جو لوگ جنرل سلیمانی کو سنیوں کا دشمن اور عرب مخالف قرار دیتے ہیں، ان کےلیے عرض ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کے بعد جب اسامہ بن لادن کے مرشد الولید، اسامہ کی فیملی اور دیگر لیڈروں کے لیے پناہ گاہیں تلاش کررہے تھے، تو دسمبر 2001 میں انہوں نے ایرانی سرحد پر دستک دی، جہاں جنرل سلیمانی نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔
امریکی ڈرون حملوں میں ایرانی ملٹری کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں برسرپیکار شعیہ عسکری گروپ حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہد المہندس کی ہلاکت اور اس کے جواب میں عراق میں موجود دو امریکی اڈوں پر ایرانی میزائلوں کی بارش نے مشرق وسطیٰ کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا کرکے رکھ دیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ فی الحال جنگ کے باد ل چھٹ گئے ہیں، مگر دونوں فریق ایک طویل خفیہ اور اعصابی جنگ لڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ یوکرین کے مسافر بردار طیارہ کو نشانہ بنانے اور اس کے مسافروں کی ہلاکت نے ایران کو شرمندگی سے دوچار تو کردیا ہے، مگر یہ بھی دکھا دیا کہ ایسے حالات میں صرف ٹکنالوجی پر ہی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر سے مغربی ایشیائی خطے میں خاص طور پر عراق، لبنان اور خود ایران کے اندر تہران حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ایک ماحول سابن گیا تھا۔
عراق اور لبنان میں عوام، فرقہ بندی سے اوپر اٹھ کر غیر ملکی خصوصاً بے جا ایرانی مداخلت پر چراغ پا تھے۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ حکومتیں بدعنوانی میں ملوث ہونے اور نااہلیت کے باوجود بس ایرانی شہ پر اقتدار میں جمی ہوئی ہیں۔ جب جنرل سلیمانی کے قا فلے پر بغداد ایئر پورٹ کے نزدیک حملہ کیا گیا، اس سے چند گھنٹہ قبل وہ عراق کے عبوری وزیر اعظم عاد ل عبد المہدی کے ساتھ ملک میں جاری مظاہروں سے نپٹنے اور متبادل حکومت پر گفت و شنید کر کے ایک پلان لےکر تہران لوٹ رہے تھے۔ خیر سلیمانی کی ہلاکت کے بعد یہ مظاہرے بھی فی الحا ل بند ہو گئے ہیں۔ شاید جنرل سلیمانی جو کچھ زندہ رہ کر نہیں کر پائے وہ ان کی ہلاکت نے کرکے دکھایا۔ خطے میں خاص طور پر شام، لبنان اور عراق میں ایرانی مفادات کے خلاف جو رائے عامہ بن گئی تھی، اس کا بہاؤ راتوں رات امریکہ کے خلاف ہو گیا۔
گو کہ شام کے حلب اور القصیر شہروں پر فوجی آپریشن میں جنرل سلیمانی کے براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے وہ شامی پناہ گزینوں کےلیے خوف و دہشت کی علامت بن چکے تھے۔ ان شہروں میں ہوئے انسانی المیوں اور قتل عام کے لیے وہ جنرل سلیمانی کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرا کر ان کو ایک جنگی مجرم کے طور پر یاد کرتے تھے۔ مگر پھر بھی متعدد شامی پنا ہ گزین امریکہ کے ذریعے ان کی ہلاکت پر نالاں تھے۔ بتایا جاتاہے کہ ادلیب میں بھی حالیہ دنوں میں ترکی اور روس کے مابین جنگ بندی معاہدہ کے باوجود سلیمانی کی شہ پر ہی بمباری اور ناکہ بندی کی جا رہی تھی، جس سے اس علاقے سے ایک بار پھر بڑی تعداد میں لوگوں کا انخلا ء ہو رہا تھا۔
افسانوی کردار کے حامل جنرل سلیمانی کے کارنامے ایران کی فوجی تاریخ میں ایک درخشان باب کی حثیت اختیار کرچکے ہیں۔وہ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی حلقوں میں شمار کئے جاتے تھے۔جو لوگ ان کو سنیوں کا دشمن اور عرب مخالف قرار دیتے ہیں، ان کےلیے عرض ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کے بعد جب اسامہ بن لادن کے مرشد الولید، اسامہ کی فیملی اور دیگر لیڈروں کے لیے پناہ گاہیں تلاش کررہے تھے، تو دسمبر 2001 میں انہوں نے ایرانی سرحد پر دستک دی، جہاں جنرل سلیمانی نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ مارچ2002میں عرب سنی انتہا پسند تنظیم القاعدہ کے اراکین کےلیے انہوں نے نے افغان سرحد سے متصل ایک پناہ گاہ بنائی تھی۔ بعد میں ان میں سے اکثر پناہ گزینوں کو تہران منتقل کر دیا۔خواتین اور بچوں کو تہران کی طالقان شاہراہ پر واقع ہوزیہ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔
جبکہ دیگر افراد کو اسی شاہراہ کے دوسری طرف عامر ہوٹل میں منتقل کیا گیا۔ ان کے پرمٹ اور دیگر کاغذات بنائے گئے، جن میں ان کی شناخت عراقی شیعہ پناہ گزینوں کے طور پر کی گئی۔ان میں امریکیوں کو انتہائی مطلوب سیف العادل بھی تھے۔جس نے 1998میں مشرقی افریقہ میں امریکی سفارت خانہ کو نشانہ بنایا تھا۔2005تک القاعدہ کے چوٹی کے لیڈران ایران میں ہی مقیم رہے۔ بعد میں ان میں سے چار لیڈران کو انتہائی خفیہ مشن کے ذریعے دمشق پہنچایا گیا۔ جن میں اسامہ کے بیٹے حمزہ کے والد نسبتی ابو محمد المصری بھی شامل تھے۔ حمزہ بن لادن کی فیملی بھی ایران کی ہی پناہ میں تھی۔
اسامہ بن لادن کے نیٹ ورک پر مبنی تحقیقی کتاب The Exile کے مصنف اور مشہور تفتیشی صحافی ایڈرین لیوی کا کہنا ہے، کہ ان کے پاس القاعدہ لیڈران کے خطوط، دیگر کمیونی کیشن اور انٹریوز کی صورت میں شواہد کا ایک ذخیر ہ موجود ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے، کہ 9/11کے فوراً بعد ہی القاعدہ کے جنرل سلیمانی کے ساتھ روابط قائم ہوچکے تھے۔ امریکی انتظامیہ اسامہ بن لادن، اس کے افراد خانہ اور دیگر راہنماؤں کے ٹھکانوں سے پوری طرح باخبر تھی۔ مگر اس نے ان کو نشانہ بنانے یا گھیرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ بجائے ان کے نام پر غیر متعلق علاقوں یعنی افغانستان اور پاکستان پر بم برسائے گئے اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے اور القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں عراق پر فوج کشی کرکے اس کو تباہ و برباد کیا گیا۔ امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ2002 میں ہی القاعدہ اور اس کی ملٹری کونسل کے اراکین اور اسامہ بن لادن کی فیملی کوحراست میں لےکر القاعدہ کے سربراہ کو منظر عام پر آنے پر مجبور کرسکتے تھے۔
امریکیوں کو معلوم تھا، کہ ان میں سے اکثر اس وقت ایران میں موجود تھے۔ مگر صدر بش نے دیگر سیاسی اہداف حاصل کرنے لئے اس کو عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا۔چند برس قبل عراق کے دورہ کے دوران مجھے داعش کے ساتھ برسر پیکار عراق کی نیم فوجی رضاکار تنظیم حشدالشعبی کے کمانڈروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ کربلا میں روضہ حضرت امام حسین کی بغل میں السفیر ہاسپٹل میں زیر علاج حشد کے ایک زخمی سپاہی عادل فوزی نے بتایا کہ اس نے صلاح الدین صوبہ کے ایک فرنٹ کی نگرانی کرتے ہوئے بچشم خود امریکی جہازوں کو داعش کے علاقوں میں ہتھیار گراتے ہوئے دیکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایک جہاز پر فائر بھی کھولا۔ فوزی کی دونوں ٹانگیں ناکارہ ہو چکی تھیں۔ مگر چند روز بعد بغداد میں حشد کے ہیڈکوارٹر میں کمانڈر کریم النوری ہمیں بتا رہے تھے کہ تقریباً 5000 امریکی اور 300 ایرانی فوجی ماہرین ان کے عسکریوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔ جب ہم نے ان سے فوزی کے دعویٰ کے بار ے میں استفسار کیا اور جاننا چاہا کہ کیا یہ اس طرح کا کیس نہیں ہے، جہاں امریکی ایک طرف حشد کو تربیت دے رہے ہیں، تو دوسری طرف آپ کے دشمنوں کوہتھیار دے رہے ہیں، وہ بس بغلیں جھانکنے لگے۔
القاعدہ کے لیڈروں کو پناہ دینے اور امریکہ کو برانگیخت کرنے جیسے امور کے حوالے سے ایران کے اعتدال پسند صدر محمد خاتمی (1997-2005)اور جنرل سلیمانی کے درمیان خاصے اختلافات رہے۔ مگر نہ صرف ملٹری بلکہ سفارتی امور پر بھی اکثر مواقع پر جنرل سلیمانی کی رائے ہی حرف آخر سمجھی جاتی تھی۔ 2005میں بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے اجلاس میں جب ہندوستان نے ایران کے خلاف ووٹ دیا، تو تہران میں ایک کہرام مچ گیا تھا۔ ایرانی سفارت کاروں نے حکومت کو بتایا تھا کہ ہندوستان زیادہ سے زیادہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہےگا۔ ایرانی افسران کا خیال تھا کہ مارچ 1994ء میں جموں کشمیر میں حقوق انسانی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے جس طرح ایران نے ہندوستان کو اقتصادی پابندیوں سے بچایا تھا،ہندوستانی مندوب اس احسان کو بھول نہیں پائے ہوں گے۔ مگر امریکہ کے ساتھ چونکہ اس وقت جوہری ڈیل زیر بحث تھی، اس لئے نئی دہلی نے تہران کے ساتھ دوستی کو قربان کردیا۔
تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے 1994 ء میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن (بعد میں اس کو کونسل میں تبدیل کیا گیا) میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ہندوستان کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں ہندوستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔ مگر اس دوران کوہ البرزکے دامن میں واقع تہران ایئر پورٹ پر شدید سردی میں ہندوستانی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پر لینڈنگ کی۔ یہ طیارہ اس وقت کے وزیر خارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروں کو انتہائی خفیہ مشن پر لے کر آیا تھا۔ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہاسپٹل میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔
وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کا اہم خط لے کر آئے تھے اور ذاتی طور پر ان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ سوئے اتفاق کہ ‘راجہ صاحب‘ دنیش سنگھ کا یہ آخری سفارتی دورہ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری میں ہندوستان کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی۔ اقتصادی صورت حال انتہائی خستہ تھی، حتیٰ کہ سرکاری خزانہ بھرنے کے لئے حکومت نے اپنا سارا سونا بیرونی ملکوں میں گروی رکھ دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ راؤ نے عندیہ دیا تھا کہ اگر اس مشکل گھڑی میں ایران،ہندوستان کی لاج رکھتا ہے اور مغربی ممالک کی مداخلت رکوانے میں مدد کرتا ہے تو ہندوستان جلد ہی کشمیر کے مسئلہ کے حتمی حل کے لیے اقدامات اٹھائے گا۔2005 میں تہران کے ہندوستانی مشن میں ڈیفنس صلاح کار بریگیڈیر ایل سی پٹنایک کے مطابق سلیمانی،جو خود بھی اس وقت بریگیڈیر تھے، نے ہندوستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں پیدا کشیدگی کو کم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مغربی ایشیاء میں جنرل سلیمانی نے ملٹری اور انٹلی جنس کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا تھا۔ عراق میں حشدالشعبی کی صورت میں ایک لاکھ کے قریب جنگجو اور لبنان میں حزب اللہ کی صورت میں ایک مؤثر عسکری تنظیم ان کے زیر اثر تھی۔ ان کے جانشین کےلیے اس خلا کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن لگ رہا ہے۔ عراق میں شیعہ لیڈر مقتدا الصدر اور ایران کے حامی لیڈران کے درمیان چپقلش منظر عام پر آچکی ہے۔ ایران کےلیے اطمینان کی وجہ یہ ہے کہ 1990اور 2003کے خلیجی جنگوں کے برعکس اس وقت اس کے ہمسایہ ممالک میں خطے میں کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا ہے۔
ایران کے آس پاس 11ممالک میں امریکی فوجی مستقر ہیں۔ ان میں خاص طور پر ترکی، قطر اور کویت نے اعلانیہ طور پر امریکہ کو بتایا کہ جنگ کی صورت میں یہ تینوں ممالک اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ عمان، بحرین اور حتیٰ کہ متحدہ امارات اور سعودی عرب نے بھی جنگ سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور اس نے کشیدگی کو کم کرنے کا عندیہ دیا۔ ویسے بھی مغربی ایشیا میں کشیدگی کا براہ راست خمیازہ جاپان، چین اور ہندوستان کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ ممالک اس خطے سے سب سے زیادہ تیل اٹھاتے ہیں۔ امریکہ پچھلے چند سالوں سے مڈل ایسٹ سے تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں خریدتا ہے۔ وہ اپنی انرجی کی ضروریات اب ناروے، روس اور داخلی سورسز سے حاصل کرتا ہے۔
Categories: فکر و نظر