ذرائع نے بتایا کہ اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے کونسل کی منتقلی کے لئے گزشتہ سال پی ایم او کو خط لکھا تھا ، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ کونسل اقلیتوں سے متعلق کام کررہی ہے اس لیے اس کو ان کی وزارت (اقلیتی امور)کے تحت لایا جانا چاہیے۔اس کے بعد کئی دانشور وں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ، اردو کو صرف مسلمانوں سے جوڑنا غلط ہےاور ہم اس طرح کی کسی بھی تبدیلی کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔
نئی دہلی : وزیر اعظم دفتر(پی ایم او)قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یوایل )کو وزارت تعلیم سے وزارت برائے اقلیتی امورکے تحت لانے کی درخواست پر غور کر رہا ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس پر فیصلہ لیا جائےگا۔د ی ٹیلی گراف کی ایک خبر کے مطابق، سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے کونسل کی منتقلی کے لئے گزشتہ سال پی ایم او کو خط لکھا تھا ، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ کونسل اقلیتوں سے متعلق کام کررہی ہے اس لیے اس ادار ےکو ان کی وزارت (اقلیتی امور)کے تحت لایا جانا چاہیے۔
اس کے بعدپی ایم او نےایچ آر ڈی سے رائے طلب کی تھی، جس نے بعد میں کونسل اور این سی ای آر ٹی جیسے اداروں سے رائے طلب کی ۔ ذرائع نے بتایا کہ ان آراء کی بنیاد پر ، ایچ آر ڈی نے اس قدم کی مخالفت کی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ پی ایم او جلد ہی فیصلہ لے گا۔کونسل کے ڈائریکٹر ، عقیل احمد نے اس بات کی تصدیق کی کہ کونسل سے اس تجویز پر رائے مانگی گئی تھی، لیکن این سی پی یو ایل نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔اب حکومت مناسب فیصلہ کرے گی۔
حالاں کہ اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے اس معاملے پر بولنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، میرے پاس تبصرہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ذرائع نے بتایا کہ ، وزارت نے ایچ آرڈی کے ذریعے نافذ کی جانے والی اقلیتوں کی فلاح وبہبود سے متعلق تعلیمی منصوبوں کی منتقلی کی بھی مانگ کی ہے۔دریں اثناٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کئی دانشوروں نے کہا کہ ،اردوکو صرف مسلمانوں کے ساتھ جوڑناغلط ہے اور ہم ایسی کسی بھی تبدیلی کی پرزورمخالفت کرتے ہیں ۔
اردو کے معروف نقاد اور دانشورگوپی چند نارنگ نے اس اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ،اگر اردو کو خالصتاً مسلمانوں کی زبان مان لیا جائے تواس سے ہندوستان کی یکجہتی کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ ، اردو میں لکھنے والےمتعددقلمکارہندو ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو ،ہندی اور فارسی کا ایک بہترین امتزاج ہے۔نارنگ نے زور دے کر کہا کہ اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں اور آئین میں اس کو 22 قومی زبانوں کے ساتھ شامل کیا گیاہے۔ انہوں نے کہا ، ماضی میں اس زبان کو ہندوستانی کہاجاتا تھا ، جس کو مہاتما گاندھی بھی قومی زبان کی حیثیت سے چاہتے تھے۔
نارنگ نے مزید کہاکہ ، امیر خسرو (1253-1325)کو اردو کا پہلا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ خسرو نے اپنی شاعری ہندی اور فارسی کے امتزاج میں تشکیل دی ، جس کو وہ ہندوی زبان کہتے ہیں۔ یہ ہندی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ بعد میں ، شاہ جہاں کے دور میں ، اس کو ہندوستانی یا اردو کہا گیا۔ نارنگ نے کہا ، چندر بھان برہمن شاہ جہاں کے زمانے میں اس زبان کے ایک مشہور شاعر ہوئے ہیں۔
نارنگ نے کہا کہ ،اس زبان کو مغلوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ لیکن یہ ایک لشکری زبان ہے جس کو ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر تشکیل دیا ہے۔ دراصل ، اردو کا 70 فیصدی حصہ ہندی ہے۔ اردو اور ہندی میں ایک ہی جیسے حرف ہیں۔ زبانی روایت دونوں زبانوں میں یکساں ہیں۔وہیں معروف اردو اسکالر اطہر فاروقی نے کہا کہ، زبان کے قومی کردار کے پیش نظر اردو کے فروغ کے لیے ایچ آر ڈی منسٹری ہی سب سے اچھی جگہ تھی۔
جموں یونیورسٹی کے پروفیسر سکھ چین سنگھ نے اس اخبار کو بتایا کہ ، اردو کو اقلیتوں کی زبان سمجھنے کی کوئی منطق مجھے نظر نہیں آتی۔ اردو صرف اقلیتوں کی زبان نہیں ہے۔ اگر اردو میں میر حسن ہیں تو پنڈت دیاشنکر نسیم بھی ہیں۔
Categories: خبریں