اگرآر بی آئی کے اعلانات اورمرکز کے پہلے کو رونا راحت پیکیج کی رقم کوجوڑ دیں تووزیر اعظم نریندر مودی کے20 لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج میں تقریباً13 لاکھ کروڑ روپے کی ہی اضافی رقم بچتی ہے، جس کی تفصیلات دی جانی ابھی باقی ہیں۔
ہندوستان میں اب تک دنیا کا سب سےسخت لاک ڈاؤن رہا ہے اور اس دوران معیشت کے کمزور طبقے کی مدد کرنے کے لیے حکومت نے برائے نام مالی امداد دی ہے۔ دراصل، پچھلے 45 دنوں میں وزارت خزانہ نے لوگوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ ہندوستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح بڑا معاشی پیکیج دے پائے۔
اس کے باوجودوزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ منگل کو 20 لاکھ کروڑ روپے کے ایک میگااکانومک پیکیج کا اعلان کیا، جو کہ ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)کے 10 فیصدی کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ 17 مئی سے غیر متعینہ مدت کے لیے نئے روپ میں‘لاک ڈاؤن 4.0’کو متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
بادی النظرمیں پیکیج کی موٹی رقم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت ان چیزوں کی بھرپائی کرنا چاہتی ہے جو پچھلےچند ہفتوں میں بہت بری طرح سے غلط ہو گئے ہیں بالخصوص مہاجر مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کی بدترحالت، جنہیں ریاستوں نے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ پیکیج کی تفصیلات سے پتہ چلےگا کہ حقیقت میں غریب اور ان آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کے لیے کتنااہتمام کیا گیا ہے۔
حالانکہ پیکیج کےسیاسی پہلو سے صاف ہے کہ مودی دوسرے بڑے ممالک کی طرح خرچ کرنے میں فیاض ہونا چاہتے ہیں۔ اس میں امریکہ شامل ہے، جس نے اپنی جی ڈی پی کا لگ بھگ 13 فیصدی اکانومک پیکیج کے لیےاعلان کیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں اس پیکیج کو لےکر وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کی تفصیلات کا انتظار کرنا چاہیے، تبھی حقائق کا پتہ چل پائےگا۔
اس میں بنیادی طور پریہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سماج کے سب سے زیادہ ضرورت مند طبقے کو کتنی نقدی(رقم)فوری طور پرپہنچائی جائےگی۔ اس طرح کے ایک غیر معمولی اقتصادی بحران میں کل افرادی قوت کا لگ بھگ 25 فیصدی بےروزگار اورممکنہ طور پرمزید25 فیصدی کو یہ یقین نہیں ہے کہ وہ واپس نوکری پر جا پائیں گے یا نہیں۔ سرکار کو صرف اس بات پر دھیان دینا ہے کہ معیشت کو واپس معمول پر لوٹنے تک ہندوستان کا 50 فیصدی افراد ی قوت کیسے اپنا گھر چلائےگا۔
ہندوستان میں مزدوروں کی کل تعداد50 کروڑ ہے اور مودی کے پیکیج کو اس بات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ ہندوستان کے آدھے مزدوروں(یعنی 25 کروڑ) کی کس طرح مدد کی جائےگی، جو یا تو بےروزگار ہیں یا پھر سب کچھ معمول پر آ جانے کے بعد کام پر واپس جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس لیے پیکیج کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ لوگوں کو فوری نقد امداد دی جائے۔ یہ مدد بےروزگاروں کے بیچ بہت سےغریبوں کو نقد ٹرانسفر اور دوسرے لوگوں کو کام پر واپس لانے کے لیے چھوٹے اورمائیکرو کاروباری اداروں کو مراعات کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ یہ معیشت میں قلیل مدتی مانگ پیدا کرنے کے لیے اہم ہوگا اور ڈیمانڈکو بڑھانے میں مدد کرےگا جو کہ صحت سے متعلق خدمات کو چھوڑکر اکثر شعبوں میں 70 فیصدی سے زیادہ نیچے ہے۔
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس 20 لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج میں ماضی میں سرکار کی طرف سے کو رونابحران سے متعلق اقتصادی اعلانات اور ریزرو بینک کے فیصلے شامل ہیں۔ کو رونا وبا کے دوران اگر سینٹرل بینک کے کل اعلانات کو جوڑیں تو یہ تقریباً پانچ لاکھ کروڑ روپے تک پہنچتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں نرملا سیتارمن کے ذریعہ دی گئی 1.7 لاکھ کروڑ روپے کا پہلا کو رونا راحت پیکیج بھی شامل ہے۔
اس طرح مرکز کے پاس کل ملاکر تقریباً13 لاکھ کروڑ روپے کےاعلان کرنے کا آپشن بچا ہے۔ اسمال اینڈ میڈیم انڈسٹریز(ایم ایس ایم ای)کےوزیر نتن گڈکری نے کہا ہے کہ ہندوستان میں چھوٹی کمپنیوں کا مرکز اور ریاستی دونوں ہی سرکاروں پر بڑی رقم پہلے ہی بقایہ ہے۔ گڈکری نے پچھلے ہفتے سی این بی سی کو بتایا تھا کہ سرکار پر ایم ایس ایم ای سیکٹر کی بقایہ رقم اتنی زیادہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں بتا نہیں سکتے ہیں۔
ایسے قیاس لگائے جا رہے ہیں کہ یہ رقم کچھ لاکھ کروڑ روپے میں ہوگی، جس میں ایکسپورٹر کا جی ایس ٹی ری فنڈ بقایہ جات بھی شامل ہیں۔ گڈکری نے کہا تھا کہ ایم ایس ایم ای کو اس طرح کی بقایہ رقم کے عوض میں بینک لون کی گارنٹی مل سکتی ہے۔ حالانکہ یہ غیر مناسب ہوگا اگر سرکار اپنے راحت پیکیج میں یہ سب بھی جوڑتی ہے کیونکہ یہ چھوٹے کاروباریوں کے لیے پہلے سے ہی سرکار پر بقایہ ہے۔
اس پیکیج میں ریاستوں کےکنٹرول والے وسائل کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ پچھلے راحت پیکیج میں کیا گیا تھا جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً0.8 فیصدی تھا۔ ان سبھی چیزوں کو ملاکر اندازہ کیا جانا چاہیے کہ معاشی بحالی کے لیے اعلان کیے گئے اس پیکیج میں مرکز کی طرف سے کتنی نئی رقم یا فنڈ دی جا رہی ہے۔
مجھے حیرت ہوگی اگر اس پیکیج میں مرکز کے نئے اعلانات جی ڈی پی کے مقابلے تین سے چار فیصدی زیادہ ہو گئی، جو کہ تقریباً چھ سے آٹھ لاکھ کروڑ روپے کی ہوگی۔ اس لیے 20 لاکھ کروڑ روپے کا پیکیج بہت بڑا لگ سکتا ہے، لیکن اصل اضافی نقدی چلن کے معاملے میں پیکیج زیادہ معمولی ہو سکتا ہے۔
Categories: فکر و نظر