ادبستان

کون ہے ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ؟‘ اگر کوئی ہے، تو حکمراں پارٹی ہے: نصیر الدین شاہ

خصوصی انٹرویو: گزشتہ  دنوں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ بھاٹیا کے ساتھ بات چیت میں معروف فلم اداکار نصیرالدین شاہ نے سی اے اے-این آر سی-این پی آر کے خلاف جاری احتجاج اورمظاہرہ، فرقہ پرستی کے عروج اور دیگراہم مسائل پرانڈسٹری کے نامور ہستیوں کی خاموشی اوردوسرے کئی اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا۔

 نصیرالدین شاہ(فوٹو : دی وائر)

نصیرالدین شاہ(فوٹو : دی وائر)

دی وائر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اداکار نصیرالدین شاہ نے سی اے اے-این آر سی اوراین پی آر کے خلاف جاری  مظاہرہ، فرقہ پرستی کے عروج اوردیگراہم مسائل پرانڈسٹری کی  خاموشی کے ساتھ مختلف موضوعات پربات کی۔

شاہ کی فیملی الگ الگ وقتوں میں ہندوستانی فوج اور حکومت ہند میں انتظامیہ کے مختلف عہدوں پر رہی ہے۔ اپنی پوری زندگی میں ان کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ مسلمان ہونا کسی بھی طرح سے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب ان کو ہروقت ان کی اس پہچان کی یاد دلائی جاتی ہے، جو کافی تشویش ناک ہے۔

مکمل بات چیت پیش خدمت ہے۔

 سدھارتھ: نصیرالدین شاہ-تھیٹر اداکار، ہدایت کار، فلمسازاور بلاشبہ فلم اداکار بھی، جن کا ان شعبوں میں 45 برسوں سے زیادہ کا تجربہ ہے۔شاہ نہ صرف ایک تخلیقی شخص ہیں، بلکہ صاحب رائے شہری بھی ہیں، جنہوں نے کئی مواقع پر اپنی بات کہنے سے گریز نہیں کیا ہے۔ نصیر دی وائر کے ساتھ جڑنے اور ہمیں یہ انٹرویو دینے کے لئے آپ کا شکریہ۔

اس وقت ملک میں کافی انتشار ہے۔ آپ شہریت قانون (سی اے اے) اوراین آر سی کے خلاف شہریوں کا احتجاج دیکھ رہے ہیں۔ آپ خواتین کو اپنے گھروں سے نکلتے اور کئی دنوں سے شاہین باغ میں دھرنا پر بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ اور اب طلبا سڑکوں پر ہیں جو تعلیمی اداروں کی تباہی کی عبارت لکھنےوالی سرکاری پالیسیوں اورا قدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایک طرح کےاسٹیٹ کے تشدد کے باوجود لوگوں کا سڑکوں پر اترنا جاری ہے اوراسٹوڈنٹ  رہنماؤں کو پیٹا گیا ہے…

نصیر:…اور ان پر تشدد کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

 سدھارتھ :اور ان پر تشدد کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، لیکن ا ن باتوں نے کسی کےجوش کو کم نہیں کیا ہے۔ آپ اس کو کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟ اور اچانک ایسا کیا ہواہے، جس نے لوگوں کو اس طرح سے باہر نکالا ہے۔

 نصیر: نوجوان اچانک بیدار ہوگیا ہے اور بےساختہ اس کو یہ احساس ہوا ہے کہ ان کو کچلا جا رہا ہے۔ آج ہی میں اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ تعلیمی بجٹ میں 30000 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی ہے اور ہم ہیں کہ پھر سے این آر سی کرنے جیسی چیزوں میں خرچ‌کر رہے ہیں، جو حکمراں جماعت کے مطابق ہی پوری طرح سےناکام ہو گیا کیونکہ اس نے لاکھوں ہندوؤں کو بھی شامل کر دیا۔

 سدھارتھ : صحیح کہہ رہے ہیں۔

نصیر:‘ارے نہیں!یہ صحیح نہیں ہو سکتا ہے۔’مطلب آپ اس پوری بےمعنی قواعد کو پھر سے کرنا چاہتے ہیں۔ اور تب انہوں نے یقینی طور پر بچ نکلنے کے لئے سی اے اے کے طور پر ایک چور-راستہ تیار کیا ہے، جس کے مطابق اگر آپ غیرمسلم ہیں، توآپ شہریت کے لئے عرضی دے سکتے ہیں اور آپ کو شہریت عطا کی جائے‌گی۔

 احمد آباد میں ہوئے ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

احمد آباد میں ہوئے ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

 سی اے اے میں پہلی خامی ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھاگیا ہے، جو حیران کن نہیں ہے، لیکن مجھے یہ قطعی امید نہیں تھی کہ مرکزی حکومت یہ اتنا کھلےعام کرے‌گی۔جس چیز کی طرف لوگوں کی نظر گئی ہے وہ اس کا کہیں گھناؤنا پہلو ہے :اس کےمطابق استحصال صرف اسلامی ممالک میں ہی ہوتا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان-میانمار کا کوئی ذکر نہیں، سری لنکا کا کوئی ذکر نہیں۔ ‘مسلمانوں کے پاس جانے کےلئے 15 ملک ہیں، ہندوؤں کے پاس صرف ہندوستان ہے۔ ‘

آپ اپنی معمولی ملکیت کے ساتھ جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ایک مہاجر سے، جو اپنی ساری جائیداد اور ویسی ہر چیز جس سے وہ پیار کرتا تھا، ان کو پیچھے چھوڑ‌کرآنے کے خوف سے نکلنے اور سرحد کو پار کرنے کی کوشش کر رہا ہے…آپ اس سے جدہ کے لئے ٹکٹ بک کرانے کی امید کرتے ہیں؟ آپ اس سے یو اےای یا ایسی  ہی کوئی اورجگہ جانے کی امید کرتے ہیں؟

