فیک نیوز راؤنڈ اپ:عام آدمی پارٹی نے جس وقت امیدواروں کی اصل فہرست عام کی تو ان کا فرض تھا کہ بی جی پی کے فرقہ وارانہ موقف کے خلاف اتنا ضرور لکھ دیتے کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کے امید واروں کی فہرست میں اکثریت مسلمانوں کی ہے تو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ اور اس کو پاکستان یا افغانستان سے جوڑنا غلط اور آئین کے خلاف ہے۔
دہلی میں انتخابات کا دور ہے اور سیاسی جماعتوں کا پرچار زوروں پر ہے۔ عام آدمی پارٹی کی گزشتہ پانچ سال کی فلاحی سرگرمیوں کے مدنظرفسطائی پارٹی بی جے پی دہلی میں اپنے مستقبل کو لےکر فکر مند ہے اس لیے فرقہ وارانہ تقریروں، فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کا سہارا لے رہی ہے۔ غور طلب ہے کہ بی جی پی اور ملک کی دوسری فسطائی جماعتوں کے سیاسی لیڈر اس وقت دہلی میں موجود ہیں اور اپنی پرچار ریلیوں میں فرقہ وارانہ زہر گھول رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اس پرچار کے دو پہلو نمایاں ہوئے جن میں ایک عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈہ کو عام کرنا اور دوسرا، شہریت قانون کے مظاہرین کے خلاف فیک نیوز کو عام کیا جانا۔ بلا شبہ، یہ کام سوشل میڈیا پر فسطائی آئی ٹی سیل کے تعاون سے انجام دیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ٹوئٹر اور فیس بک پر ایک اخبار کی کترن وائرل کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 8 جون 1987 کو دی ٹیلی گراف اخبار میں شائع خبر کے مطابق اروند کیجریوال پر ایک دوشیزہ کے ساتھ ریپ کرنے کا الزام ہے۔ کیجریول اس وقت مبینہ طور پر کھڑگپور میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک شب جب وہ کسی پارٹی میں شرکت کرنے گئے تھے تو واپس ہاسٹل نہیں آئے۔ اخبار کی اس کترن میں لکھا ہے کہ ہاسٹل کے وارڈن کیجریوال کے قدم سے حیران تھے۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ اخبار کی مذکورہ بالاکترن جھوٹی ہے اور اس کو ایک ویب سائٹ fodey.com پر ایک آن لائن سافٹ وئیر کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کترن کو پہلی نظر میں دیکھنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے کیوں کہ خبر کی زبان اور لہجہ خامیوں سے بھرا ہے۔ الٹ نیوز نے اسی ویب سائٹ پر اسی طرح کی ایک کترن بنائی جس میں مختلف مواد لکھا اور کترن پر اخبار کا نام آلٹ نیوز ٹائمز رکھا۔ اس کترن کے حاشیوں پر بھی وہی عبارت موجود تھی جو ٹوئٹر پر عام کی گئی کترن میں تھی۔اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سوشل میڈیا میں عام کی گئی خبر کی کترن جھوٹی تھی۔
اس کے علاوہ بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج اور فیک نیوز کی اشاعت میں مشہور نام امت مالویہ نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ویڈیو میں کسی شخص کو اروند کیجریوال کے سامنے ماب لنچ کیا جا رہا ہے اور کیجریوال ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے صرف تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کیجریوال جیسے غیر ذمہ دار شخص کو وزیر اعلیٰ کے سرکاری دفتر میں نہیں ہونا چاہیے۔امت مالویہ کا اشارہ اس جانب تھا کہ اروند کیجریوال غیر ذمہ دار شخص ہیں اور ان کو دہلی کا چیف منسٹر منتخب کرنا ٹھیک نہیں۔
AAP workers indulge in brutality, lynch a man in Arvind Kejriwal’s road show, who remains a mute spectator, doesn’t intervene, goes around his program as if nothing is happening…
Is this man even fit to be in public life let alone occupy a public office?pic.twitter.com/baYVtrY7Qi
— Amit Malviya (@amitmalviya) January 31, 2020
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو پرانا ہے۔ 4 مئی 2019 کو کیجریوال دہلی کے موتی نگر میں ریلی کر رہے تھے۔ اس وقت کسی شخص نے اسی ریلی میں ان کو تھپڑ مار دیا۔اس وقت وہاں ہنگامہ ہو گیا اور ریلی میں موجود لوگوں نے تھپڑ مارنے والے شخص کو پکڑ لیا۔ مکمل ویڈیو کو ہندوستان ٹائمز اخبار نے اپلوڈ کیا تھا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ امت مالویہ نے الزام لگایا تھا کہ کیجریوال کے سامنے ایک شخص کو ‘لنچ’ کر دیا گیا۔ لغت میں لنچ کا معنی کسی شخص کو کسی مبینہ جرم کی بنا پر بغیر عدالتی ٹرائل کے قتل کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی شخص لنچ نہیں ہوا تھا۔ امت مالویہ صرف جھوٹ عام کر رہے تھے تا کہ ان کی پارٹی کو اس کا سیاسی فائدہ حاصل ہو۔
