گراؤنڈ رپورٹ: اتر پردیش کے بجنور ضلع کے نگینہ قصبے میں شہریت قانون کے خلاف 20 دسمبر کو ہوئے مظاہرہ کے دوران تشدد کے معاملے میں پولیس نے کئی نابالغوں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ حراست میں ان کے ساتھ پولیس نے بربریت کی۔
شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران ہوئےتشدد کے معاملے میں اتر پردیش کے بجنور شہر میں پولیس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا، جس میں 13 سال کے ایک بچے سمیت کئی نابالغ بھی شامل تھے۔
نابالغوں اوردوسرے لوگوں کو بجنورپولیس لائن لے جایا گیا تھا، جہاں انہیں بےحد غیر انسانی طریقے سے پیٹا گیا، سردی میں رکھا گیا، کھانا بھی نہیں دیا گیا اور طرح طرح سے انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔
رہا کئے گئے تین نابالغوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے دی وائر کے ساتھ بات چیت میں الزام لگایا ہے کہ پولیس نے حراست کے دوران انہیں بری طرح سے پیٹنے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔
بجنور کے نگینہ قصبے میں گزشتہ 20 دسمبر یعنی جمعہ کو جمعہ کی نمازپڑھنے کے بعد تقریباً300 لوگ شہر کے بیچ میں واقع گاندھی مورتی چوک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ لوگ شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرکےپولیس کو میمورنڈم دینا چاہتے تھے۔
مقامی لوگوں کے مطابق، مول گنج بازار میں پولیس نے مظاہرین کو روکنا شروع کر دیا۔ اسی دوران پولیس سے ان کی جھڑپ ہو گئی۔ لوگ پتھراؤ کرنے لگے اورپولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ اس کے بعدپولیس نے تقریباً 100 لوگوں کو حراست میں لیا اور انہیں نگینہ سے 35 کیلومیٹر بجنور شہر کے سول لائنس لے جاکر رکھا گیا۔
دو دن بعد کل 21 لوگوں کو چھوڑا گیا اور 79 لوگوں کو گرفتار کر کے کل 83 لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ307 سمیت 15 مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔ حراست سے چھوٹ کر آئے بچوں نے دی وائر سےپولیس کی خوفناک بربریت کے بارے میں بتایا۔
نابالغوں اور ان کے خانہ کی سکیورٹی کے مدنظرہم ان کی پہچان ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔
بجنور میں نگینہ قصبے میں ہم تنگ سرنگ نما گلیوں سے ہوتے ہوئے 200 میٹر اندر ٹین کے چھجے والے ایک کچے گھر میں گھستے ہیں تو اپنی ماں کے بغل میں لیٹا ہوا 13 سالہ سلیم (نام بدلا ہوا) رضائی کے اور اندر گھس جاتا ہے اور منھ پوری طرح سے چھپا لیتا ہے۔
کانپتےہوئے سلیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان کی ماں کہتی ہیں،‘ڈرو نہیں، یہ پولیس والے نہیں ہیں۔ صحافی ہیں، تمہارا حال جاننے آئے ہیں۔’
حالانکہ ماں کی یہ باتیں سلیم کو یقین نہیں دلا پاتی ہیں اور وہ رضائی سے باہر نکلنے سے منع کر دیتا ہے۔پولیس کی پٹائی کی وجہ سے سلیم اس وقت ٹراما میں ہے۔