اور یہ چھٹنی جان بوجھ کر کی گئی ہے۔ میں یہ ایک مسلمان کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں، کیونکہ میں نے کبھی بھی خود کو ایک مسلمان کے طور پر نہیں دیکھا ہے۔

سدھارتھ : آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو کبھی نہیں بتایا گیا…

 نصیر: یہ کبھی بھی میرے راستے کی رکاوٹ نہیں رہا ہے۔ میرے بھائی نے پوری زندگی فوج میں اپنی خدمات انجام دی۔ ایک بھائی نے کارپوریٹ میں نوکری کی۔ میرےابا سرکاری نوکری میں تھے۔ میرے کئی چچا فوج میں تھے۔ بھائی اور چچا پولیس میں تھے، کئی اور سرکاری ملازم تھے، ڈپٹی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اسی طرح سے…

 ہم میں سے کسی نے بھی ہمارے مسلمان ہونے کو کسی طرح کی رکاوٹ کے طور پرمحسوس نہیں کیا ہے۔ اور میرے ذہن میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ تو میں یہ ایک مسلمان کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں اور سچائی یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی مخالفت نہیں کر رہے ہیں-بلاشبہ، آسام میں لوگ الگ وجہ سے مخالفت کر رہےہیں۔ ہندی پٹی میں ان کی مخالفت کی وجہ الگ ہے-لیکن میں یہ ایک مسلمان کے طور پرنہیں، بلکہ ایک فکرمند شہری کے طور پر کہہ رہا ہوں۔

اور اس کے جس گھناؤنے پہلو کے بارے میں میں بات کر رہا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ استحصال صرف مسلم ممالک میں ہی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ان کو پتہ ہے کہ فسادات کے پیچھے کون ہیں،’آپ ان کے کپڑے سے ان کو پہچان سکتے ہیں’… جب مرکز میں وزیر ہیں جو کہتی ہیں کہ ‘ دیپکاپڈوکون ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں، جو ہندوستانی  فوجیوں کی ہلاکت پر جشن برپاکرتےہیں-کیا یہ کوئی ہندی فلم چل رہی ہے؟

اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ ان کو فوجیوں کے احترام کے بارے میں بات کرنےکا کوئی حق ہے۔ وہ خود ایک ایسی ہستی  ہیں، جنہوں نے جنگ میں حصہ لینے والے ایک انعام یافتہ سابق فوجی کی توہین کی تھی، جو تب لونگےوالا میں جنگ لڑ رہا تھا، جب وہ شاید بےحد چھوٹی تھیں۔

 سدھارتھ : اور آپ کن کی بات کر رہے ہیں، وہ کون ہیں؟

نصیر: میں ایک سبکدوش لیفٹننٹ جنرل کی بات کر رہا ہوں، جو ہندوستانی فوج میں ڈپٹی چیف کے عہدے تک پہنچے۔ وہ ایسے شخص کی توہین کرنے سے پہلے دو بار نہیں سوچیں گی۔ وہ فوج کے لئے احترام کی بات کر رہی ہیں؟معاف کیجئے‌گا میڈم، آپ کو فوج کے احترام کی بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی جو پوری مہم چلائی جا رہی ہے اور لگاتارجو پاکستان سے رشتہ نکالا جاتا رہتا ہے…ایسا لگتا ہے کہ اس حکومت کو پاکستان سےبہت زیادہ پیار ہے۔

سدھارتھ : جو ہندوستانی مسلمان کو یقینی طور پر نہیں ہیں۔

 نصیر:اور ایسا بتایا جاتا ہے کہ ہم سب اس دشمن ملک کے تئیں ہمدردی رکھتےہیں۔

سدھارتھ : لیکن آپ نے ایک یا دو بار یہ کہا کہ آپ بطور مسلمان بات نہیں کررہے ہیں۔ آپ کو ایسا کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا کچھ بدل گیا ہے کوئی چیزجس کا احساس آپ اچانک کر رہے ہیں یا آپ کو بتایا جا رہا ہے؟

 نصیر : مجھے لگتا تھا کہ میرا پاسپورٹ، میری ووٹر آئی ڈی، میرا ڈرائیونگ لائسنس، میرا آدھار کارڈ مجھے ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہوگا۔

کیا یہ سچائی کہ میری پانچ نسلیں اس مٹی میں دفن ہیں، میں نے اپنی زندگی کے 70 سال یہاں گزارے ہیں، میں نےایجوکیشن یا ماحولیات جیسے سماجی موضوعات  کے میدان میں جہاں تک ممکن ہے ملک کی خدمت کی ہے…اگر یہ سب میری ہندوستانیت کو ثابت نہیں کرتاہے، تو پھر یہ کیسے ثابت ہوگا؟ اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ میرے پاس برتھ سرٹیفکیٹ ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ میں اس کو پیش کر سکتا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ بہت سے لوگ ایسا کر سکتے ہیں۔

 کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم سبھی کو باہر کر دیا جائے‌گا؟ مجھے ایسی کسی یقین دہانی کی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں فکرمند نہیں ہوں۔اگر 70 برسوں  تک یہاں رہنا اس کو ثابت نہیں کرتا ہے، اور اپنی صلاحیت میں جتنا بن سکے اتنا کرنا اگر مجھے ہندوستانی ثابت نہیں کرتا ہے، تو مجھے نہیں پتہ ہے کہ یہ اور کیسے ثابت ہوگا۔

میں ڈرا ہوا نہیں ہوں، میں بےچین نہیں ہوں-مجھے اس بات کا غصہ ہے کہ ایساقانون ہم پر تھوپ دیا گیا ہے۔

