خبریں

کشمیر: شرطوں پر مل رہی ہے رہائی، آرٹیکل 370 پر بولنے پر بھیج دیا جائے‌ گا جیل

رہائی کی شرط کے طور پر حراست میں لئے گئے لوگوں کو یہ وعدہ کرنا پڑ رہاہے کہ وہ ایک سال تک جموں و کشمیر کے حالیہ واقعات کے متعلق  نہ تو کوئی تبصرہ کریں‌گے اور نہ ہی کوئی بیان جاری کریں‌گے۔

kashmir-bond-1200x600

نئی دہلی: بڑے رہنماؤں کے ساتھ کشمیر میں سیاسی طور پر حراست میں لئے گئےلوگوں کو رہا کرنے کے لئے ایک بانڈ پر دستخط کرائے جا رہے ہیں جو ملک میں آئین کےتحت ملے حقوق کی  کھلےعام خلاف ورزی  ہے۔ رہا کئے جانے والے لوگوں سے جن بانڈ پر دستخط کرائے جا رہے ہیں اس کے تحت رہائی کی یہ شرط ہے کہ وہ آرٹیکل 370 سمیت کشمیر کے حالیہ حالات پر کوئی تبصرہ نہیں کریں‌گے۔

ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، حال میں رہا کی گئی دو خواتین سے دفعہ 107 کے ترمیم شدہ بانڈ پر دستخط کرایا گیا۔ اس کا عام طور پر ان معاملوں میں استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی ضلع مجسٹریٹ اپنی انتظامی طاقتوں کا استعمال مجرمانہ عمل کے تحت کسی کوحفاظتی وجوہات کے تحت حراست میں لینے کے لئے کرتا ہے۔ اقرارنامہ کی عام شرطوں کے تحت ممکنہ  طور پر مسئلہ پیدا کرنے والوں کوامن کی خلاف ورزی نہیں کرنے یا کسی بھی ایسے کام کو انجام نہیں دینے کا وعدہ کرناپڑتا ہے جو شاید امن کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔ اس وعدے کی کوئی بھی خلاف ورزی کرنےپر حراست میں لئے گئے شخص کو ریاستی حکومت کو جرمانہ دینا ہوتا ہے۔

 حالانکہ، نیا بانڈ دو معنوں میں الگ ہے۔

 پہلی ترمیم شدہ شرط یہ ہے کہ دستخط کرنے والے کو یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ جموں و کشمیر کے حالیہ واقعات پر نہ تو کوئی تبصرہ کرے‌گا، نہ تو کوئی بیان جاری کرے‌گا، نہ تو کوئی عوامی تقریر کرے‌گا اور نہ ہی کسی عوامی جلسہ میں حصہ لے‌گاکیونکہ اس سے ایک سال کی مدت کے لئے ریاست میں امن اور نظم و نسق کو خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت ہے۔یہاں حالیہ واقعات کے تناظر میں آرٹیکل 370 یا جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹری میں منقسم کرنے اور جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کرنے سے ہے۔

 دوسری ترمیم شدہ شرط یہ ہے کہ ان کو مچلکے کے طور پر 10000 روپے جمع کرنے ہوں‌گے اور اقرارنامہ کی کسی بھی خلاف ورزی کے لئے40000 روپے ضمانت کے طور پر چکانےہوں‌گے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے پر ان کو پھر سے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔

 کشمیر میں رہائی کے لئے حراست میں رکھے گئے لوگوں کو جس بانڈ پر دستخط کرنا پڑ رہا ہے اس کی کاپی۔ (فوٹو بہ شکریہ: دی ٹیلی گراف)

کشمیر میں رہائی کے لئے حراست میں رکھے گئے لوگوں کو جس بانڈ پر دستخط کرنا پڑ رہا ہے اس کی کاپی۔ (فوٹو بہ شکریہ: دی ٹیلی گراف)

قانون کے ماہرین اور کارکنوں کا ماننا ہے کہ یہ نئی شرطیں مسئلہ پیداکرنے والی اور غیر آئینی ہیں۔ آئینی معاملوں پر لکھنے والے وکیل گوتم بھاٹیا نے دی وائر کو بتایا، ‘ آئین کے آرٹیکل 19 (2) کے تحت تشدد کے لئے اکسانے پر اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگائی  جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بار بار کہا ہے کہ جب تک کوئی تشدد کو اکساتا نہیں ہے تب تک انقلابی خیالات کی بھی آزادی ہے۔ اس لئے سی آر پی سی کی دفعہ 107 کا استعمال اس طرح سے نہیں کیا جا سکتا ہے، جس سے کسی شخص کی نج  آزادی پر غیر آئینی پابندی لگا دی جائے۔ ‘

یہ واضح نہیں ہے کہ ترمیم شدہ دفعہ 107 اقرارنامہ پر کتنے لوگوں نےدستخط کیا ہے لیکن دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کہتی ہے کہ کئی لوگوں کو اس بانڈ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی جیسے کئی رہنماؤں نے مبینہ طور پر اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

 پچھلے دو ہفتوں میں کئی دیگر رپورٹوں نے اشارہ دیا ہے کہ تمام سیاسی بندیوں کو اپنی رہائی کی شرط کے طور پر ایک بانڈ پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ کیا ان رہائی سمجھوتہ میں نئی پابندی شامل تھی۔ جب دی ٹیلی گراف نے ریاست کے سرکاری وکیل ڈی سی رینا سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ انہوں نے نیا بانڈ دیکھا ہے لیکن پھر بھی اس کوبالکل قانونی بتایا۔