خبریں

غیر قانونی طور پر رہ رہے غیر ملکی شہریوں کو رکھنے کے لیے کرناٹک کا پہلا حراستی کیمپ تیار

کرناٹک کے وزیر داخلہ نے اس کو حراستی کیمپ  کہنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے اس لیے تیار کیا گیا ہے تاکہ ملک میں ویزا کی مدت سے زیادہ وقت سے رہ رہے اور نشیلی اشیا کی اسمگلنگ  میں ملوث افریقی شہریوں کو رکھا جا سکے۔

فوٹو بہ شکریہ ، ٹوئٹر @mnakthar

فوٹو بہ شکریہ ، ٹوئٹر @mnakthar

نئی دہلی:شہریت قانون کو لےکر پورے ملک میں چل رہے مظاہروں کے بیچ بنگلور کے قریب سوندیکوپا گاؤں میں کرناٹک کا پہلا حراستی کیمپ(ڈٹینشن سینٹر) بن کر تیار ہو گیا ہے، جہاں غیر قانونی طور پر ہندوستان آنے والے اور رہ رہے غیرملکی شہریوں کو رکھا جائےگا۔سوشل ویلفیئر کے ایک افسر نے بتایا کہ سرکار کی ہدایت پر کئی کمروں، ایک رسوئی اور بیت الخلا کے ساتھ اس حراستی کیمپ کو تیار کیا گیا ہے۔

حالاں کہ، ریاست کے وزیر داخلہ بسوراج بومئی نے ‘حراستی کیمپ’ لفظ پر اعتراض کیا۔صحافیوں سےبات چیت کے دوران انہوں نے کہا تھا، ‘اصولوں کی بنیاد پر بات کریں تو یہ حراستی کیمپ نہیں ہے۔ کسی کو بھی شہریت کے مدعے پر حراست میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔’

انہوں نے اس سے صاف انکار کیا کہ یہ کیمپ چالو ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ سے اس کی تصدیق  کریں۔ کم سے کم مجھے ایسی جانکاری نہیں ہے کہ یہ چالو ہو گیا ہے۔’انہوں نے کہا، ‘یہ چالو ہو گیا ہے تو حراست میں لیے گئے کچھ لوگوں کو وہاں ہونا چاہیے؟ وہاں کوئی نہیں ہے۔’

بومئی کا کہنا ہے کہ اس کو اس لیے تیار کیا گیا ہے تاکہ ملک  میں ویزا کی مدت سے زیادہ وقت سے رہ رہے اور نشیلی اشیاکی اسمگلنگ  میں ملوث افریقی شہریوں کو وہاں رکھا جا سکے۔’

انہوں نے کہا کہ ایسے افریقی شہریوں کی غیرقانونی سرگرمیو ں سے ملک  میں نظم ونسق سے متعلق  دقتیں پیدا ہو رہی ہیں۔انہوں نے کہا، ‘یہ صرف انہیں وہاں رکھنے اور ملک واپس بھیجنے کے لیے ہے۔’وہیں،سوشل محکمہ کے ایک افسر نے پہچان ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ہدایت  ملی ہے کہ ‘سی آرسی’ کو ایک جنوری سے پہلے تیار کر لیا جائے۔

20 سال پرانی یہ عمارت کبھی غریب اور محروم  طبقے کے طلبا کے لیے ہاسٹل ہوا کرتا تھا، لیکن وقت  کے ساتھ ساتھ طلبا کی تعداد کم ہوتی گئی اور پچھلے دو سال سے یہ خالی پڑا تھا۔ اس منصوبہ میں سوشل ویلفیئر محکمہ کو شامل کرنے کی وجہ سمجھاتے ہوئے افسر نے بتایا، ‘حراست میں لیے جانے والے لوگوں کو کھانا، رہنے کی جگہ اور کپڑے محکمہ فراہم کرائےگا۔’

دی ہندوکی رپورٹ کے مطابق،مرکزی حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر رہ رہے غیر ملکی شہریوں کو متعلقہ ایکٹ، 1946 کے آرٹیکل3 (2) (سی) بھیج سکتا ہے۔ اسی طرح آئین  کے آرٹیکل 258 (1) کے تحت ریاستی حکومتوں کو بھی ایسے قدم اٹھانے کے اختیار ملے ہوئے ہیں۔رپورٹ  کے مطابق، اسی کڑی میں مرکزی حکومت نے سال 2009، 2012، 2014 اور 2018 میں سبھی ریاستوں اوریونین ٹریٹری  کو اپنے یہاں حراستی کیمپ  بنانے کی ہدایت دی تھی۔ دہلی میں ایسے تین کیمپ  ہیں۔

واضح  ہو کہ وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعے پورے ملک  میں این آرسی نافذ کرنے کے بیان کے بعد حراستی کیمپ ایک بار پھر سے چرچہ میں آ گئے ہے۔ اپنی شہریت نہ ثابت کر پانے والوں کو ایسے حراستی کیمپ میں رکھا جاتا ہے۔دراصل، گزشتہ اتوار کووزیر اعظم مودی نے دہلی کےرام لیلا میدان میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ ملک  میں ‘حراستی کیمپ’ کو لےکر پھیلائی جا رہی افواہیں سراسر جھوٹ ہیں۔

مودی  نے رام لیلا میدان سے کہا، ‘جو ہندستان کی مٹی کے مسلمان ہیں، جن کے آباواجداد ماں بھارتی کی اولاد ہیں…ان پر شہریت  قانون اور این آر سی، دونوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کوئی ملک کے مسلمانوں کو نہ ڈٹینشن سینٹر میں بھیجا جا رہا ہے، نہ ہندستان میں کوئی ڈٹینشن سینٹر ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے، یہ برے ارادے والا کھیل ہے، یہ ناپاک کھیل ہے۔’

 (خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)