بی جے پی اور اس کے سوشل میڈیا ٹرولز نے کیجریوال مخالف ایجنڈہ کو فرقہ وارانہ رنگ بھی دیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر عام آدمی پارٹی کے امید واروں کی ایک مبینہ فہرست عام کی گئی جس میں اکثریت مسلم نام والے امید واروں کی تھی۔ وشو ہندو مہاسنگھ نامی فیس بک پیج سے اس فہرست کو جاری کرتے ہوئے لکھا گیا،
یہ دہلی کی لسٹ ہے یا لاہور کی؟ عام آدمی پارٹی نے دہلی ودھان سبھا کی پہلی لسٹ جاری کی۔ کیجریوال عرف کیجر الدین دہلی کو پاکستان بنانا چاہ رہے ہیں، سب آپ کے سامنے ہے۔
فیس بک اور ٹوئٹر پر متعدد صارفین نے اس فہرست کو شئیر کیا اور اس موقف کی تائید کی جس کی بنیاد مسلمان ہم وطنوں کے لئے بے انتہا نفرت پر ہے۔
عام آدمی پارٹی کی آئی ٹی سیل کے انچارج انکت لعل نے 14 جنوری کو ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے دہلی انتخابات کے لئے عام آدمی پارٹی کے 70 امید واروں کی فہرست عام کی۔
Final list of MLA candidates for the 70 seats of Delhi assembly.
Best of luck to each of them.
The team will work hard to ensure victory for each of them. pic.twitter.com/jmEuOW589f
— Ankit Lal (@AnkitLal) January 14, 2020
آلٹ نیوز نے اس فہرست کا موازنہ وائرل کی گئی فہرست سے کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وائرل فہرست میں صرف آٹھ امید واروں کے نام صحیح تھے، باقی نام فرضی تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فرضی لسٹ 11جنوری سے ہی وائرل ہو رہی تھی جس میں یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ عام آدمی پارٹی کے امید واروں کی فہرست میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ عام آدمی پارٹی کے انکت لعل نے جس وقت اصل فہرست عام کی تو ان کا فرض تھا کہ بی جی پی کے فرقہ وارانہ اور موقف کے خلاف اتنا ضرور لکھ دیتے کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کے امید واروں کی فہرست میں اکثریت ہندوستانی مسلمانوں کی ہے تو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔اور اس کو پاکستان یا افغانستان سے جوڑنا غلط اور آئین مخالف ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں عام آدمی پارٹی کی عوامی فلاحی سرگرمیوں میں سرکاری اسکولوں کی بحالی اور ان کے معیار میں اضافہ کرنے کا عمل فہرست میں سب سے پہلے آتا ہے۔ لیکن بی جے پی کے لیڈران اپنے ٹوئٹ اور تقریروں میں دہلی کے سرکاری اسکولوں کو ہی نشانہ بناتے نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی تمام باتیں جھوٹی ثابت ہو رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے بی جے پی ایم پی گوتم گمبھیر نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے حالات بہت خراب ہیں۔ گمبھیر نے ویڈیو کے ساتھ لکھا تھا کہ الیکشن حقیقت کی بنیاد پر لڑے جانے چاہیے:
They say fight the election on education, I say fight the election on truth! pic.twitter.com/ay4KduhKO1
— Gautam Gambhir (@GautamGambhir) January 27, 2020
گمبھیر کے ٹوئٹ کا مفہوم یہ تھا کہ کیجریوال نے دہلی کے سرکاری اسکولوں کی کوئی ترقی نہیں کی ہے۔اور اپنے جھوٹ کی بنیاد پر وہ ووٹ مانگ رہے ہیں۔
صحافی ادے رانا سنگھ نے اپنے ٹوئٹ میں واضح کیا کہ جس اسکول کا ویڈیو گوتم گمبھیر نے ٹوئٹ کیا ہے، اس کی عمارت زیر مرمت ہے، اور اس وقت اسکول قریب میں ہی ایک کالونی میں لگ رہا ہے جس میں درس و تدریس کا کام زوروں پر ہے۔
The video that @GautamGambhir put out, claiming poor infrastructure in Delhi schools, doesn't stop to focus on this notice posted on the gate of this Delhi government school. On 9th October 2019, this school was shifted to another makeshift location. #BattleForDelhi @CNNnews18 pic.twitter.com/2xAyF516jO
— Uday Singh Rana (@UdaySRana) January 28, 2020
صحافی نے بتایا کہ گمبھیر کے ویڈیو میں سب سے پہلے اسکول کے دروازے کو ہی دکھایا گیا ہے جس پر ایک نوٹس لگا ہوا ہے۔ اس نوٹس میں عوام الناس کو مطلع کیا گیا تھا کہ یہ اسکول قریب کی کالونی میں لگےگا۔ اس طرح گوتم گمبھیر کا پروپیگنڈہ نا کامیاب رہا۔