گراؤنڈ رپورٹ : اترپردیش میں بجنور ضلع کے نہٹور قصبے میں شہریت قانون کو لے کر گزشتہ بیس دسمبر کو تشدد کے دوران دو لوگوں کی موت ہوگئی تھی ، جبکہ گولی سے زخمی ایک آدمی کا علاج ہاسپٹل میں چل رہا ہے۔
گزشتہ 20 دسمبر کو روزانہ کی طرح 45 سالہ اوم راج سینی جنگل سے سبزیاں لےکر آئے اور گٹھر کھولکر گھر کے باہر رکھ دیا۔ تھوڑی دورپر گولیاں چلنے اور نعرے بازی کی آوازیں آ رہی تھیں، کیونکہ اس دن اتر پردیش کےبجنور ضلع کے نہٹور قصبے میں بھاری تعداد میں لوگ شہریت ترمیم قانون کےخلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔اسی بیچ سینی اپنے گھر سے اٹھکر ایک مندر کے پاس گئے کہ اچانک سے ایک گولی ان کے پیٹ کو آرپار کرتے نکل گئی اور وہ دھڑام سے وہیں گر گئے۔ان کا بھتیجہ دوڑکر ان کے پاس آیا اور ان کو فوراً گھر لے گیا۔ لوگ سمجھ نہیں پائے کہ اچانک سے یہ کیا ہو گیا۔ سینی اس وقت میرٹھ کے ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں زندگی اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔
اسی دن سینی کے علاوہ دو مسلم نوجوانوں یو پی ایس سی کی تیاری کر رہے سلیمان (21) اور انس (23) کو بھی گولی لگی تھی۔ ان دونوں جوانوں کی موت ہو گئی۔ شروعات میں پولیس گولی چلانے کی بات سے انکار کرتی رہی، حالانکہ بعدمیں انہوں نے مانا کہ سلیمان کو لگی گولی پولیس کے ذریعے ‘دفاع’ میں چلائی گئی تھی۔وہیں بجنورپولیس کا دعویٰ ہے کہ انس اور اوم راج سینی کوجو گولی لگی تھی وہ بھیڑ میں سے کسی آدمی کے ذریعے چلائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پولیس نے مظاہرین پر کی گئی اپنی ‘وحشیانہ ‘ کارروائی کو صحیح ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان کو ان پٹس ملے تھے کہ ضلع کا ‘ فرقہ وارانہ ماحول ‘خراب کرنے کی کوشش کی جانےوالی ہے لیکن پولیس نے مستعدی دکھاتے ہوئے نظم و نسق کو بحال کیا۔
سلیمان اور انس کی موت کے پانچ دن بعد 25 دسمبر کو اے ڈی جی اویناش چندر اور بجنور کے ایس پی سنجیو تیاگی نے ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کےبعد دی وائر سے کہا، ‘بجنور کے آٹھ قصبوں میں ایک ہی وقت پر یہ تماشا ہو رہا تھا۔اس لئے یہ ماننا کہ یہ کوئی اچانک سے ہوا واقعہ ہے، یہ غلط ہے۔ حالات یہاں پرپہلے سے ہی فرقہ وارانہ طورپرحساس ہو گئے تھے۔ ‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر وہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ فرقہ وارانہ ماحول خراب ہونے والا تھا کیونکہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے جلوس نکالا تھا، نہ کہ اس میں ہندو-مسلم کے درمیان کوئی تنازعہ تھا، اس پر تیاگی نے کہا، ‘اوم راج نے ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ انہوں نےکہا ہے کہ ان کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر گولی ماری گئی ہے۔ سینی نے دعویٰ کیا ہےکہ وہ دیکھنےپر بتا بھی دیںگے کہ ان کو کس نے گولی ماری ہے۔ ‘پولیس نے سلیمان اور انس کی لاش نہٹور قصبے میں دفن کرنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔ بعد میں ان کے رشتہ داروں کو دور کے رشتہ دار کے گاؤں میں لاشوں کو دفن کرنا پڑا۔ اس کو بھی صحیح ٹھہرانے کے لئے تیاگی نے ‘فرقہ وارانہ ماحول ‘کا سہارا لیا اور کہا کہ اس لئے اجازت نہیں دی گئی۔
یہ جاننے کے لئے کیا اوم راج سینی کو فرقہ وارانہ بنیادپر گولی ماری گئی تھی، دی وائر نے بجنور سے تقریباً75 کیلومیٹر دور میرٹھ کے ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں اوم راج سینی اور ان کی فیملی سے ملاقات کی۔ہاسپٹل کےایمرجنسی وارڈ میں پورے پیٹ پر پٹیوں سے بندھےہوئے سینی نے بےحد دھیمے سے کہا، ‘ میں نے کسی کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔ لیکن مجھے انصاف چاہیے۔ مجھے جس نے بھی گولی ماری ہے، اس نے صحیح نہیں کیا۔میری زندگی برباد ہو گئی۔ ‘
