گاندھی کا نظریہ ان کی موت کے بعد بھی سنگھ کے شدت پسند نظریے کے آڑے آتارہا، اس لئے اپنی پہلی مدت کار میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے گاندھی کے سارےاقدار کو طاق پر رکھکر ان کے چشمے کو صفائی مہم کی علامت بناکر ان کو صفائی تک محدود کرنے کی مہم شروع کر دی تھی۔
دو اکتوبر یعنی گاندھی جی کی 150ویں یوم پیدائش کو صفائی مہم کے طور پر محدود کرنے کی مودی حکومت کی کوشش نے مجھے آگاہ کر دیا تھا کہ یہ گاندھی کے نظریات کو محدود کرنے کی بڑی کوشش ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے لگا تھا کہ میرا خدشہ ایک عجلت پسندی ہے۔ کیونکہ بھلےہی سنگھ کا نظریہ گاندھی کے نظریہ کے ایک دم برعکس ہے، لیکن گاندھی ایک ایسی مجبوری ہے جس کو مودی کچھ وقت تو ضرور ڈھوئیں گے۔ اس لئے میں اس موضوع پر مضمون لکھتے-لکھتے رک گیا۔
لیکن میرا یہ اندیشہ زیادہ دن تک اندیشہ نہیں رہا۔ مہاراشٹر انتخابات کی تشہیر کےدوران اچانک ونایک دامودر ساورکر کو بھارت رتن دینے کا راگ چھیڑ کر مودی جی نے اپنےسارے مکھوٹے اتارکر پھینک دیے۔ شاید وہ اب اپنے آپ کو اتنا بڑا اور مستحکم رہنما ماننے لگے ہیں کہ ان کواب گاندھی کے نظریات کو ماننے کا دکھاوا کرنے کی ضرورت نہیں لگتی۔
اسی لئے گاندھی کے یوم پیدائش کے 150ویں سال میں ان کو قتل کرنے والے نظریہ کی علامت کو اعزاز دینے کے لئے وہ انتخابی مدعا بنانے کی جرأت کر پائے۔یہ ان کی اس مہم کا اگلا قدم ہے، جس کے تحت وہ گاندھی کو رواداری اور ہندو-مسلم یکجہتی کی علامت سے اٹھاکر صفائی کی علامت کے طور پر محدود کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ساورکر کو بھارت رتن دینے کا اعلان کر کے انہوں نے یہ بھی بتا دیاکہ ان کے لئے بہادری، راشٹر واد اورحب الوطنی کے کیا معنی ہیں! اور’سب کا ساتھ-سب کا وکاس ‘ کا ان کا نعرہ ایک جملہ بھر ہے۔
ساورکر، گاندھی کے قتل کے ملزم تھے-گاندھی کے قتل کی جانچکر رہے کپورکمیشن نے ان کو اس بات کا قصوروار مانا تھا۔ بی جے پی کے عزت مآب سردار پٹیل (واقعی میں ویسا نہیں ہے، اصل مقصد صرف نہرو بنام پٹیل کی چال چلنا ہے) بھی ان کو قصوروارمانتے تھے۔ خیر، کورٹ میں اپنے آپ کو گوڈسے سے الگ کرکے وہ بچ گئے۔ اس لحاظ سے بھلےہی وہ قصوروار نہ ہوں، لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گاندھی کے قتل کےپیچھے ہندوتوا کا جو نظریہ تھا، ساورکر اس کے سب سے بڑے مریدوں میں سے ایک تھے۔
اتناہی نہیں ساورکر نے انگریزوں سے رحم کی بھیک مانگی تھی۔ ان کو یہ تک کہا تھا کہ ان کو جیل کے باہر رکھنے سے انگریز حکومت کو جتنا فائدہ ہوگا، اتنا ان کو جیل میں رکھنے سے نہیں ہوگا۔ یعنی نہ صرف ان کی بہادری کھوکھلی تھی، بلکہ انہوں نے ملک کے مفاد سے زیادہ انگریزی حکومت کی فکر تھی۔ اصل میں آر ایس ایس ہمیشہ سے گاندھی جی کے ہندو-مسلم بھائی چارہ اور رواداری کے نظریے کا سخت مخالف رہا ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہےکہ گاندھی سے ساری نفرت کے باوجود ان کی پوری طرح سے تردید سنگھ کے لئے ممکن نہیں رہا اور اقتدار میں رہکر تو کبھی بھی نہیں۔
گاندھی کا نظریہ ان کی موت کے بعد بھی ہمیشہ سنگھ کے شدت پسند نظریے کے آڑےآتا رہا، اس لئے اپنی مدت کار کے پہلے دور میں ہی نریندر مودی نے گاندھی کےسارے اقدار کو طاق پر رکھکر، ان کے چشمے کو صفائی مہم کی علامت بناکر ان کوصفائی میں محدود کرنے کی مہم شروع کر دی تھی۔اس کو گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش کے سال میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس بار اس کوسنگل یوز پلاسٹک سے آزاد کرنے کی مہم کی شکل دے دی۔
