سال 2018 میں نیورو اینڈوکرائن کینسر ہونے کے بعد عرفان خان کی صحت خراب ہوتی چلی گئی ۔علی سردار جعفری کے مشہور ٹی وی سیریل کہکشاں میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کے رول کے لیے بھی عرفان خان کو یاد کیا جاتا ہے۔
ہندی سنیما کے ساتھ بین الاقوامی فلموں میں اپنی خاص پہچان بنانے والے اداکار عرفان خان کا بدھ کو ممبئی کےکوکیلابین دھیربھائی امبانی ہاسپٹل میں انتقال ہو گیا۔ وہ 53 سال کے تھے۔گزشتہ 28 اپریل کو طبیعت بگڑنے کے بعد انہیں آئی سی یو میں بھرتی کرایا گیا تھا، لیکن وہ صحت یاب نہیں ہو پائے۔ سال 2018 میں نیورو اینڈوکرائن کینسر ہونے کے بعد عرفان خان کی صحت لگاتار بگڑتی چلی جا رہی تھی ۔ وہ علاج کے لیے اکثر لندن آیا جایا کرتے تھے۔ خراب صحت کی وجہ سے وہ اپنی آخری فلم انگریزی میڈیم کا پرموشن بھی نہیں کر سکے تھے۔
ان کےترجمان اور فلمساز شوجیت سرکار نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ شوجیت سرکار نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے، ‘میرے پیارے دوست عرفان، تم لڑے اور خوب لڑے۔ مجھے ہمیشہ تم پر فخرہےگا۔ ہم پھر ملیں گے۔ ستاپا اور بابل کے لیےتعزیت۔ تم لوگ بھی لڑے، ستاپا آپ نے اس لڑائی میں اپنا سب کچھ لگا دیا۔ شانتی اور اوم شانتی۔ عرفان کو سلام۔’
My dear friend Irfaan. You fought and fought and fought. I will always be proud of you.. we shall meet again.. condolences to Sutapa and Babil.. you too fought, Sutapa you gave everything possible in this fight. Peace and Om shanti. Irfaan Khan salute.
— Shoojit Sircar (@ShoojitSircar) April 29, 2020
عرفان خان کے ترجمان نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘مجھے یقین ہے کہ میں ہار چکا ہوں۔’
واضح ہو کہ عرفان خان نے یہ بات 2018 میں اس وقت کہی تھی جب وہ کینسر سے لڑ رہے تھے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ،عرفان مضبوط اور مستحکم ارادوں کے انسان تھے۔ انہوں نے آخر وقت تک لڑائی لڑی۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے قریب آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 2018 میں کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد انھوں نے تمام پریشانیوں کاسامنا کیا۔
عرفان خان نے اپنی بیماری کے بارے میں اپنے مداحوں کے نام ایک خط لکھا تھا ،جس میں انہوں نے کہا تھا،
ابھی تک اپنے سفر میں ،میں تیزگامی سے چلتا چلا جا رہا تھا… میرے ساتھ میرے منصوبے، توقعات، خواب اور منزلیں تھیں۔ میں ان میں ملوث بڑھا جا رہا تھا کہ اچانک ٹی سی نے پیٹھ پر ٹیپ کیا،‘آپ کا اسٹیشن آ رہا ہے، پلیز اتر جائیں۔ ‘میری سمجھ میں نہیں آیا…نہ نہ، میرا اسٹیشن ابھی نہیں آیا ہے… جواب ملا اگلے کسی بھی اسٹاپ پر اترنا ہوگا،آپ کی منزل آ گئی…
وہ علاج کے لیے لندن بھی گئے اور تقریباً ایک برس وہاں رہنے کے بعد مارچ 2019 میں ہندوستان واپس آئے تھے۔انہوں نے دوبارہ کام بھی شروع کیا اور چند ماہ قبل ان کی فلم ‘انگریزی میڈیم’ بھی ریلیز ہوئی ہے جو ان کی کامیاب فلم ’ہندی میڈیم‘ کا سیکوئل ہے۔عرفان خان کے پسماندگان میں ان کی بیوی ستاپا سکدر اور دو بچے بابل اور عیان ہیں۔
