مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں بتایا کہ آسام کے چھے ڈٹینشن سینٹر، جہاں غیر ملکی قرار دیے گئے یا مجرم غیر ملکیوں کو رکھا جاتا ہے۔ ان میں 3331 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے حکومت نے بتایا تھا کہ گزشتہ تین سال میں آسام کے ڈٹینشن سینٹر میں 29 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
نئی دہلی: آسام کے چھ ڈٹینشن سینٹر میں گزشتہ سال دس لوگوں کی موت ہو گئی۔ ان ڈٹینشن سینٹر میں غیر ملکی قرار دیے گئے لوگوں یا قصوروار غیر ملکیوں کو رکھا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں منگل کو یہ جانکاری دی۔مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا کہ آسام کے ان چھ ڈٹینشن سینٹر میں 3331 لوگوں کو رکھا گیا ہے اور ریاست میں ایک اور ایسے ہی سینٹر کی تعمیر چل رہی ہے، جس کی صلاحیت تین ہزار لوگوں کی ہے۔
ریڈی نے ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا، ‘ آسام کے چھ ڈٹینشن سینٹر، جہاں غیر ملکی قرار دیے گئے یا مجرم غیر ملکیوں کو رکھا جاتا ہے وہاں ایک مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے درمیان دس لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ‘ڈٹینشن سینٹروں میں غیر ملکیوں یا قصوروار غیر ملکیوں کو رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آسام میں چھ ڈٹینشن سینٹر ہیں، جو ڈسٹرکٹ جیل میں بنایا گیا ہے۔ ان کی صلاحیت 3331 ہے۔ ان میں سے تیج پور 797، سلچر 479، ڈبروگڑھ 680، جورہاٹ 670، کوکراجھار 335 اور گولپاڑا میں 370 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ریاستی وزیر نے ساتھ ہی کہا کہ آسام میں کوئی این آر سی ڈٹینشن کیمپ نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ 1 مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے درمیان نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی تین ٹیموں نے آسام کے ڈٹینشن سینٹروں کا دورہ کیا اور غیر ملکی قرار دیے گئےلوگوں سے بات چیت کی۔
معلوم ہو کہ گزشتہ جنوری مہینے میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق، پچھلے تین سال میں آسام واقع ڈٹینشن سینٹروں میں رکھے گئے لوگوں کی ہونے والی اموات کی تعداد 29 پہنچ چکی ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ سال جولائی مہینے میں اسمبلی میں جواب دیتے ہوئے آسام کے پارلیامانی امور کے وزیر چندر موہن پٹواری نے بتایا تھا پچھلے تین سالوں میں آسام کے چھ ڈٹینشن سینٹروں میں کل 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
وزیر نے کہا تھا کہ سات لوگوں کی موت 2018 اور 2019 (جولائی تک) میں، چھ کی 2017 میں، چار کی 2016 میں اور ایک کی موت 2011 میں ہوئی۔ سبھی کی موت کی وجہ بیماری بتائی گئی۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ،پٹواری نے یہ بھی بتایا کہ اس سال 31 مارچ تک فارینرس ٹریبونل نے 117164 غیر ملکی لوگوں کی پہچان کی تھی۔ 1985 سے 30 جون 2019 کے درمیان 29855 غیر ملکی کو باہر نکالا گیا۔
غورطلب ہے کہ 1985 میں آسام میں آل آسام اسٹوڈینٹس یونین کی قیادت میں چلا آسام آندولن آسام سمجھوتہ پر ختم ہوا تھا، جس کے مطابق، 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آئے لوگوں کو غیر ملکی مانا جائےگا اور واپس ان کے ملک بھیج دیا جائےگا۔ سمجھوتہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ 1966 سے 1971 کے درمیان جن لوگوں کے نام ووٹر لسٹ میں ہوںگے، ان کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے اگلے 10 سالوں تک ان کا ووٹ کرنے کا حق چھین لیا جائےگا۔
اسی بنیاد پر این آر سی تیار کیا گیا تھا۔ دسمبر 2014 میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کی تیاری شروع کی گئی تھی اور سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہی یہ جاری رہی۔ این آر سی کی آخری اشاعت اگست 2019 میں کی گئی تھی، جس سے آسام میں رہ رہے 19 لاکھ سے زیادہ لوگ باہر ہو گئے تھے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ سال 20 نومبر کو راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کا پروسیس ہندوستان کے باقی حصے کے ساتھ نئے سرے سے چلایا جائےگا، جس کے بعد آسام حکومت میں وزیر ہیمنتا بسوا شرما نے بتایا تھا کہ ریاستی حکومت نے مرکزی وزیر داخلہ سے این آر سی کی موجودہ صورت کو خارج کرنے کی اپیل کی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں