہرانے کے لئے یہی سب سے مناسب وقت ہے۔ اگرہم لوک سبھا انتخاب کے پہلے 2014 سے 2019 کے درمیان اور آج تک ہو رہے واقعات کو دیکھیں توسمجھ آئےگا کہ بھلےہی دلتوں، آدیواسیوں پر حملے کے معاملوں میں’جئے شری رام ‘ کانعرہ نہ ہو، لیکن وہ لگاتار ہندوتو اکی سوچ سے نکلےتشدد کا شکار ہو رہے ہیں ؛ ان پر حملے بڑھے ہیں۔ روہت ویمولا کی موت سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔
گجرات سے لےکر اتر پردیش تک سارے ‘ کاؤ بیلٹ’میں دلتوں کو باندھکرمارنا عام ہو گیا ہے۔ 2003 سے 18 کے درمیان گجرات میں دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف ظلم کے معاملے میں 70 فیصد کا اضافہ ہوا ہےاور 2014-16 کے درمیان 5 فیصد معاملوں میں ہی سزاہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں تو بھیما کورےگاؤں میں دلتوں پر حملہ کرنے والے اصلی ملزمین کو پکڑنے کے بجائے الٹا ان کے لئے لڑنے والے کارکنان کو جھوٹے معاملے میں پھنساکرجیل میں ڈال دیا گیا۔ جب دلتوں نے بھیما کورےگاؤں کے معاملے میں پوری ریاست میں تحریک کی، تو اس دوران بڑے پیمانے پر دلتوں پر معاملے درج ہوئے اور کئی لوگوں کو لمبےوقت تک جیل میں بھی رہنا پڑا۔
وہیں بیف بین کو بھی صرف مسلمانوں سے جوڑکر دیکھا گیا، جبکہ کاؤ بیلٹ کی کئی ریاستوں جیسے گووا اور نارتھ ایسٹ میں ایک بڑی آبادی اس کا استعمال کرتی ہے ؛ اورخاص طور پر مہاراشٹر میں تو دلت بھی بڑی تعداد میں اس کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔آوارہ جانوروں سے ہندو-مسلم تمام کسان پریشان ہیں ؛ وہیں دودھ کا دھنداکرنے والے بھی بحران میں ہیں۔ ملک کا ایسا کوئی شہر نہیں ہے، جہاں آوارہ جانوروں کی وجہ سے ٹریفک کی پریشانی نہ ہو اور اس سے ہوئے حادثہ میں کسی کی موت نہ ہوئی ہو۔
اتناہی نہیں، ایک طرف دلتوں، آدیواسیوں اور پچھڑوں کو دیے جانے والےریزرویشن کو ختم کرنے کا نعرہ سنگھ سے بار بار اٹھتا رہتا ہے۔ وہیں دوسری طرف اونچی ذات کو 10 فیصد ریزرویشن دے دیا گیا۔ اس طرح مودی-شاہ نےریزرویشن کے سارے معنی بدل دیے۔ ویسے بھی 370 کو ہٹانا ایک طرح سے بی جے پی کی ہر طرح کی خاص سہولت کو کبھی نہ کبھی ختم کرنے کی سوچ کا اشارہ ہے۔ لیکن لوک سبھا میں اس سوچ کی انتخابی کامیابی کے لئے یہ ضروری تھا کہ رائٹ ونگ کی سوچکے شکار لوگوں کو ایک نہ ہونے دیا جائے۔
اور یہ کام مودی-شاہ نے بخوبی کیا۔ انہوں نے ‘کاؤ بیلٹ’ میں جتنے بھی اقلیت ہندواتو کا شکار تھے-جیسے خاص طور پر دلت، آدیواسی، مسلمان کو ایک ساتھ نہیں ہونےدیا۔ لوک سبھا انتخاب میں مہاراشٹر میں پرکاش امبیڈکر کی قیادت والی ونچت بہوجن اگھاڑی کو پیچھے سے حمایت دےکر کانگریس اور این سی پی کے دلت ووٹ بینک میں سیندھ لگا دی۔کم سے کم پانچ سیٹوں پر کانگریس امیدوار کی ہار اس وجہ سے ہوئی۔ ناندیڑمیں کانگریس امیدوار اور مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ اشوک چوہان کی ہارتقریباً 40 ہزار ووٹ سے ہوئی ؛ وہیں ونچت بہوجن اگھاڑی کےامیدوار کو ایک لاکھ 60 ہزار ووٹ ملے۔