بغل کے ایک کمرے سے جھانک رہی سلیم کی بہن غصے سے کہتی ہیں،‘دیکھ لو کتنا مارا ہے پولیس والوں نے۔ ان کے بچے نہیں ہیں کیا؟ کیا یہ اپنے بچوں کو بھی ایسے ہی پیٹتے ہو ں گے؟ میرا بھائی اتنا ڈر گیا ہے کہ وہ کسی سے ملتا بھی نہیں۔ وہ ٹراما سے نکل نہیں پا رہا ہے۔ رات میں جاگ جاگ کر ڈر کے مارے چلانے لگتا ہے۔’
ماں اپنی بیٹی کو چپ کراتی ہیں اور بےحد اداسی بھرے انداز میں دھیرے سے کہتی ہیں،‘اس دن (20 دسمبر)یہ اپنے چھوٹے بھائی کو کھانا کھلانے کے لیے باہر بلانے گیا تھا۔ اس نے وہاں پر دیکھا تو ہنگامہ ہو رہا تھا، تو یہ ڈر کے مارے بینک کی چھت پر جاکر کھڑا ہو گیا۔پولیس نے دو ڈنڈے مارکر وہاں سے اسے پکڑ لیا۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘میرا بیٹا پیاسا تھا تو پولیس والوں نے اسے پہلے پانی پلایا۔ بعد میں اسے پیشاب لگی توپولیس والے اس بہانے سے باہر لے گئے اور ڈنڈوں سے بہت زیادہ مارا۔ مارتے ہوئے لے گئے اور مارتے ہوئے لےکر آئے۔’
سلیم کی بہن نے اپنی ماں کی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا، ‘انہوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا۔ اس نے امی کو پوری بات نہیں بتائی ہے۔ دو پولیس والوں نے اس کے دونوں ہاتھ دونوں طرف سے پکڑے اور اسے دیوار کی طرف کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد ایک تیسرے پولیس اہلکار نے اسے لاٹھی سے بہت پیٹا۔ انہوں نے اس کا بال پکڑکر کر گھسیٹ گھسیٹ کر پیٹا۔ دوسرے مسلمانوں کا وہ داڑھی کھینچتے تھے۔’
سلیم کے ہاتھ اور پیروں پر الگ الگ جگہ چوٹ کے کئی نشان ہیں۔
یہاں سے نکل کر ہم ایک دوسرے 17 سالہ نابالغ لڑکے سے ملنے گئے جسے حراست میں پولیس کے ذریعے پیٹا گیا تھا۔ غریبی کی وجہ سے ناصر (نام بدلا ہوا) کی کوئی پڑھائی نہیں ہو پائی ہے۔ ناصر کو پتھر توڑنے کا کام کرنا پڑتا ہے اور اس دن وہ اپنے چھوٹے بھائی کو بلانے کے لیے باہر گیا ہوا تھا۔
ناصر نے کہا، ‘یہاں سے ہمیں پولیس والے بس میں بھرکر لے گئے۔ جب وہاں ہم بس سے اتر رہے تھے تو پولیس والوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی اور ہر ایک بندہ ہمیں مار رہا تھا۔ بہت گالی دے رہے تھے۔ ہمیں ایک بڑے ہال میں بےحد سردی میں رکھا گیا اور شادی میں زمین پر بچھائے جانے والی گندے دری کو اوڑھنے کے لیے ہمیں دیا گیا۔’
ناصر نے آگے کہا، ‘انہوں نے ہمیں پانی پلا کر پیشاب کرانے کے بہانے باہر لے جاکر بہت مارا۔ جب دوسرے لوگوں کو پتہ چلا کہ پولیس پانی پلا کر پیشاب کے لیے باہر جانے پر پیٹ رہی ہے تو انہوں نے پانی پینا چھوڑ دیا اور پیشاب روک کر بیٹھے رہے۔’
ناصر نے اپنے پیر اور ہاتھ پر لاٹھیوں کے نشان دکھائے، جو کہ بےحد گہرے تھے۔ ناصر کی چھ سال کی چھوٹی بہن گھر کی چہاردیواری پر بیٹھی ہوئی تھی۔ جب ہم نے اس سے اس معاملے کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی، ‘وہ لوگ بھائی کو لےکر چلے گئے تھے۔ امی رو رہی تھی۔’
