خبریں

پی ایم او نے خود کہا تھا کہ این پی آر کے ساتھ آدھار ضرور جوڑا جانا چاہیے

خصوصی رپورٹ:د ی وائر کے ذریعے حاصل  کئے گئے سرکاری دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 15 اپریل 2015 کو وزیراعظم  نریندر مودی کے اس وقت کے چیف سکریٹری نرپیندر مشرا کی صدارت میں ایک میٹنگ  ہوئی تھی، جس میں آدھار جاری کرنے، این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ آدھار نمبر کو جوڑ نے اور وقت قت  پر این پی آر میں آدھار نمبر اپ ڈیٹ کرنے کو لے کر چرچہ کی گئی تھی۔

نریندر مودی، فوٹو: پی ٹی آئی

نریندر مودی، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:این پی آر کے لیے آدھار نمبر ‘لازمی’ کرنے کی سفارش صرف وزارت داخلہ نے ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم دفتر(پی ایم او)نے بھی کی تھی۔ تقریباً پانچ سال پہلے ہی 2015 میں پی ایم او نے کہا تھا کہ این پی آر کے ساتھ آدھارکو لازمی طورپر جوڑا جانا چاہیے۔

دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے سرکاری دستاویزوں سے اس کا انکشاف ہوتا ہے۔ 15 اپریل 2015 کو وزیر اعظم نریندر کے اس وقت کےچیف سکریٹری نرپیندر مشرا کی صدارت میں ایک بیٹھک ہوئی تھی جس میں آدھار جاری کرنے، این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ آدھار نمبر کو جوڑ نے اور وقت وقت  پر این پی آر میں آدھار نمبر اپ ڈیٹ کرنے کو لےکر چرچہ کی گئی تھی۔

اس میٹنگ میں آدھار بنانے والی ایجنسی یوآئی ڈی اےآئی کے ڈائریکٹر جنرل ،ڈی بی ٹی (Direct Benefit Transfer)کے مشن ڈائریکٹر، اس وقت ہندوستان کے رجسٹرار جنرل سی چندرمولی، وزیر اعظم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری پی کے مشرا سمیت کئی ہائی پروفائل افسران موجود تھے۔


یہ بھی پڑھیں: تقریباً 60 کروڑ آدھار نمبر پہلے ہی این پی آر سے جوڑے جا چکے ہیں


دی وائر نے اس میٹنگ کے منٹس حاصل کئے ہیں۔ منٹس کے مطابق غور وفکرکے بعد یہ فیصلہ لیا گیا، ‘غیراین آرسی والی  ریاستوں میں این پی آر کے آدھار سے جوڑ نے کی کارروائی جولائی، 2015 سے ضرور شروع کر دی جانی چاہیے۔ اس کام کے لیے مشترکہ طور پر ڈی بی ٹی کے مشن ڈائریکٹر، ہندوستان  کے رجسٹرار جنرل اور یوآئی ڈی اے آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے ذریعے تجویز تیار کی جائے۔’

حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اپریل، 2020 سے این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے فیصلے میں پی ایم او کے اس فیصلے کو نمایاں طورپر ترجیح دی گئی ہے۔ وزارت داخلہ نے اس کو اس فائل کا حصہ بنایا ہے جس کی بنیاد پر اس سال این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فائل پر ‘بہت ضروری’ مارک کیا گیا ہے۔

منٹس کے مطابق یوآئی ڈی اے آئی اور ہندوستان کے رجسٹرار جنرل سے کہا گیا کہ وہ اپنی کوششوں کو اور تیز کریں اور جون، 2015 کے اواخرتک نامزدگی کا عمل پورا کریں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ تیزی سے کام کرنے کے لیے وزیر اعظم کی طرف سے وزرائے اعلیٰ  کو خط بھیجا جا سکتا ہے۔

میٹنگ کے منٹس میں لکھا گیا، ‘وزیر اعظم  کی جانب سے وزیر اعلیٰ کوخط لکھا جا سکتا ہے جس میں سست رفتاری کاذکر کرتے ہوئے طے شدہ مدت کے اندر کارروائی کو پورا کرنے میں مدد کرنے کی  اپیل کی گئی ہو۔’

اس میں آگے لکھا گیا، ‘جولائی 2015 سے ریاست/یونین ٹریٹری باقی بچے معاملوں کو نپٹانے میں ‘چیلنج موڈ’اپنا سکتے ہیں۔’اسی میٹنگ میں ہندوستان کے رجسٹرار جنرل سے کہا گیا تھا کہ وہ آسام کے لیے این آرسی کا روڈمیپ تیار کر کے اس پر رپورٹ دیں۔