اکولا میں تو ونچت بہوجن اگھاڑی کا امیدوار دوسرے نمبر پر رہا۔ اس کو پوری ریاست میں اس کو 14 فیصد ووٹ ملے ؛ وہیں کانگریس اور این سی پی کو بالترتیب:16.27 اور 15.52 فیصد ملے۔ یعنی اگر یہ تینوں طاقتیں ایک ساتھ آ جاتیں،تو کم سے کم مہاراشٹر میں تو لوک سبھا نتائج کچھ اور ہی ہوتے۔اسی طرح اتر پردیش میں دلتوں کو طبقوں میں بانٹ دیا۔ ان کی یہ حکمت عملی اس حد تک کامیاب رہی کہ دلتوں اور آدیواسی پر اتنے ظلم بڑھنے کے باوجود بھی بی جےپی نے لوک سبھا انتخاب میں پورے ملک میں دلتوں کے لئے ریزرو 84 میں سے 47 سیٹوں پر جیت حاصل کی اورآدیواسی کے لئے ریزرو47 میں سے 32 سیٹوں پر۔ یعنی اس طبقے کے لئے ریزرو کل سیٹ میں سے تقریباً دو تہائی سیٹوں پر جیت حاصل کی۔
جس سنگھ نے تاعمر امبیڈکر کی مخالفت کی اور امبیڈکر نے ہندوتوا کی اور آخرمیں منوواد کی وجہ سے ہندوتوا کو چھوڑکر بودھ مذہب اختیار کیا۔ آج ان کو 370 کا اہم مخالف بتاکر بی جے پی امبیڈکر کا خواب پوراکرنے کی بات کر رہی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دلتوں کی سب سے بڑی رہنما مایاوتی اس بنیاد پر اس کااستقبال بھی کر رہی ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے تو کانگریس اوراپوزیشن کے دیگررہنماؤں کو بی جے پی کے اس پاپولر ایجنڈہ کے پروپیگنڈہ کے جال میں پھنسکر بی جےپی کے سر میں سر ملاکر ان کی ڈفلی بجانا بند کرنا ہوگا۔
جیسے ممبئی کانگریس کے سابق صدر سے ملند دیوڑا نے 370 کے بعد اب مودی کے ہاؤڈی مودی پروگرام کی تعریف کر دی۔ کانگریس کے رہنمااگر بی جے پی کے پاپولر ایجنڈے کے پچھلگو بنے رہے، تو ان کو کوئی نہیں پوچھےگا۔کیونکہ پیچھلگو کے بجائے آدمی اصلی کے پاس جاتا ہے ؛ کانگریس یہ نرم ہندوتواپناکر دیکھ چکی ہے۔ وہ اس طرح سے بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ نہیں لگا سکتے۔ دوسرا، ان کو بی جے پی کے مشتعل ایجنڈے سے سیدھے طور پر متاثر دلت،آدیواسی اور مسلمان کمیونٹی کے مدعوں کو پوری ایمانداری اور جوش کے ساتھ اٹھاناہوگا، بلکہ ان کو یہ احساس بھی دلانا ہوگا کہ وہ صحیح معنوں میں ان کے ساتھ ہے۔
کانگریس اور اس کی ساتھی پارٹیوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دلت، آدیواسی اورمسلمان ووٹ ملاکر ہریانہ، مہاراشٹر میں بالترتیب:ان کی آبادی کا کل فیصد 26 اور 32 ہے (ہریانہ میں آدیواسی نہیں ہیں)۔ اور سب سے بڑی بات یہ کئی سیٹوں پر فیصلہ کن کردار میں ہیں۔ ان طبقوں کی اقتصادی حالت بھی تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے۔ یہ لوگ جہاں ایک طرف ہندوتو اکے مشتعل ایجنڈے کی مار جھیل رہے ہیں، وہیں مودی حکومت کے فیصلوں اوراقتصادی بحران کی مار بھی سب سے زیادہ انہی پر پڑ رہی ہے۔ اس وقت اس طبقے میں غضب کی بےچینی ہے۔