پاس میں ہی کھڑے ناصر کے والدہماری بات چیت سن رہے تھے۔ بات کرتے ہوئے وہ رونے لگے اور پھر آنکھ پوچھتے ہوئے کہا، ‘اسے بہت تکلیف جھیلنی پڑی بھیا۔ پتہ نہیں کیوں انہوں نے اسے مارا۔ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آتا۔’ناصر کی چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔
ان الزاموں کو لےکر جب دی وائرنے بجنور ایس پی سنجیو تیاگی سے سوال کیا تو انہوں نے کہا، ‘کیا آپ کے پاس بچوں کو حراست میں لینے کا کوئی ویڈیو ہے؟ حراست میں بچوں کے پیٹے جانے کا کوئی ویڈیو ہے؟’
اس پردی وائرنے پوچھا کہ کیاپولیس لائن میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ ہے، جس کی بنیاد پر یہ ثابت ہو سکےگا کہ بچوں کو پیٹا گیا یا نہیں، اس پر انہوں نے یہ کہا یہ مجھے پتہ کرنا پڑےگا۔
ہم نے انہیں بتایا کہ کئی بچوں نے انٹرویو میں بیان دیا ہے کہ ان کو بےرحمی سے پیٹا گیا ہے اور ہم نے ان کے بدن پر چوٹ کے کئی نشان دیکھے ہیں، اس پر ایس پی تیاگی نے کہا، ‘کیا ان کے پاس اس کی کوئی میڈیکل رپورٹ ہے۔ انہیں سرکاری ہاسپٹل لے جایا گیا تھا یا پرائیویٹ میں۔’
بعد میں ایس پی سنجیو تیاگی نے بچوں کو پیٹنے کا الزام مظاہرین کے ہی سر مڈھ دیا۔ انہوں نے کہا، ‘بھیڑ ہر کسی کو پیٹ رہی تھی۔ انہوں نے بچوں کو بھی پیٹا بھی ہوگا۔’
اس معاملے کو لےکر کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر تیاگی کہا، ‘آپ نے بتا دیا ہے، ہم دیکھیں گے۔’
گرفتار لوگ شدید طورپر زخمی ، ان کو طبی سہولیات نہیں مل رہی
دی وائرنے نگینہ سے اس وقت جیل میں بند چار لوگوں محمد ذیشان، دلشاد، عادل اور آفتاب کے اہل خانہ سے بات کی، جنہوں نے اپنی آپ بیتی بیان کی۔ ان سبھی کی عمر 20-25 سال کے بیچ ہیں۔ پوری کمیونٹی میں ڈر کا ماحول ہے۔ اس میں سے کوئی مزدوری کرتا ہے، کوئی لکڑی کا کام کرتا ہے، کوئی مسالے بیچتا ہے یا کوئی سبزی بیچتا ہے۔
اہل خانہ نے بتایا کہ جیل میں کوئی بھی طبی سہولت نہیں ہے۔ کئی لوگ شدید طورپر زخمی ہیں۔ کچھ سماجی تنظیمیں جیل میں دوائیاں پہنچا رہی ہیں لیکن قیدیوں کوسہولت نہیں دی جا رہی ہیں۔
عادل اور آفتاب کے والد محمد شاہ ظہیر نے ڈرتے ڈرتے کہا، ‘صرف ایک ہی بار ہمیں ملنے دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کو تو اب تک ملنے نہیں دیا گیا ہے۔ 24 گھنٹے میں ایک بار کھانا دیتے ہیں۔ ہم اپنی طرف سے وہاں دوائیاں دےکر آئے ہیں۔ پتہ نہیں وہ لوگ دیں گے بھی یا نہیں۔’
ذیشان کے والد نے کہا، ‘ہم اپنے گھر کی خواتین کو جیل میں اپنے بچوں کو دکھانے نہیں لے جا رہے ہیں۔ وہ ان کی چوٹوں کو برداشت نہیں کر پائیں گی۔ ماں تو ماں ہوتی ہے، کوئی ماں اپنے بچہ کو اتنی غیر انسانی حالت میں نہیں دیکھ سکتی ہے۔’
نگینہ میں گرفتار کئے گئے لوگوں کو چھڑانے میں اہل خانہ کی مدد کر رہے میونسپل کارپوریشن کی چیئرمین طاہرہ بیگم کے بیٹے شاہ نواز نے کہا، ‘ان مظاہرین کو عوام نہیں سمجھا گیا، انہیں تو دوسری نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ بہت زیادتی کی ہے انہوں نے (پولیس)۔ہیومن رائٹس بھی کوئی چیز ہوتی ہے یا نہیں۔’