 سدھارتھ : ظاہری طور پر یہ یہ غصہ سڑکوں پر چھلک رہا ہے اور آپ اس کودیکھ رہے ہیں۔ اب حکومت کہہ رہی ہے کہ سی اے اے انسان پرستی کے سچے جذبے کےمطابق ہے اور این آر سی پر توبات تک نہیں ہوئی ہے۔

 نصیر: وزیر داخلہ بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اس کو ملک بھر میں نافذکیا جائے‌گا۔ ‘ایک ایک کرکے نکالیں‌گے اور کیڑے اور دیمک اور یہ اور وہ…’اور اس کے بعد وزیر اعظم طیش میں آکر یہ کہتے ہیں کہ ‘ایسا تو ہوا ہی نہیں کبھی بھی’-میرا کہنا ہے کہ آخر کون یقین کرے‌گا؟ یہ سیموئیل بیکیٹ کے ڈرامےجیسا ہو گیا ہے۔ یہ پوری طرح سے بےتکا ہوتا جا رہا ہے… جس طرح کی دلیل  پیش کی جا رہی ہے …’ کیااپوزیشن اس کے پیچھے ہے؟ ‘

اگر اپوزیشن اتنے سارے لوگوں کی صف بندی کی اہل تھی، تو کیا انہوں نے انتخاب میں بہتر مظاہرہ نہیں کیا ہوتا؟ اور طلبا کے لئے بے عزتی کاتاثر… جو بات مجھے سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے، وہ ہے طلبا کمیونٹی کی توہین، دانشوروں کی توہین۔

 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی دہلی پولیس کی کارروائی کے بعد یونیورسٹی گیٹ پر مظاہرہ کرتے طلبا(فوٹو :پی ٹی آئی)

15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی دہلی پولیس کی کارروائی کے بعد یونیورسٹی گیٹ پر مظاہرہ کرتے طلبا(فوٹو :پی ٹی آئی)

سدھارتھ : آپ کو کیا لگتا ہے، ایسا کیوں ہے؟

 نصیر : مجھے لگتا ہے کہ ایسے لوگ جن کو یہ پتہ نہیں ہے کہ اسٹوڈنٹ ہوناکیسا ہوتا ہے، ایسے لوگ جن کا کوئی دانشورانہ ہدف نہیں رہا، وہ طلبااور دانشوروں کو کیڑے-مکوڑے کی ہی طرح دیکھیں‌گے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے دل میں طلبا کے تئیں کوئی احساس نہیں ہے… وہ کبھی اسٹوڈنٹ نہیں رہے ہیں۔

 ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کا ایک ویڈیو کلپ ہے، جس میں وہ کہہ رہےہیں، ‘ میں نے تو پڑھائی-وڑھائی کی نہیں۔ ‘اس وقت اس کو بے حدپیارا اور معصوم  ماناگیا تھا۔ لیکن پچھلے چھ سالوں میں جو ہوا ہے، اس کی روشنی میں، ان کے اس بیان نےبےحدڈراؤنا معنی اختیار کر لیا ہے …اس کے بعد ویسے انہوں نے علم سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لی ہے۔

سدھارتھ: انٹائر پالیٹکل سائنس…

نصیر: انٹائر پالیٹکل سائنس …جس کودیکھنے میں انوراگ (کشیپ)کی کافی دلچسپی ہوگی۔ تو، کبھی بھی اس کمیونٹی کا حصہ نہیں ہونے کی وجہ سے، جو خود کو اس ملک کےمستقبل کے لئے ذمہ دار سمجھتی ہے، جس میں اس کو زندگی گزارنی ہے…آپ ان سےطلبا کے لئے کسی احساس کی امید کیسے کرتے ہیں۔

اور دستاویزی ثبوت، ویڈیو ثبوت ہونے کے بعد دہلی پولیس کی کرتب بازی جس میں زخمی لوگوں پر ہی الزام لگا دیا گیا… جبکہ ان طلبا کے ذریعے کسی پر حملہ کرنےکا ایک بھی شاٹ یا ایک بھی تصویر نہیں ہے آپ کے پاس صرف طلبا پر حملہ کئےجانے کی تصویریں ہیں، آپ صرف یوپی پولیس کے ذریعے راہ گیروں کی پٹائی کرنے کی تصویریں دیکھتے ہیں…آپ صرف یہ سنتے ہیں کہ چھ سال پہلے مر چکے لوگوں پر ایف آئی آردرج کیا گیا ہے …یہ کافی تشویشناک ہے۔

 سدھارتھ: جب آپ طلبا کو سڑکوں پر اترتا ہوا دیکھتے ہیں ہیں…جے این یو سے پہلے، ظاہری طور پر جس کو موجودہ اقتدار مختلف وجہوں سے ناپسند کرتی ہے، جامعہ لائبریری کے اندر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندر بھی اس طرح کی کارروائی کی گئی اور حکومت طلبا کے خلاف کافی بےرحمی کے ساتھ پیش آئی…آپ نے بیچ-بیچ میں احساس لفظ کا استعمال کیا احساس چھوڑیے، اس کے علاوہ بھی چیزیں موجودہ ماحول میں نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

 نصیر: بالکل۔اگر اقتدار کے اندر کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سی اے اےمخالف مظاہرین کو گولی مار دیں‌گے، اگر آپ مودی کے خلاف مظاہرہ کریں‌گے تو ہم تم کو زندہ گاڑ دیں‌گے-میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہم اس کی مذمت کر رہے ہیں؟ یعنی اگرآپ مذہب کے خلاف کچھ کہتے ہیں تو آپ کو سزائے موت دے دی جاتی ہے… آپ حکمراں جماعت کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، اور اگر آپ کچھ کہتے ہیں تو آپ کو سزائے موت دے دی جائے‌گی؟