وزیر اعظم دفتر نے یہ بھی کہا تھا کہ یوآئی ڈی اے آئی اور این پی آر کی حصولیابیوں کو لےکر یوآئی ڈی اےآئی کے ڈائریکٹرجنرل اور ہندوستان کے رجسٹرار جنرل کے ذریعے ایک نوٹ تیار کیا جائے اور اس نوٹ کو پی ایم او کے جوائنٹ سکریٹری اوروزارت اطلاعات ونشریات کے سکریٹری کے پاس بھیجا جائے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے اس وقت کے چیف سکریٹری نرپیندر مشرا کی صدار میں ہوئی میٹنگ کے منٹس

وزیر اعظم نریندر مودی کے اس وقت کے چیف سکریٹری نرپیندر مشرا کی صدار میں ہوئی میٹنگ کے منٹس

میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا، ‘مئی 2014 سے حصولیابیوں کو لےکر ڈی بی ٹی کے ایم ڈی اسکالر شپ پر اور یوآئی ڈی اے آئی اور این پی آر کی حصولیابیوں کو لےکر یوآئی ڈی اےآئی کے ڈائریکٹرجنرل اور ہندوستان کے رجسٹرار جنرل ایک نوٹ تیارکر کے اس کو پی ایم او کے جوائنٹ سکریٹری اوروزارت اطلاعات و نشریات کے سکریٹری  کے پاس بھیجیں۔’


یہ بھی پڑھیں:وزارت داخلہ نے اکتوبر 2019 میں این پی آر کے لیے آدھار نمبر لازمی کرنے کی تجویز دی تھی


واضح ہو کہ اس وقت این پی آر میں آدھار جوڑ نے کو لےکر تنازعہ چل رہا ہے۔ وزارت داخلہ نے یقین دلایا ہے کہ جس کے پاس آدھار نمبر نہیں ہوگا انہیں ایسے دستاویزدینے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔ حالانکہ بالواسطہ طورپراس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباًسبھی لوگوں کو آدھار دینے ہو ں گے کیونکہ تقریباً124 کروڑ لوگوں کو آدھار نمبر جاری کئے جا چکے ہیں اور ملک  کی آبادی  بھی اتنی ہی ہے۔

حکومت کی ان یقین دہانیوں پرسنگین سوال کھڑے کرتی دی وائر کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ حاصل کئے گئے سرکاری  دستاویزوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وزارت داخلہ نے اکتوبر 2019 میں این پی آر کے لیے آدھار نمبر لازمی کرنے کی تجویزپیش کی تھی۔ حکومت اس قدر بےقرار تھی کہ اس نے لازمی طورپرآدھار اکٹھا کرنے کے لیے آدھار قانون یاشہریت  قانون میں بھی ترمیم کی تجویزرکھی تھی۔

اسی بات کو لےکر لوگوں میں اب بھی تشویش قائم ہے۔ اس سے پہلے دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ این پی آر، 2020 کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ہی تقریباً60 کروڑ آدھار نمبر کو این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے۔ یہ تعدادکل جاری کئے گئے آدھار نمبر کا لگ بھگ 50 فیصدی ہے۔ یہ آدھار نمبر سال 2015 میں پی ایم او کے فیصلے کے بعد این پی آر سے جوڑے گئے تھے۔

خاص بات یہ ہے کہ دسمبر 2017 میں رجسٹرار جنرل کے دفتر نے این پی آرسے ڈیٹاشیئرکرنے کے ریاستی حکومتوں مطالبے کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس کے لیے وجہ دی گئی تھی کہ اس سے پرائیویسی کےتحفظی کی فکرہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت کے پاس ان اعداد وشمار کا ایکسیس ہے۔

ریاستوں نے مستفید کو فلاحی منصوبوں کی ادائیگی کا بہتر مینجمنٹ کرنے کے لیے ڈیٹا مانگا تھا، کیونکہ آدھار کے برعکس این پی آر فیملی اورکاروبار ی تفصیل سمیت کسی فرد کے بارے میں زیادہ جانکاری فراہم کرتا ہے۔

این پی آر کی شروعات 2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار کے ذریعے کی گئی تھی۔ اس کے پائلٹ پروجیکٹ کی تیاری دو سال پہلے شروع ہوئی تھی جب شیوراج پاٹل (22 مئی 2004 سے 30 نومبر 2008)اور پی چدمبرم (30 نومبر، 2008 سے 31 جولائی، 2012) وزیر داخلہ تھے۔