بغل کے ہی کمرے میں ایک بیڈ پر اوم راج کی بیوی، ان کاچچا زاد بھائی اور کچھ رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے۔ موقع واردات سے اوم راج کو اٹھاکرہاسپٹل پہنچانے والے ان کے بھائی سبھاش سینی نے کہا، ‘ہم نے اب تک کسی کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔ گولی کہاں سے چلی، یہ ہمیں پتہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ہندو-مسلم کا معاملہ نہیں تھا۔ مسلمانوں سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ کاروبار ہوتا ہے۔ ہمارا ایک دوسرے کے یہاں آنا-جانا ہے۔ ‘
سبھاش نے آگے کہا، ‘جس گاڑی سے میں اپنے بھائی (اوم راج) کو لےکر آ رہا تھا اسی میں سلیمان اور انس کی لاش تھی۔ لیکن وہاں پر ان کی فیملی کا کوئی نہیں آ پایا تھا۔ اس لئے ان کی لاش کو سرکاری ہاسپٹل بھیج دیا گیا۔ اگر وقت پر ان کو صحیح ہاسپٹل لے جایا گیا ہوتا تو وہ شاید بچ جاتے۔ ‘اوم راج کی بیوی سدھا دیوی بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھی ہوئیں تھی۔ سوچ اور بے بسی کے ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ سینی کے علاج میں اب تک چار لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔پولیس انتظامیہ سے لےکر تمام پارٹیوں کےبڑے-بڑے رہنما آئے لیکن کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔پیسے کی کمی کی وجہ سے اس واقعہ کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی بھی ٹوٹنے کا امکان جتایا۔
اوم راج کی بیوی سدھا دیوی نے کہا، ‘میرے شوہرکو دیکھنے نہ جانے کتنے مسلمان آ چکے ہیں۔ لوگ ڈھارس بھی بندھا رہے ہیں۔ یہ بالکل بھی ہندو-مسلم معاملہ نہیں تھا۔ ہمیں نہیں پتہ کی گولی کس نے چلائی، لیکن مسلمانوں سے ہماری کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کوئی مقدمہ درج کرایا ہے۔ ‘ دیوی نے کہا کہ جس نے بھی یہ کیا ہے اس کو سخت سے سخت سزا ملے۔ انہوں نے حکومت اور انتظامیہ سے گزارش کی کہ ان کی مالی مدد کی جائےتاکہ وہ کم سے کم اپنی بیٹی کی شادی بچا سکیں۔
اس کے بعد جب دی وائر نے ایس پی تیاگی سے اس ایف آئی آرکی کاپی مانگی، جس کی بنیاد پر وہ ماحول فرقہ وارانہ ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے توانہوں نے کہا، ‘ایف آئی آر کی کاپی سرکاری طور پر نہیں دی جا سکتی ہے۔ ‘بعد میں انہوں نے ایف آئی آر نمبر بتایا لیکن جب یہ نمبریوپی پولیس کی ویب سائٹ پر ڈالکر چیک کیا گیا تو جواب میں آیا ‘ نو رکارڈس فاؤنڈ ‘یعنی کہ اس تعلق سے کوئی دستاویز نہیں ہیں۔یہ سارا واقعہ ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کے یوپی پولیس کے دعویٰ پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔ دی وائر نے اس تعلق سے اور جانکاری حاصل کرنے کے لئے اس دن موقع واردات پر موجود دیگر لوگوں سے بات چیت کی اور شہر کےہندو-مسلمان کے درمیان تعلق کے بارے میں جاننا چاہا۔
شہریت قانون کےخلاف ہوئے تشدد میں پولیس کی گولی سے مارےگئے سلیمان کے گھر سے تھوڑی دور پر بی ایم ایس ڈاکٹر پرمود شرما پچھلے تقریباً35سالوں سے ہاسپٹل چلا رہے ہیں۔ شرما کا تشدد کے دوران مارے گئے سلیمان کی فیملی سےکافی لمبے عرصے سے اچھے تعلقات ہیں اور دونوں کا ایک دوسرے کے یہاں آنا-جانا ہے۔سلیمان کو بےحد ہونہار لڑکا بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہمیں تو یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں یا وہ ہمارےدرمیان رہتے ہیں۔ اس شہر میں ہندو-مسلمان کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ دونوں کمیونٹی میں کچھ غلط یا شرپسند لوگ ہیں، جو ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ ہم ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہم دونوں کو ہی ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ میرے ہاسپٹل میں کئی سارے کمپاؤنڈر مسلمان ہیں۔ اسی طرح یہاں کئی ہندو، مسلمانوں کے یہاں کام کر رہے ہیں۔ مسلمان اسی مٹی پرپیدا ہوا ہے، وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں ہے، وہ یہیں رہےگا۔ ‘
نہٹور میں جہاں تشدد ہوئے وہاں تھوڑی دور پر پرچون کی دکان چلا رہے 50 سالہ راجیندر کمار نے کہا، ‘یہ ہندو-مسلم نہیں بلکہ مسلمان اورانتظامیہ کے درمیان معاملہ تھا۔ یہاں نہ تو ہندو کو مسلمان سے ڈر ہے اور نہ ہی مسلمان کو ہندو سے ڈر ہے۔ سب اپنا-اپنا کام کر رہے ہیں۔ اس دن مسلمان کمیونٹی اورپولیس انتظامیہ کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی، اس میں ہندوؤں کو کسی بھی طرح سےٹارگیٹ نہیں کیا گیا۔ ‘صفائی ملازم سدھیر ورما اور آنند سود نے کہا کہ اس دن پولس نے چاروں طرف دکانیں وغیرہ بند کرا دی تھیں۔ لوگوں کو سڑک پر آنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا،’یہ انتظامیہ اور مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے درمیان کا معاملہ تھا۔ اس میں ہندوؤں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ‘
سلیمان کی موت کو لےکر اے ڈی جی اور ایس پی کے بیان میں فرق
اتر پردیش کی بجنورپولیس اپنی کارروائی اور فائرنگ کوصحیح ٹھہرانے کے لئے جن دعووں کا سہارا لے رہی ہے وہ بالی ووڈ کی کسی فلم کی اسکرپٹ سے کم نہیں ہے۔ سب سے پہلے ایس پی سنجیو تیاگی نے کہا کہ شرپسندوں میں سےکچھ لوگوں نے ہمارے ایک پولیس اہلکار کی بندوق چھین لی اور جب پولیس نے بندوق واپس لینے کے لئے ان کا پیچھا کیا تو سلیمان نے گولی چلائی۔تیاگی کے مطابق بعد میں پولیس نے اپنی دفاع میں سلیمان پرگولی چلا دی اور ان کی موت ہو گئی۔
ایس پی تیاگی نے کہا، ‘آشیش تومر نام کے ایک داروغہ اپنی جیپ لےکر جا رہے تھے تبھی لوگ ان کی پسٹل لےکر بھاگ گئے۔ پھرپولیس فورس پسٹل لینے کے لئے آگے بڑھی۔ تبھی مظاہرین میں شامل سلیمان نے موہت نام کے ایک کانسٹبل کے پیٹ میں گولی ماری، جس میں وہ بال بال بچا۔ پھر موہت نے اپنی دفاع میں گولی چلائی جو کہ سلیمان کو لگی۔ ‘
حالانکہ اسی واقعے پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے اے ڈی جی اویناش چندر نے ایک الگ کہانی بتائی۔ انہوں نے کہا کہ شرپسندوں کی بھیڑ میں شامل سلیمان نےپولیس پر گولی چلائی تھی، جس کے نشانے پر ایس پی سنجیو تیاگی تھے۔ لیکن غلطی سے وہ گولی ایک دوسرےپولیس اہلکار کو جا لگی۔وہیں خود ایس پی تیاگی نے اپنے بیان میں خود پر نشانہ لگانے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔اس کے علاوہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ سلیمان کے پاس بندوق تھی، جس کو بھیڑ اٹھاکر لے گئی۔ حالانکہ سلیمان کے رشتہ داروں نے ان دعووں کو خارج کیا ہے۔ بجنورپولیس نے کہا کہ اس پورے معاملے کی تفتیش کے لئے ایک ایس آئی ٹی بنائی گئی ہے۔
واضح ہو کہ اتر پردیش میں شہریت ترمیم قانون کو لے کرتشدد کے مختلف واقعات میں اب تک 21 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔پولیس کے مطابق، 288پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 61 گولی لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ 327 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ 1113 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ 5558لوگوں کو احتیاطاً حراست میں لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ کےلیے124 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر 19 ہزار سے زیادہ پروفائل بلاک کئے گئے۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