 اور کوئی بھی کارروائی نہیں کرتا ہے۔ ان لوگوں کو ایسی بات کہنے کے لئےپھٹکار بھی نہیں لگائی جاتی ہے۔ یہ ایک عام سچائی ہے کہ خود وزیر اعظم ٹوئٹر پرنفرت پھیلانے والے لوگوں کو فالو کرتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، یہ صرف ان کومعلوم ہے۔ جاہل ٹرولوں کی یہ فوج جو بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے لئے کام کرتی ہے،چاروں طرف یہ نفرت پھیلا رہی ہے اور یہ حیران کن ہے، یہ چکرا دینے والا ہےکہ آخر یہ سب آیا کہاں سے۔

 شاید اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نوجوان نہیں ہے، بلکہ میری نسل کے یا اس سےایک یا دو دہائی جوان نسل میں سے ہیں، جو بچپن میں سنی گئی باتوں کی یادداشت سےمتاثر ہیں۔بچپن میں میں نے ہندوؤں اور سکھوں کو لےکر نفرت والی کہانیاں سنی تھیں۔میں 1949 میں پیدا ہوا تھا۔ مجھے پکا یقین ہے کہ سکھ بچوں نے مسلمانوں کو لےکرنفرت والی کہانیاں سنی ہوں گی۔ کچھ وقت تک یہ ہم پر چھایا رہا اور اسکول کے دنوں میں ہم ایک دوسرے کی طرف گالیاں اچھالا کرتے تھے۔ لیکن کبھی بھی اس حد کو پارنہیں کیا گیا۔

 مجھے یاد نہیں ہے کہ مذہب کو لےکر میرا کسی سے جھگڑا ہوا ہو جبکہ ‘ تم نےمیرا کرکٹ بلا چوری کر لیا’، تم نے میرا کرکٹ بال کا استعمال کیا، ایسی چیزوں کو لےکر میرے کئی جھگڑے ہوئے۔

سدھارتھ :… اور کبھی بھی امتیازی سلوک کا احساس نہیں ہوا۔

 نصیر: ہاں، کبھی بھی امتیازی سلوک کا احساس نہیں ہوا، جبکہ مذہب کولےکر طعنے دیے جاتے تھے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہمارے دل میں یہ چیزیں اٹکی رہ گئی ہیں۔تقسیم نے ہمارے ابا کی نسل کو جو زخم دیے اس نے کہیں نہ کہیں ہمیں متاثرکیا ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری نسل ختم ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے اور ایک ایسی نسل سامنے آ رہی ہے، جس پر اس یادداشت کا زخم نہیں ہے۔

 سدھارتھ : نہیں، لیکن میں یہ کہنا چاہوں‌گا کہ ایک پروپیگنڈہ بھی چلایا جا رہا ہے…اس طرح سے آپ کے پاس ایک ایسی نسل بھی ہو سکتی ہے، جو اس پروپیگنڈہ کے ساتھ بڑی ہو رہی ہے۔

نصیر: مجھے لگتا ہے وہ نسل ڈھل رہی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ایک نسل ہے، جوپروپیگنڈہ پر پل رہی ہے اور ایک وہ ہےجو پروپیگنڈہ پھیلا رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ نوجوان نسل ذی فہم ہے اور رومیوا سکواڈ چاہے جو کہے یا کرے، وہ زیادہ سے زیادہ ایک مقصد کے ساتھ آگے آ رہے ہیں، جو نہ تو ہندو ہے اور نہ مسلمان۔

زیادہ سے زیادہ بچوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ بین مذہبی شادی…یہ سچائی ہے کہ میری بیوی ایک ہندو ہے اور اس کی کئی دوست مخلوط شادی والی ہیں …اورمیرا بیٹا جب پہلی بار ایک برابر والے مذہب کی شادی شدہ جوڑی سے ملا تو اس نے کہا،’ اوہ!ایک ہندو کی شادی ہندو سے ہوئی ہے… یہ کافی دلچسپ ہے۔ ‘

یہ تب کی بات ہے، جب وہ 5 سال کا تھا۔ تو مجھے لگتا ہے کہ یہ نسل اس بوجھ سے آزاد ہے اور یہ ا ن پر ہے کہ وہ اس لڑائی کو جاری رکھیں…

سدھارتھ : اس نسل نے، اگر ہم خاص طور پر فلم انڈسٹری کو لیں، تو جو کچھ چل رہا ہے، اس کو لےکر کافی مخالفت، حکومت کی مخالفت، اصل میں نوجوان اداکاروں، نو جوان ہدایت کاروں، نوجوان کہانی کار کی طرف سے آیا ہے۔

 نصیر: ان لوگوں کے پاس زیادہ حوصلہ اور خود کو ثابت کرچکی ہستیوں کے مقابلے  کھونےکے لئے کم ہے۔ اور جہاں تک خود کو ثابت کرچکی ہستیوں  کا سوال ہے، یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ وہ کیوں نہیں بولتے ہیں۔ لیکن دل میں یہ سوال آتا ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لئےکتنا ہے؟

کیا انہوں نے اتنا پیسہ نہیں کما لیا ہے، جس میں سات نسلیں کھائیں‌گی؟ یہ (خلیل)جبران کی اس سطر کی طرح ہے-جب آپ کا کنواں پورا بھرا ہوتا ہے، تب آپ کو پیاس کاجو ڈر ستاتا ہے، وہ پیاس کبھی بجھائی نہیں جا سکتی۔ یہ بالکل اسی طرح کا لگتا ہے-مقبولیت میں کمی، کمائی میں کمی؟ آخر کتنا چاہیے؟ کیا یہ آپ کی جان لے لے‌گی؟

 سدھارتھ : نہیں، لیکن سوچیے، ایک اسٹار کچھ کہتا ہے اور یہ اس کی فلم کومتاثر کرتا ہے۔ یہ فلم سے جڑے کافی لوگوں پر اثر ڈال سکتا ہے؟