تشہیر کے نظام پر ان کے قبضے کی طاقت دیکھیے، جس گاندھی نے ہندو-مسلم یکجہتی کے لئے اپنی جان دے دی، اس گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش پر ان کی اس نصیحت اورکام کو یاد کرنے کا کام نہیں ہوا۔ وہ بھی تب جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی!دو اکتوبر کو صبح صبح اپنے موبائل پر ایک پیغام پڑھنے کو ملا۔ لکھا تھا، ‘اس گاندھی جینتی آئیے، باپو کو سمرپت کریں ایک سوچھ بھارت۔ نریندر مودی۔ ‘
اس کے بعد ٹی وی کھولا تو امت شاہ سمیت حکومت کے کئی وزرا کو سوچھ بھارت سنکلپ یاترا میں حصہ لیتے دیکھا۔ اس سب کے باوجود مودی جی اپنی پیٹھ تھپتھپانے سےنہیں چوکے۔انہوں نے اس موقع پر منعقد پروگرام میں کہا باپو کا جو کام آج تک ادھوراتھا، کیسے وہ اس کو پورا کر رہے ہیں۔ اور گاندھی کو جتنی عزت اب مل رہی ہے اتنی گزشتہ 150 سالوں میں نہیں ملی۔
کئی نیوز چینل بھی اس پر دن بھر کے پروگرام کرتے رہے، جس میں کئی ہستیوں کو مدعو کیا گیا اور صفائی کو لےکر ایوارڈ وغیرہ بھی دئے گئے۔ لیکن کسی بھی نیوز چینل نے یہ سوال نہیں کیا کہ گاندھی کے 150ویں سال میں ملک میں ہندو-مسلم کھائی دنوں دن بڑھ کیوں رہی ہے؟ اور کیوں مودی-شاہ ہمیشہ نئے ایسےمدعے چھیڑ رہے ہیں، جو گاندھی کے نظریہ کے ایک دم خلاف ہیں؟ اخباروں نے بھی گاندھی کے اس حصے پر جو خاموشی اختیار کر رکھی تھی، اس کو نہیں توڑا۔ حالانکہ ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر کو دیکھکر خوش گوار خیرت ہوئی۔ اس خبر سےلگتا ہے کہ حکومت سمجھے یا نہ سمجھے مگر کم سے کم اس ملک کے بچے تو اس بات کوسمجھ رہے ہیں۔
اس خبر کا عنوان تھا ‘باپو جب گوڈسے نے آپ پر بندوق تانی، تو آپ کیوں نہیں بھاگے؟ ‘یہ ایک مہم کے تحت گجرات میں اسکول کے بچوں کے ذریعے سابرمتی آشرم کو لکھے پوسٹ کارڈ کا حصہ تھا۔ ان بچوں کا کہنا تھا کہ آج جب چاروں طرف فرقہ وارانہ تشدد، خودکشی اورخواتین پر ظلم بڑھ رہے ہیں، تب گاندھی جی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور ایسی ضرورت کے وقت میں، وہ ان کو چھوڑکر کیوں چلے گئے۔
ان بچوں نے باپو سے کہا کہ وہ ان کے سچ، عدم تشدد اور بھائی چارہ کےراستے پر چلیںگے۔ کلاس 6-8 کے 350 سرکاری اسکولوں میں خط لکھنے والے زیادہ تر بچےغریب تھے۔ آج جب ملک ایک بار پھر ہندو-مسلم کی لائن پر بٹتا دکھ رہا ہے۔ چاروں طرف ڈر، تشدد، دہشت اور فرقہ پرستی کا ماحول پھیلایا جا رہا ہے اور گائے کے نام پرلوگوں کا قتل عام کرنے والوں کو اسٹیٹ کا کھلا تحفظ مل رہا۔ ایسے وقت میں گاندھی کی نصیحتوں کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ساورکر کو بھارت رتن دینے سے تو آگ اور بھڑکےگی۔
گاندھی نے اپنی زندگی میں باہری صفائی سے زیادہ زور ضمیر کی صفائی پر دیا۔وہ ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے خلاف کسی بھی طرح کی عداوت یا میل، چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا ذات کے نام پر ہو، اس کو صاف کر دینا چاہتے تھے۔ہندو-مسلم یکجہتی کی اس کوشش میں آخرکار وہ مارے گئے۔ ان کو مارنے والےکون تھے؟ ان کا تعلق کس گروپ سے تھا؟ وہ معنی نہیں رکھتا۔ ان کو مارنے والے نظریے کی پہچانکر کے اس کی تردید ضروری ہے۔
مالیگاؤں دھماکہ معاملے میں ملزم اور گاندھی کے قاتل گوڈسے کی عزت کرنےوالی پرگیہ ٹھاکر کو پارلیامنٹ میں جگہ دینے کے بعد ساورکر کو بھارت رتن،گاندھی کو چھوٹا کرکے سنگھ کے ہندوتوا کے اس نظریہ کو قائم کرنے کی سمت میں نریندرمودی کا ایک بڑا قدم ہے۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر