فکر و نظر

اگر جے این یو نہیں ہوتا…

گزشتہ دنوں جے این یو میں فیس میں اضافہ کے خلاف طلبا نے احتجاج کیا ۔ بدھ کو شدید احتجاج کے بعد حکومت نے جزوی طور پر ان کے مطالبے کو مان لیا ہے۔جب طلبا احتجاج کررہے تھے تو ا س دوران  بہت سارے لوگوں کا کہنا تھا کہ ٹیکس پیئر کے پیسوں پر جے این یو کے طلبا کو ‘عیش’ کرنے کا موقع کیوں ملے۔لوگو ں کی اس سوچ میں کتنی سچائی ہے ،بتا رہے ہیں جے این یو کے سابق طالب علم اوران دنوں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس میں ریسرچ اسکالر مکیش کلریا۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی(فوٹو : شوم بسو)

جواہر لال نہرو یونیورسٹی(فوٹو : شوم بسو)

جے این یوہونے کامطلب-

 ایک چھوٹے شہرکی محدود آمدنی والی فیملی جہاں اعلیٰ تعلیم کو لےکر کوئی خاص اصرار نہیں تھا اورپڑھائی میں اوسط ہونے کی وجہ سے اسکولی تعلیم ختم کرنے کے بعد گرتے پڑتےفاصلاتی نظام تعلیم سے گریجویشن کرنے کے ساتھ ساتھ، اسکول-کوچنگ میں پڑھاتے ہوئے نو سال گزار دیے اسی امید میں کہ کبھی تو کالج یونیورسٹی جائیں‌گے۔ میری دقتیں بھی سماج کے 80 فیصدلوگوں کی طرح ہی تھیں۔ میری شاید ان سے کم تھی کیونکہ میں آخرکار یونیورسٹی جاپایا، جبکہ ان میں سے زیادہ تر آج بھی محروم ہیں۔

 خراب معاشی حالت کا اکثر لوگ اتناہی معنی نکال  پاتے ہیں کہ پڑھنے کے لئے پیسے نہیں ہوں‌گے،لیکن یہ بھی سوچیے کہ سولہ-سترہ سال کی عمر میں جس کے گھر کی معاشی حالت خراب ہو، اس سے گھر میں نوکری یا کام کرنے کی امید ہوتی ہے اور جو ایسا نہیں کر پاتے ان کو مطلب پرست، غیرذمہ دار اور نہ جانے کیا-کیا کہا جاتا ہے! تو معاشی بحران  کے ساتھ یہ سماجی بحران بھی ہوتا ہے! اسی کشمکش میں تقریباً ایک دہائی بیت گئی۔

 2012 تک آتے آتے ٹھیک ٹھاک نوکری بھی لگ گئی! تب کسی نے جے این یو کے بارے میں بتایا کہ کم پیسے میں یہاں پڑھائی ہوتی ہے، تب تھوڑی ہمت بندھی کہ اس زندگی میں یونیورسٹی جا پاؤں‌گا۔ کچھ وقت لگا، پھر خود کو تیار کرکے ایک مہینے کی چھٹی لےکر تیاری کی! کئی  دوستوں نےدہلی  میں رہنے-کھانے اور کتابوں کے ساتھ تیاری میں کافی مدد کی! جولائی مہینے کی،شاید 12 تاریخ کی شام میں تقریباً سات بجے کے آس پاس میرے پاس دہلی  سے ایک دوست کافون آیا، ‘ہو گیا!!!!! تمہارا سلیکشن ہو گیا!!’

 تب شاید زندگی میں پہلی بار آزادی لفظ کے معنی سمجھ میں آیا! اور اس موقع پر کسی برتری کے احساس میں گم ہوجانے کے بجائے یہ محسوس کیا کہ برابری کا موقع ملنا کتنا خوش کن ہے! غور طلب ہے کہ جے این یو کی ترقی پذیر اور سماجی انصاف موافق داخلہ امتحان پالیسی ذات-طبقہ-زبان-جنس-وطن وغیرہ کو بنیاد بناتے ہوئے سماج کے پچھڑے اور غیر نمائندگی والے طبقے کوترجیح دیتی ہے! جے این یو کا ماحول اس لئے بہترین ہے کیونکہ یہاں ملک کی تنوع کچھ حد تک صحیح معنوں میں منعکس ہوتی ہے!

یہ خواب سچ ہونے جیسا کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔ یہ خواب گڑھنے جیسا عجیب و غریب واقعہ تھا۔یکبارگی ذرا سوچیے کہ ہمارے سماج میں زیادہ تر لوگوں کے لئے جے این یو اپنی تمام دقتوں کے باوجود، ناقابل تصور ہے۔ اس کا مطلب جے این یو کی پڑھائی کم، ہماری  سماجی عدم مساوات سمجھا جائے نہ  کہ اس کو ‘پاورٹی آف امیجی نیشن’کہہ‌کر ہانک دیا جائے۔

 دو سال کاوعدہ کرکے خود سے ایم اے میں آئے، جب آئے تو دل اور دماغ دونو جم گئے جے این یو میں! پہلے ہی دن میں وہ سالوں کی کسک پوری ہو گئی!پھر دو سال ایم فل کی! جم کر سیکھا اور ڈٹ کر لڑا! پڑھائی اور لڑائی کی جوخوبصورت مثال دیکھی، اور ‘لڑو پڑھائی کرنے کو، پڑھو سماج بدلنے کو’ کانعرہ جب ہر دن کلاسز، ڈھابہ، سڑکوں، اور لائبریریوں میں جیا تو سمجھ میں آیاکیونکر تعلیم کو تبدیلی کا باعث  مانا جاتا ہے!

1573455503_JNUprotests-380-ANI

ایک ایسےسماجی خاندانی ماحول سے جس میں اعلیٰ تعلیم کا تصور ڈاکٹر انجینئر کے دائرے سے پارنہیں گیا اور نوکری سے پرے تعلیم کو دیکھنا ایک طرح سے عیاشی اور دور کی کوڑی سمجھا جاتا تھا، جے این یو نے سمجھایا کہ یہ ایک سازش ہے-سماج کے بڑے طبقے کوبرابری اور انسان محسوس نہ ہونے دینے کی، حق کو سمجھنے کی اور جے این یو نے سکھایااس حق کو محسوس کرنے اور اس کے لئے لڑنے کی قواعد سمجھایا!اور لڑنا بھی اس معنی میں کہ، ‘پہلے کی لڑائیوں نے جے این یو کا راستہ پچھڑوں، دلتوں،خواتین، اقلیتوں، آدیواسیوں کے لئے کھولا جس کی وجہ سے ہم آ پائے، اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ جے این یو اس سے بہتر شکل میں آنے والی نسلوں کے لئے قائم رہے ۔’

اس لئے جے این یو سے ہونے کی خوشی ایک بیسٹ یونیورسٹی کاابنائے قدیم ہوکراکڑنے سے زیادہ، جے این یو کو جینے اور اس کو اپنے ساتھ سنجوئے رکھنے میں ہے، شایداسی لئے جے این یو میں پڑھنے کا احساس گھمنڈ نہ دےکر سکون دیتا ہے، اور گاہے بگاہےسماج کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی خواہش-ایک ایسا سماج جس میں ذات، طبقہ،مذہب ،جنس ، زبان کے پرے سب کو برابری کا حق ملے، جس میں سوال اٹھانا ایک استثنیٰ نہیں، بلکہ قاعدہ ہو!

آج کل کے لفظوں میں اپنی فیملی کی پہلی نسل  ہوں، جس نے اعلیٰ تعلیم میں قدم رکھا اور جے این یو سےہونے کی  وجہ سے آگے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ آج کےدور میں جب سیاسی جمہوریت، سماجی جمہوریت کو پالنے کی اپنی تاریخی ذمہ داری کے برعکس اس  کو تباہ کر رہی ہے، جے این یو اس کے سامنے سر اٹھاکر سماجی جمہوریت کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کر رہی ہے، اس کو آئینہ دکھا رہی ہے۔ جے این یو پر حملہ اس امکان کوکچلنے کی کوشش ہے، جس کے لئے بھگت سنگھ لڑے!جے این یو کےاسٹوڈنٹس اس لڑائی کو بخوبی لڑ رہے ہیں! سب کو سلام!!

جیسے پاش نےلکھا-

 ہم لڑیں گےساتھی،

 کہ بنا لڑےکچھ نہیں ملتا!

اسی لئے،ہمیشہ کی طرح-لڑے‌گا جے این یو، جیتے‌گا جے این یو!

اور آخر میں،جے این یو کو بچانے کی اپیل کسی’ خاص ‘نوبل، آئی اے ایس، آئی پی ایس،وزیر، سیاستداں کے بنا پر نہیں، بلکہ عوام کے لئے ہے، جس کا وعدہ ہمارا آئین’ہم، ہندوستان کے لوگ ‘سے کرتا ہے!

(مکیش کلریایونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس، یو ایس اے میں  پی ایچ ڈی اسکالرہیں۔)