 نصیر : مجھے لگتا ہے کہ اسٹار بنیادی طور پر اپنے بارے میں سوچتے ہیں نہ کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے بارے میں۔اگر ایسا ہوتا،تو (انڈسٹری میں) زیادہ یکسانیت ہوتی۔ لیکن اس کے بارے میں پھر کبھی۔ لیکن آپ کو دیپیکا کی جرأت کی داد دینی ہوگی، جو سرکردہ لوگوں میں شمار ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے ایسا قدم اٹھایا۔

دیکھتے ہیں، کہ وہ اس کا سامنا کیسے کرتی ہے۔ ان کو یقینی طور پر کچھ اشتہارمعاہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے‌گا۔ ٹھیک ہے، لیکن کیا اس سے وہ غریب ہو جائیں‌گی؟کیا اس سے ان کی مقبولیت گھٹ جائے‌گی؟ کیا اس سے وہ کم خوبصورت ہو جائیں‌گی؟یہ سب چیزیں تو دیر-سویر آ ہی جائیں‌گی…

 فلم انڈسٹری صرف ایک خدا کی عبادت کرتی ہے اور وہ خدا ہے پیسہ اور اس خداکو خوش رکھنے کا واحد طریقہ زیادہ سے زیادہ کمانا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان کی خاموشی اتنی اہم نہیں ہے، جتنا اہم ہے نوجوان نسل کا بولڈ رویہ۔ حالانکہ وہ سب اپنے بیانات میں تھوڑا سا سنبھل‌کر چلے ہیں، ان کو معلوم ہےکیوں…اور نوجوان نسل سے میرا مطلب سب سے ہے، ملک بھر کے نوجوانوں سے ہے-اورعورتوں کا باہر آنا، یہ بہت شاندار چیز ہوئی ہے۔

 دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے مخالف مظاہرہ میں خواتین(فوٹو : پی ٹی آئی)

دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے مخالف مظاہرہ میں خواتین(فوٹو : پی ٹی آئی)

سدھارتھ: آپ فلم انڈسٹری میں بولڈآوازوں کی بات کر رہے ہیں، خاص طورپرنوجوان نسل میں اور یہاں تک کہ دیپیکا اور صاف طور پر آپ-آپ کے سامنے ایک ایسی حالت ہے، جس میں انڈسٹری ایسی فلمیں بنا رہی ہے، جو راشٹروادی ایجنڈے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں،جس میں اس حد تک تاریخ کے ساتھ توڑ-مروڑ کیا جا رہا ہے کہ ایک تاریخی جنگ یا ایک سپہ سالار کی کہانی کو نئے سرے سے کہا جا رہا ہے اور ایسے جھنڈوں کے ساتھ اس کونئی شکل دی جا رہی ہے، جو موجودہ نظام کے مفادات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

 نصیر: تو اس میں نیا کیا ہے؟ فلم انڈسٹری  ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ رہی ہے۔ وہاں بہت زیادہ پیسہ داؤ پر لگا ہوتا ہے۔ وہ وہی کرتے ہیں، جو مرکز کو پسندآتا ہے۔

 سدھارتھ : تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک سرپھرا قدم ہے، مگر ایک کاروباری قدم ہے؟

 نصیر: ہاں۔ میں سچ مچ سوچتا ہوں کہ تاریخ کو پھر سے لکھنے میں مدد کر رہےفلمسازوں میں کتنا مضبوط عقیدہ ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ جب ہم ایک تصوراتی تاریخ کی ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، تب ہم ایک تصوراتی ماضی کی بھی ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

 ہم ویدک زمانے میں کئے گئے کھوج کی ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں …اوراسی طرح کی چیزیں…، جو احمقانہ ہے۔ کیا ان لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ہمارےاحمقانہ دعوے کی وجہ سے، دنیا ریاضی، ایسٹرونامی، فلسفہ، شاعری وغیرہ میں ہماری اصل کامیابیوں کا بھی مذاق اڑائیں‌گے؟ یہ سب کتنی دور تک جانےوالا ہے۔

 یہ سب ہوتے دیکھنا کافی حیران کن ہے۔ اور جگہوں کا نام بدلنےمیں اتنا اہم کیا ہے؟ میرا کہنا ہے کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ کسی سڑک کا نام کیا ہے، کسی شہر کا نام کیا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

 لیکن یہی ہو رہا ہے۔ اس لئے ہندوستانی فوجیوں کی بہادری، جس پر آج تک کسی کو شک نہیں رہا ہے، اس کو کئی گنا بڑھاکر کسی رومانٹک چیز کی طرح پیش کیا جا رہاہے اور مغلوں کی منفی امیج…۔ اور جس طرف بھی آپ دیکھیں مغلوں کی تنقید کرنے والی اوران کو حملہ آور کے طور پر پیش کرنے والی کہانیاں چل رہی ہیں…

سدھارتھ : یہ صرف سڑکوں کا نام بدلنے یا کوئی فلم بنانے کا معاملہ نہیں ہے، یہ تاریخ کی کتابوں میں بھی ہو رہا ہے…یہ ایک پروپیگنڈہ بھی ہے۔ یہ خطبات اور نفرت والی تقریروں کا بھی معاملہ ہے۔ ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے،جہاں آج، 2019 یا 2020 میں آپ ایک ایسے ماحول کی تعمیر کرنے جا رہے جو 10، 15یا 20 سال بعد خود کو سب سے بدشکل صورت  میں ظاہر کرے‌گی-آپ اصل میں کنواں میں زہر گھول رہے ہیں۔

 نصیر : ہاں، یہاں تک کہ 10-15 سال بھی کافی طویل عرصہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اس سے کہیں پہلے ہو جائے‌گا۔اور جب تک اس کی مخالفت پوری طاقت کے ساتھ نہیں کی جائے‌گی اور یہی ہمارے بس میں ہے جیسا کہ میں نے اپنے ایک پہلے کے انٹرویو میں بھی کہا تھا، جس نے کاروان محبت میں طوفان کھڑا کر دیا… زہر پھیل رہا ہے اور یہ حکمراں جماعت کے ذریعے کیا جا رہاہے۔ اور وہ ہر کسی پر اس بات کا الزام لگا رہے ہیں، جو وہ کر رہے ہیں۔

وہ ان خیالی دشمنوں کی ایجاد کرتے ہیں اور پاکستان کے تئیں یہ دیوانگی… ہم پاکستان کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ہم پاکستان مقبوضہ کشمیرکو پھر سے جیت لیں‌گے، اور ہم یہ کر دیں‌گے، ہم وہ کر دیں‌گے…

اور یہ جو لگاتار فوجی کارروائی کی دھمکی دی جاتی رہی ہے، وہ کافی حیران کن ہے۔ یہ سچائی کہ ہم اس طرح کی زبان میں بات کر سکتے ہیں، ‘ ہم دو مورچوں پر جنگ کی تیاری کر رہے ہی ‘اور اس طرح کی اور چیزیں…میرا کہنا ہے جو لوگ جنگ کے لئے مرے جا رہے ہیں، وہ نہیں جانتے ہیں کہ جنگ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

سدھارتھ : نصیر آپ انڈسٹری کے کافی لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جنہوں نے تقسیم کرنے والی سیاست اور پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھایا ہے اور اسٹینڈ لیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ انڈسٹری نے اس کو کافی حمایت دی ہے…

 نصیر: وہ اس کی مخالفت کرنے والوں کے مقابلے کافی کم ہیں۔

 سدھارتھ : کیا آپ کو ایسا لگتا ہے۔ لیکن وہ یقینی طور پر بولڈہیں۔

 نصیر: ہاں، وہ ٹوئٹر پر ہیں، میں ٹوئٹر پر نہیں ہوں۔ لیکن یہ لوگ اورٹوئٹر صارفین-میں سچ مچ چاہتا ہوں کہ وہ جس چیز میں یقین کرتے ہیں، اس کو لےکر اپنادل بنائیں۔

 انوپم کھیر جیسے کچھ لوگ کافی بولڈ رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ ان کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ وہ ایک جوکر ہیں۔ این ایس ڈی اور ایف ٹی آئی آئی میں ان کے کتنے ہی ہم عصر ان کی چاپلوس فطرت کی گواہی دیں‌گے۔ یہ ان کے خون میں ہے، وہ اس سے مجبور ہیں۔

دوسرے لوگ جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کو سچ مچ یہ فیصلہ کرنا چاہیےکہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی یاد مت دلائیے۔ ہم اپنی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہیں۔

 سدھارتھ : تو آپ کہہ رہے ہیں کہ تعداد اور اثرچھوڑنے میں ان کی کوئی خاص اہمیت ہے۔

 نصیر : مجھے لگتا ہے کہ وہ مخالفت کرنے والوں کے مقابلے  کم ہیں۔

 سدھارتھ : بھلے وہ خاموش رہیں؟

 نصیر : وہ خاموش نہیں ہیں۔ وہ کافی بولڈرہے ہیں۔

سدھارتھ : آپ کے ایک بھائی فوج میں کافی سینئر عہدے پر رہے ہیں۔ فوج کوپوری طرح سے غیرسیاسی ہونے کے لئے جانا جاتا ہے، لیکن اچانک چیزیں بدل گئی ہیں اور فوج کی طرف سے کافی آوازیں  سنائی دے رہی ہیں۔ سینئر آفیسر ایسے بیان دے رہے ہیں جو حکمراں جماعت کے سیاسی مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔

نصیر : ہاں، اور اسی وقت یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم آئینی قدروں کی پیروی  کریں‌گے، لیکن ٹھیک اسی وقت وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر حکومت ہمیں حملہ کرنے کےلئے کہتی ہے، تو ہم حملہ کریں‌گے-یہ متضاد بیان ہیں۔

 سدھارتھ : اور شاید ہر پارٹی کو ایک طرح سے مطمئن رکھ رہے ہیں۔

 نصیر : اور میں خیالی دشمنوں کو کھڑا کرنے کی بات کر رہا تھا…یہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی بکواس-میرا کہنا ہے کون ہے ‘ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘؟ اگر کوئی ہے، توحکمراں پارٹی ہے۔

وہی ہیں، جو ہمیں بانٹ رہے ہیں۔ جو کوئی بھی بول رہا ہے، اس پر الزام اچھال دیا جا رہا ہے۔ اور میں نے پہلے بھی دوہرایا تھا، ‘ کیا حکمراں پارٹی کےخلاف یا حکومت کے خلاف بولنا جرم ہے؟ آپ کو لنچنگ سے دھمکایا جا سکتا ہے، آپ کےبچے کو دھمکایا جا سکتا ہے اور آپ کا ذاتی تحفظ داؤ پر لگ جاتا ہے۔

 سدھارتھ : کیا یہ آپ کے ساتھ ہوا ہے؟

 نصیر : یہ میرے ساتھ نہیں ہوا ہے اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ یہ نہ ہو۔لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ یہ میرے جاننے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔

سدھارتھ : جب آپ کہتے ہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ کی بات چھیڑی… یہ حقیقت میں ایک ایسی صورت حالت کی تعمیر کر سکتا ہے، جہاں شہری، شہری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں‌گے…لوگ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جائیں‌گے… ہمارے جیسے تکثیری اور بڑے ملک کےلئے آگے کا راستہ بہت پرامید نہیں دکھائی دے رہا ہے۔

 نصیر : ہمیں پرامید ہونا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ہم لیٹ جائیں اور کہیں کہ ہمیں روند‌کر چلے جاؤ۔ ہمیں پرامید ہونا ہوگا۔ میں یہ یقین کرتاہوں کہ عام شہری جو کہہ رہے ہیں، یہ مسلمان ایسے ہیں، یہ مسلمان ویسے ہیں، وہ کسی نہ کسی دن اپنی سوچ بدلیں‌گے۔ میں پرامید ہونے کے لئے پرعزم ہوں۔