مجبوری میں پروپیگنڈہ نے دلت اور آدیواسی کو بھی ہندوتوا کے ایجنڈے میں گھسیٹ-سا لیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی کے پاس اس کے لئے کوئی الگ ایجنڈہ ہے ہی نہیں۔ مہاراشٹر میں مراٹھا لابی اور ہریانہ میں جاٹ لابی کا کانگریس اور اس کی ساتھی پارٹیوں میں دبدبہ ہے، اس لئے وہ بی جے پی کے مشتعل ہندوتوا کے ایجنڈے میں بہہ جاتے ہیں اور دلت، آدیواسی اور مسلم رائے دہندگان کے ساتھ اپنے آپ کو صحیح طرح سےجوڑ نہیں پاتی ہے۔ یہ اس کی کمزوری ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی اس کمی کو دور کر لیں، تویہ مراٹھا اور جاٹ لابی اس کے لئے رحمت ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی ڈر سے پچھلے دو مہینے سے بی جے پی کانگریس اور این سی پی کے مراٹھارہنماؤں کو اپنے ساتھ لانے میں لگی ہے-احمدنگر میں وکھے پاٹل سے لےکر شیواجی مہاراج کے نسلوں کو اپنے ساتھ لا چکی ہے۔ اس میں سے کئی رہنما ایسے ہیں، جن کو بی جے پی بدعنوان بتاتی آئی ہے۔ اگر کانگریس اور این سی پی مہاراشٹر میں اپنے مراٹھا ووٹر کو دلت،آدیواسی، مسلم ووٹروں کے ساتھ جوڑ سکے اور ہریانہ میں اپنے جاٹ ووٹر کو، تو اس کےپاس ایک فیصلہ کن ووٹ بینک آ جائےگا۔ اتنا ہونے پر باقی رائےدہندگان کو یہ احساس ہو جائےگا کہ کانگریس اوراپوزیشن پارٹیوں کے پاس ایک ایسا ٹھوس رائےدہندگان ہے، جو اس کو جیت دلا سکتا ہے۔
کسی بھی انتخاب میں آپ کے پاس ایک ووٹنگ بلاک ضروری ہے۔ ایک بار یہ ایک ووٹنگ بلاک ساتھ آ گیا، تو پھر بی جے پی کی اقتصادی پالیسی کی مار جھیلتے بےروزگارنوجوان، کارخانے سے نکالے گئے مزدور اورکھیتی برباد ہونے سے قرض میں ڈوبےکسان کے لئے کوئی اختیاری ایجنڈہ دینے پر اس کا بھی ایک طبقہ ان کے ساتھ واپس آئےگا۔اگر واقعی میں ایسا ہوتا ہے، تو جیسا شرد پوار نے کہا ہے واقعی میں ان دونوں ریاستوں کے نتائج چونکانے والے ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایک بار ملک کی سیاست شاید مدعوں پر ہونے لگےگی۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو مودی-شاہ کے مشتعل ہندوتواکے پاپولر پروپیگنڈہ میں پھنسکر کانگریس اور حزب مخالف نہ تو اپنا ووٹ بینک ہی بچا پائیںگے اور نہ ہی اپنا وجود۔
اب دیکھنا ہے کہ کانگریس کو 370 کے جال کو اپنےمدعوں سے توڑکر گجرات کے کھام کے اپنے کامیاب تجربے کو دوہرا پاتی ہے یا مودی-شاہ نے جو اس کی کاٹ پیدا کی تھی، وہ ایجنڈا کامیاب ہوتا ہے۔ آخر میں ایک اور بات، اجولا یوجنا اور پردھان منتری آواس یوجنا کسی بھی حکومت کی پالیسی یا ایجنڈہ نہیں ہو سکتی، یہ ایک اسکیم بھر ہے۔ کسی بھی حکومت کےمقاصد کاتجزیہ اسکیم سے نہیں پالیسی یا ایجنڈے سے ہوناچاہیے۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر