خبریں

نربھیا گینگ ریپ اورقتل معاملے کے 7 سال بعد مجرموں کو دی گئی پھانسی

نربھیا کے مجرمین نے پھانسی سے کچھ ہی گھنٹوں پہلے جمعرات کی  دیر رات دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ جہاں عدالت نے ان کی عرضیاں  خارج کر دی تھیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:  سال 2012 میں ہوئے نربھیا گینگ ریپ اورقتل معاملے کے چاروں مجرمین کوجمعہ کی صبح پھانسی دے دی گئی۔ جیل کے ڈائریکٹر جنرل سندیپ گوئل نے یہ جانکاری دی۔چاروں مجرمین مکیش سنگھ (32)،پون گپتا (25)،ونئے شرما (26)اور اکشے کمار سنگھ (31) کو جمعہ 5:30 بجے دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔

پھانسی کے بعد تہاڑ جیل کے ڈائریکٹر سندیپ گوئل نے چاروں کی جانچ کر کےان کی موت کا اعلان  کیا۔پھانسی سے کچھ ہی گھنٹوں پہلے جمعرات کی  دیر رات کو نربھیا گینگ ریپ اور قتل  معاملے کےمجرمین نے پھانسی پر روک لگانے کے لیے پہلے دہلی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں نے ہی پھانسی پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا اور مجرمین کی عرضیوں کو خارج کر دیا۔معاملے کی آدھی رات کو ہوئی شنوائی میں دہلی ہائی کورٹ نے مجرمین کے وکیل اےپی سنگھ کے پھانسی پر روک لگانے کی اس بنیاد کو خارج کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مجرمین  میں سے ایک جرم  کے وقت نابالغ تھا۔

ہائی کورٹ سے مایوسی  ہاتھ لگنے کے بعد مجرمین نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔جمعہ کو صبح لگ بھگ 4:30 بجے سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے مجرمین میں سے ایک پون گپتا کی صدر جمہوریہ  کے ذریعے دوسری رحم کی اپیل  خارج کرنے کے خلاف دائر عرضی  کو خارج کر دیا۔

وہیں، اس سے پہلے نربھیا گینگ ریپ اور قتل  معاملے کے چار میں سے تین مجرمین نے ہیگ واقع انٹرنیشنل کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاکر اپنی ‘غیرقانونی پھانسی کی سزا’ روکنے کی اپیل  کی تھی۔انہوں نے الزام  لگایا تھا کہ ‘خامیوں سے پر’جانچ کے ذریعے انہیں مجرم قرار دیا گیا اور انہیں تجربے کا میڈیم(گنی پگ)بنایا گیا۔

چاروں لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے دہلی کے دین دیال اپادھیائے (ڈی ڈی یو)ہاسپٹل لے جایا جائےگا، جس کے بعد لاش کو ان کے اہل خانہ  کو سونپ دیا جائےگا۔پھانسی کے بعد نربھیا کی ماں نے اس کو انصاف کی جیت بتایا۔

پھانسی کے بعد نربھیا کی ماں نے کہا، ‘مجھے میری بیٹی پرفخر ہے۔ میں اسے بچا نہیں سکی اور یہ پچھتاوا مجھے ہمیشہ رہےگا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتی تو میں ایک ڈاکٹر کی ماں کے نام سے جانی جاتی۔ آخرکار انصاف مل گیا۔’

انہوں نے کہا، ‘میں ہماری عدلیہ، ہمارے صدر جمہوریہ اور ہماری سرکاروں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اگر اس طرح کا جرم آپ کے گھر  کی کسی بچی یاعورت کے ساتھ ہوتا ہے تو پہلے آپ کو اس عورت کی حمایت کرنی  چاہیے۔ ہم ملک  کی بیٹیوں کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔’

اس پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا، ‘انصاف ملنے میں سات سال لگ گئے۔ آج ہم نے قسم  لی ہے کہ اس طرح کا معاملہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح مجرمین نے آخرتک قانون کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے سسٹم میں بہت خامیاں ہیں، ہمیں سسٹم درست کرنے کی ضرورت ہے۔’