سات جنوری، 1967 میں جئےپور میں پیدا ہوئے عرفان خان کو ہندی سنیما میں ان کی بہترین اداکاری کے ساتھ ہی برٹش اور ہالی وڈ فلموں میں کام کرنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ان کے والدین کا تعلق راجستھان کے ضلع ٹونک سے تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے 1988میں میرا نائر کی مشہور زمانہ فلم ’سلام بامبے‘ میں کام کیا تھا۔حالاں کہ انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تاہم 2001 میں برطانوی فلم ’دی واریئر‘ میں ان کی اداکاری دیکھ کر فلمساز ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔
اپنے30 سالہ فلمی کریئر میں عرفان نے 50 سے زیادہ فلمیں کیں اور تمام ایوارڈ اپنے نام کئے۔ آرٹ کے شعبہ میں بہترین خدمات کے لیے انہیں سال 2011 میں چوتھے سب سے اعلیٰ شہری اعزاز پدم شری سے نوازا گیا تھا۔
عرفان کو بلو (2009)،پان سنگھ تومر (2012)،یہ سالی زندگی (2011)،سات خون معاف (2012)، لنچ بکس (2013)،حیدر (2014)، پیکو (2015)،تلوار (2015) اور ہندی میڈیم (2017)، قریب قریب سنگل (2018) جیسی فلموں کے لیے جانا جاتا ہے۔پان سنگھ تومر کو لیے انہیں بہترین اداکارکا نیشنل ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ حاصل (2003) اور مقبول (2004) میں ان کے نبھائے گئے منفی کرداروں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
عرفان نے کئی بین الاقوامی فلموں دی واریر(2001)،دی نیم سیک (2006)،دی دارجلنگ لمٹیڈ(2007),اے مائٹی ہارٹ (2007)،آسکرایوارڈ یافتہ سلم ڈاگ ملینیئر (2008)،نیویارک: آئی لو یو (2009)،دی امیزنگ اسپائیڈر مین(2012)، لائف آف پائی(2012)،جراسک ورلڈ (2015) اور ان فرنو (2016) میں بھی کام کیا ہے۔
اس سے پہلے عرفان نے دوردرشن پر نشرہونے والے سیریلوں چانکیہ، بھارت ایک کھوج، سارا جہاں ہمارا، بنے گی اپنی بات، چندر کانتا ، شری کانت، انوگونج وغیرہ میں بھی کام کر چکے ہیں۔علی سردار جعفری کے مشہور ٹی وی سیریل کہکشاں میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کے رول کے لیے بھی عرفان خان کو یاد کیا جاتا ہے۔
وہیں 90 کی دہائی میں وہ ‘ایک ڈاکٹر کی موت’ اور ‘سچ اے لانگ جرنی’ جیسی اہم فلموں میں بھی نظر آ چکے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرفان خان ایک تربیت یافتہ کرکٹر تھے ۔ ان کو 20 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا بھی موقع ملا ۔ لیکن وہ اداکار بننا چاہتے تھے۔ اس لیے کرکٹ کو الوداع کہہ دیا۔
بتاتے چلیں کہ 2012 میں ان کی فلم پان سنگھ تومر کے لیے ان کو نیشنل فلم ایوارڈ اور فلم فیئر کریٹکس ایوارڈ دیا گیا۔اس کے بعد2013 میں ان کی فلم ‘لنچ باکس’ کو بافٹا ایوارڈ کے لیے نامزدگی ملی۔غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں عرفان خان کی والدہ سعیدہ بیگم کا بھی جئے پور میں انتقال ہوگیا تھا۔لیکن ملک میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ اپنی والدہ کے جنازے میں شرکت نہیں کرپائے تھے ۔انہوں نے ویڈیو کال کے ذریعے آخری رسومات میں شرکت کی۔
Categories: خبریں