 سدھارتھ : تو آپ اس بات کو لےکر صاف ہیں کہ اس ملک کے عام شہری…

نصیر : اس کی سمجھ واپس لوٹ‌کر آئے‌گی۔

 سدھارتھ : اور مزاج فرقہ وارانہ نہ ہوں۔

 فلم البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے کا پوسٹر(فوٹو بہ شکریہ : وکی پیڈیا)

فلم البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے کا پوسٹر(فوٹو بہ شکریہ : وکی پیڈیا)

نصیر : مجھے نہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی فطرت سے فرقہ پرست ہے۔ یہ توذہن میں بھرا جاتا ہے۔ حکومت کو جس چیز نے جھٹکا دیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ ان طلبا کوجانوروں کی طرح ہانکا نہیں جا سکا ہے، جیسا کہ ان کو امید تھی۔ اور گمراہ ہونےوالے طالب علموں پر الزام لگانا، طلباکمیونٹی کے تئیں توہین  کا مظاہرہ ہوگا۔

اس کا مطلب ہے کہ ان طلبا کو کوئی بھی بہکا دے، تو بہک جاتے ہیں۔نہیں، نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ دھیان دیں، تو اس تحریک کا کوئی رہنما نہیں ہے۔ یہ اپنےآپ باہر چھلک آیا غصہ ہے، جو سامنے آیا ہے۔ اور اگر آپ نوجوانوں کے غصےکو خارج کرتے ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ آپ خود اپنے لئے خطرہ تیار کر رہے ہیں۔ میں اتناہی کہہ سکتا ہوں۔

سدھارتھ : کیا آپ کو اپنی  طالب علمی کا زمانہ  یاد ہے؟

 نصیر : ہاں، مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ مجھے سیاسی ہونے کی ضرورت نہیں ہے-میں ٹھیک ہوں۔ ملک ٹھیک ہے۔ میں کسی طلبہ یونین یا کسی طرح کی تحریک یا ایسی کسی چیزکا حصہ نہیں تھا۔

آہستہ آہستہ جب میں نے فلموں میں کام کرنا شروع کیا، جو ظاہری طورپر سیاسی تھیں،مثلاًبھوانی بھوائی، البرٹ پنٹو وغیرہ …تب سیاست نے مجھے متاثر کرناشروع کیا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ سعید مجھ سے کہا کرتے تھے کہ کچھ بھی غیرسیاسی نہیں ہے۔ تم غیرسیاسی نہیں ہو سکتے ہو۔ اس کو لےکر تمہارا عقیدہ گہراہونا چاہیے۔ اس کو لےکر عقیدہ بنانے میں مجھے طویل عرصہ لگا، لیکن جب جاگو تبھی سویرا۔

سدھارتھ : دراصل یہ میرا آخری پڑاؤ ہونا تھا میں آپ کے سنما پر آنا چاہتا تھا۔ 1970 کی  دہائی میں آپ بھوانی بھائی، البرٹ پنٹو میں آرٹ سنیما تحریک کے جزولاینفک، اس کا ایک ستون تھے۔ ایک طرح سے کچھ دوسری فلمیں تھیں جن میں ترقی پسند سوچ وغیرہ کا ایک طرح  کا چھپا ہوا پیغام تھا۔آرٹ کیا کر رہا ہے، سنیما کیا کر رہا ہے، اس سوال کو لےکر ہم تب کہاں تھے اور اب کہاں ہیں؟

نصیر : مجھے لگتا ہے کہ سیاسی طورپر سنیما آگے نہیں بڑھا ہے کیونکہ 70 کی دہائی کے فلمساز اپنےعقیدہ  پر قائم نہیں رہے اور حقیقت میں ایک تحریک  کی  تعمیر نہیں کی۔ انہوں نے اپنے بعد آنے والی ایک نسل کی تربیت نہیں کی۔

لیکن انہوں نے بہترین فلمسازوں، جیسا کہ آج کے کئی نوجوان  فلمسازوں کے بارے میں میرا ماننا ہےکہ ایک نسل  تیار کرنے کام کیا۔ 70 کی  دہائی کے فلمسازوں کے کاموں میں بھلے اپنی خامیاں ہوں، لیکن ان کے بغیر مسان، دم لگاکر ہئیشا، گلی بوائے جیسی فلمیں یا انوراگ جس طرح کی فلمیں بناتے رہتے ہیں، ویسی فلمیں نہیں ہوتیں۔

تھوڑا اور پیچھے جائیں، تو وہ فلمساز نہیں ہو پاتے، اگر پہلی کی نسل کے مرنال سین اور باسو چٹرجی یا خواجہ احمد عباس نہیں ہوئے ہوتے۔ یعنی ہر نسل پہلے کی نسل سے سیکھتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آرٹ کے لحاظ سے آج کی کم خرچیلی فلمیں 70 کے دہائی کے کم بجٹ والی فلموں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔

اداکار کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ مجھے سچ مچ میں ان اداکاروں سے جلن ہوتی ہے۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ کاش میں ان کی عمر میں اتنا اچھا ہوتا۔ اور ان سب کے پاس عظیم خیالات ہیں۔ حالانکہ سیاسی طورپر مجھے نہیں لگتا ہے کہ البرٹ پنٹو اور اس طرح کی فلموں کی کوئی وارث نسل تھی۔

سدھارتھ: سیاسی  طور پر یعنی وہ ترقی پسند فلمسازی، وہ ترقی پسند قدریں…

نصیر : وہ ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ویسے دعوے نہیں ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلمیں غیرسیاسی ہیں۔ مکہ باز یا ٹو پوائنٹ زیرو جیسی فلموں کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیرسیاسی ہیں۔ لیکن وہ دعوے نہیں کر رہی ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہتر ہے کیونکہ ان بچوں کو اپنے کام کے کرافٹ پر کہیں بہتر گرفت ہے۔

سدھارتھ : تھیٹر کو لےکر کیا کہیں گے؟

نصیر: 50 سال پہلے جب میں نے این ایس ڈی میں داخلہ لیا، تب سے میں یہ سن رہا ہوں کہ تھیٹر مر رہا ہے۔ میں آج بھی یہ سن رہا ہوں۔ یہ کافی اچھی صحت میں ہے اور اس شہر میں ملک  کا ممکنہ طورپر سب سے زندہ تھیٹر ہے۔ بنگلور اور پونے میں بھی۔سب سے اچھا یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ کئی نوجوان لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ لکھ رہے ہے۔ پروڈیوس کر رہے ہیں۔ ہدایت کاری کر رہے ہیں۔

نئی جگہیں کھل رہی ہیں۔ ایسی جگہیں جو 50-60 لوگوں کو بٹھا سکتی ہیں۔ تو جو لوگ پرتھوی کو افورڈ نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ پرتھوی بھی لوگوں کی جیب سے باہر ہو گیا ہے، این سی پی اے تو پوری طرح سے جیب سے باہر ہو گیا ہے۔زیادہ لوگ ناٹک کر رہے ہیں، بچے ان چیزوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو ان کے لیے اہم  ہیں اور اپنے عقائد کو ظاہر کر رہے ہیں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہمارا سیاسی ا سٹینڈ نہیں تھا۔

ہم تھیٹر اس لیے کیا کرتے تھے، کیونکہ ہمیں وہ پسند تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، زیادہ سے زیادہ معانی و مطالب ناٹکوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ہم نے ایک ناٹک کیا تھا، اَ واک ان دی  وڈس’ جو کہ ایک روسی اور امریکی ڈپلومیٹ کے بیچ کی بات چیت ہے، جس کو ہم نے بدل دیا، جس نے ہندوستان پاکستان کی صورت  حال کے تناظر میں زیادہ سے زیادہ مطلب اخذ کر لیا۔

ہمارا ناٹک آئنسٹائن، جو کہ یہودیوں کے ساتھ جو ہوا اس کے بارے میں بات کرتا ہے… وہ یاد کر رہے ہیں کہ کس طرح سے طلبا کو حاشیے پر دھکیلا جا رہا تھا اور کس طرح سے کتابیں جلائی جا رہی تھیں، کہ کس طرح سے انہیں صرف نازیوں کی وجہ سے اپنے نازی ہونے کا علم ہوا، ورنہ انہوں نے کوئی یہودی جذبہ محسوس نہیں کیا… میں اسے پوری طرح سے سمجھ سکتا ہوں۔

جب وہ اگلے عالمی جنگ کی بات کرتا ہے، اگلے کے بعد ہونے والے عالمی جنگ کو پتھروں سے لڑا جائےگا، تو میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔

ایک ڈرامے کے دوران نصیرالدین شاہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک / Motley Theater)

ایک ڈرامے کے دوران نصیرالدین شاہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک / Motley Theater)

یہاں تک کہ کرشن چندر کی کہانی ایک گدھے کی سرگزشت، جس پر ہم نے ڈرامہ کیا، مجھے لگتا ہے کہ یہ کافی سیاسی ہے۔ مطلب کہ میں سیاسی ڈرامہ کرنے والے لوگوں کو خارج نہیں کر رہا ہوں، لیکن ہم بے مطلب ڈرامہ نہیں کرتے ہیں۔ میرا مشن ایک ایسے تھیٹر کمپنی کی تعمیر کرنا ہے، جو زندہ رہے‌گا، میرےبعد بھی چلتا رہے‌گا۔

سدھارتھ : آپ نے ویسا کافی تھیٹر کیا ہے۔ میں برتولٹ بریخت کا ایک قول پڑھ رہا تھا۔ ‘فن حقیقت کو دکھانے والا آئینہ نہیں ہے، بلکہ فن سماج کو بدلنےوالا ہتھوڑا ہے۔’ تو وہ جوش، جو آپ کہہ رہے ہیں، اب فن، تھیٹر، سینما میں دکھائی دینا چاہیے۔

نصیر : مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہوگا۔ مجھے آنے والی نسل پر مکمل بھروسہ ہے۔میں سچ مچ محسوس کرتا ہوں کہ یہ ممکنہ پہلا قومی حملہ ہے، جس سے ہم گزر رہے ہیں۔یہ قومی ہے۔

 یہ سوال اکثر لوگوں کے دل میں آتا ہے کہ کیوں عظیم تحریر اور عظیم شاعری،عظیم فلمیں، عظیم ڈرامے سامنے نہیں آئے ہیں-کیونکہ ہم نے تکلیف برداشت کی نہیں ہے۔جس طرح سے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، اٹلی، فرانس سے عظیم تحریریں آئیں۔ میں یہ نہیں چاہ رہا ہوں کہ ویسا کچھ ہمارے ساتھ ہو، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کچھ ایسی چیز ہے، جس نے ہمیں متحدکیا ہے-تمام آزاد خیال  لوگوں کو اور یقینی طورپر عظیم فن ایک نتیجہ ہے۔

 سدھارتھ : نصیر آپ کا بہت-بہت شکریہ۔ جو کچھ چل رہا ہے، یہ اس کو واضح کرنے والی بات چیت تھی۔ ساتھ ہی یہ کافی بولڈ تھا۔ یہ اکثر نہیں ہوتا ہے کہ عوامی زندگی والے لوگ اتنا کھل کر اپنی بات رکھنے کے لئے تیار ہوتےہیں۔ اس لئے ہم سے بات کرنے کے لئے بہت-بہت شکریہ۔