مجرمین کو ملی پھانسی پر دہلی وومین کمیشن  کی صدر سواتی مالیوال نے کہا، ‘یہ تاریخی  دن ہے۔ سات سال کے بعد نربھیا کو انصاف ملا۔ اس کی روح  کو آج سکون مل گیا۔ ملک  نے ریپ کرنے والوں کوپیغام  دیا ہے کہ اگر تم جرم کروگے تو تمہیں پھانسی پر لٹکایا جائےگا۔’

نیشنل وومین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے کہا، ‘آج ایک مثال  پیش کی گئی ہے لیکن اسے پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اب لوگوں کو پتہ ہے کہ انہیں سزا ملے گی۔ آپ تاریخ آگے بڑھوا سکتے ہیں لیکن سزا آپ کو مل کر رہےگی۔’

وہیں، اس سے پہلے گینگ ریپ اور قتل  کے اس معاملے کے ان چاروں مجرمین کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد تین بار سزا کے لیے تاریخیں طے ہوئیں لیکن پھانسی ٹلتی گئی۔گزشتہ پانچ مارچ کو ایک نچلی عدالت نے چاروں مجرمین کو پھانسی دینے کے لیے نیا ڈیتھ وارنٹ جاری کیا تھا۔ یہ ڈیتھ وارنٹ عدالت نے چوتھی بار جاری کیا تھا، کیونکہ مجرم پھانسی کی سزا کے خلاف لگاتار قانونی کارروائیوں کا سہارا لے رہے تھے۔

اس سے پہلے سات جنوری کو عدالت نے چاروں مجرمین کی پھانسی کی تاریخ 22 جنوری طے کی تھی۔ اس کے بعد نچلی عدالت نے سبھی چار مجرمین کو گزشتہ ایک فروری کو تہاڑ جیل میں صبح چھ بجے پھانسی دینے کے لیے 17 جنوری کو ڈیتھ وارنٹ جاری کیا تھا۔ پھر 17 فروری کو دہلی کی ایک مقامی عدالت نے چاروں مجرمین کے خلاف تیسرا ڈیتھ وارنٹ جاری کر کےتین مارچ صبح چھہ بجے پھانسی کی سزا دینے کی  ہدایت دی تھی۔

جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جیل مانے جانے والے تہاڑ میں پہلی بار ایک ساتھ چار لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے۔بتا دیں کہ سال 2012 میں 16 دسمبر کی رات راجدھانی دہلی میں 23 سالہ پیرامیڈیکل اسٹوڈنٹ سے ایک چلتی بس میں چھہ لوگوں نے گینگ ریپ کیا تھا اور اسے سڑک پر پھینکنے سے پہلے بری طرح سے زخمی کر دیا تھا۔ دو ہفتے بعد 29 دسمبر 2012 کو سنگاپور کے ایک اسپتال میں علاج کے دوران متاثرہ کی موت ہو گئی تھی۔

سبھی چھ ملزمین میں سے ایک رام سنگھ نے جیل میں مبینہ طو رپرخودکشی  کر لی تھی جبکہ ایک ملزم نابالغ تھا، جسے تین سال کے لیے جووینائل ہوم  میں رکھا گیا تھا۔ اس کو 2015 میں یہاں سے رہا کر دیا گیا تھا۔متاثرہ پیرامیڈیکل اسٹوڈنٹ  کی ماں نے جمعرات کو کہا کہ اس کی بیٹی کی روح  کو اب سکون  ملے گا اور اسے سات سال بعدانصاف ملا ہے۔ نربھیا کی ماں نے کہا، ‘آخرکارمجرمین  کو پھانسی دی جائےگی۔ اب مجھے سکون  ملے گا۔’

اس معاملے کے خلاف ملک  بھر میں زبردست مظاہرےہوئے تھے اور عورتوں  کے تحفظ کو یقینی بنانے اوریپ  کے لیے سخت سزاکا اہتمام  کرنے کی مانگ اٹھی تھی۔ لوگوں کے غصہ کو دیکھتے ہوئے سرکار نے ریپ  کے خلاف نیا قانون بنایا تھا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کےساتھ)