مقامی لوگوں کے مطابق، جمعہ کو جمعہ کی نمازکے وقت جامع مسجد پر بڑی تعدادمیں لوگ اکٹھا ہوئے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے جمیعۃ نے شہریت قانون کے خلاف پرامن مظاہرہ کا اعلان کیا تھا اور انتظامیہ سے مظاہرہ کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت توپولیس انتظامیہ نے کچھ نہیں بولا لیکن جمعرات کی رات 10 بجے اچانک آکر انہوں نے مسلم مذہبی رہنماؤں کو بتایا کہ مظاہرہ کی اجازت نہیں دی جائےگی، لیکن عام م لوگوں تک یہ بات پہنچ نہیں پائی کہ پولیس نے مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
لوگوں نے بتایا کہ اب جب اگلے دن جمعہ کی نماز کے وقت تقریباً 10-12 ہزار لوگ اکٹھا ہوئے تو کمیونٹی کے بزرگ لوگوں، آرگنائزرس اور مسلم مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کو حالاتکے بارے میں سمجھایا اور قریب قریب سبھی لوگوں کو واپس ان کے گھروں کی طرف بھیجا۔
مقامی لوگوں کے مطابق، لیکن کچھ نوجوانوں نے مظاہرہ نہیں ہونے کو بڑے لوگوں کی طرف سے دھوکہ سمجھا۔ اس کے نتیجے میں تقریباً300 لوگوں نے مطابق گاندھی مورتی چوک کی طرف جانا شروع کیا لیکن بیچ میں ہی پولیس نے انہیں روکا۔ دونوں میں جھڑپ ہوئی اورپولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔
گرفتار لوگوں کو رہا کرانے میں مدد کر رہے مقامی وکیل سعید نے کہا، ‘معاملہ کچھ نہیں تھا۔ اگرپولیس انہیں روکتی نہیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ بس گاندھی مورتی چوک تک جاکر میمورنڈم دینا چاہتے تھے۔’
شاہنواز یہ مانتے ہیں کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو پوری طرح سے اس قانون کے بارے میں جانتا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ‘سی سی اے اور این آرسی کو اگر جوڑکر دیکھتے ہیں تو وہ مسلمانوں کے لیے صحیح نہیں ہے۔ ان میں خوف ہے کہ اس کی وجہ سے وہ شہریت کھو سکتے ہیں۔’
بجنور کے ایس پی سنجیو تیاگی اس مظاہرہ کو مفتی، مولاناؤں کی وعدہ خلافی مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘یہ سب منظم طریقے سے ہوا ہے۔ کچھ بھی اچانک نہیں تھا۔ شہر کے علماؤں نے پرامن ماحول بنائے رکھنے کو کہا تھا۔ لیکن وعدہ خلافی تو ہوئی ہے۔’
اتر پردیش کے مختلف حصوں میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرہ سے متعلق درج کی گئی ایف آئی آر میں ہزاروں نامعلوم لوگوں کے نام شامل کئے جا رہے ہیں۔ نگینہ میں ہی 100-150 لوگوں کو نامعلوم کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ ایسا ڈر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ کل کو اگر کوئی آواز اٹھانے کی کوشش کرے توپولیس فوراًان کا نام اس میں ڈال دیں۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