خصوصی رپورٹ: ملک بھر کے مختلف سرکاری اور نجی ہاسپٹل میں زیادہ تروسائل کووڈ 19 سے نپٹنے میں لگے ہیں۔ کئی جگہوں پر او پی ڈی اور سنگین بیماریوں سےمتعلق محکمے بند ہیں اور ایمرجنسی میں خاطر خواہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ایسے میں سنگین بیماریوں میں مبتلا مریض اور ان کے اہل خانہ کے لیے مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔
میری ماں کو کینسر تھا، لیکن ان کی موت کو رونا کی وجہ سے ہوئی۔ کو رونا پازیٹو نہیں تھیں وہ۔
دس مہینے پہلے جب ماں کی بیماری (ملٹی پل مائیلوما)کا پتہ چلا تبھی ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ بیماری لاعلاج ہے، لیکن اس کا بہتر مینجمنٹ کر کے اس کے ساتھ جیا جا سکتا ہے۔
یہ بیماری جسم کے سبھی حصوں، بالخصوص کڈنی اور ہڈیوں پر اثر کرتی ہے اس لیے خصوصی مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔سفاکی کی حد تک اس احمقانہ لاک ڈاؤن نے پورے ملک کو مس مینج کیا ہے۔ میری ماں کی بیماری بھی مس مینج کی گئی…
میری ماں اکیلی نہیں ہے۔ نہ جانے کتنی بیماریوں کے کتنے مریضوں کو موت تک پہنچائےگا یہ لاک ڈاؤن…‘
گزشتہ چار مئی کو فیس بک پر لکھی گئی یہ پوسٹ سپریم کورٹ کی وکیل پیولی سواتجا کی ہے۔ ان کی ماں اور بنارس ہندو یونیورسٹی کی سابق پروفیسر ڈاکٹر سواتی کا 2 مئی کی شام انتقال ہو گیا تھا۔ وہ کچھ عرصے سے کینسر کی مریض تھیں۔پیولی کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہاسپٹل کی بد انتظامیوں کی وجہ سے ان کی ماں کو جان گنوانی پڑی ہے اور ان کے جیسے کئی ہیں۔ ان کی یہ بات پوری طرح سے غلط نہیں ہے۔
ملک بھر کے مختلف سرکاری اور نجی ہاسپٹل میں زیادہ تر وسا ئل کووڈ 19 سے نپٹنے میں لگے ہیں۔ کئی جگہوں پر او پی ڈی اور سنگین بیماریوں سے متعلق محکمے بند ہیں اور ایمرجنسی میں خاطر خواہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اکثر نجی ہاسپٹل اور کلنک بند ہیں، جس کی وجہ سے ان بیماریوں سے جوجھ رہے مریضوں کی مشکلیں اور ان کے اہل خانہ کی پریشانیاں دوگنی ہو گئی ہیں۔
بالخصوص کینسر، دل کے مریض اورمستقل ڈائلیسس لینے والے مریضوں کی حالت کافی خراب ہے۔ کئی ریاستوں میں وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے نان کووڈ مریضوں کی موت بھی ہو چکی ہے۔ممبئی کے بھنڈی بازار علاقے کی رہنے والی سید عرشی ان میں سے ایک ہیں۔ 40 سالہ عرشی دل کی مریض تھیں، لیکن 22 اپریل کو ان کی موت برین ہیمریج سے ہوئی۔
ان کے چھوٹے بھائی سعید اعجاز نے دی ہندو کو بتایا،‘اس دن انہیں بےحد کمزوری تھی، دھڑکن بہت تیز ہو رہی تھی اور وہ بول نہیں پا رہی تھیں۔ میرے پاس ان کے گھر سے فون آیا تو میں فوراً انہیں میری گاڑی میں لےکر جے جے ہاسپٹل پہنچا، لیکن وہاں گارڈ نے بتایا کہ ہاسپٹل بند ہے۔ ہم نائر ہاسپٹل گئے لیکن وہاں صرف کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے، جب ڈاکٹر نے وہاں بھرتی کرنے سے منع کیا تب ہم انہیں کے ای ایم ہاسپٹل لےکر پہنچے۔’
انہوں نے بتایا کہ وہ کسی نجی ہاسپٹل میں اس لیے نہیں گئے کیونکہ لاک ڈاؤن اور سٹاف کے کووڈ 19 متاثر ہونے کی وجہ سے اس علاقے کے اکثر پرائیویٹ ہاسپٹل بند تھے۔اعجاز نے بتایا کہ کے ای ایم ہاسپٹل پہنچنے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی عرشی نے دم توڑ دیا۔ ان کے مطابق اس ہاسپٹل میں بےحد خراب انتظامات تھے۔
وہ کہتے ہیں، ‘جب ہم یہاں پہنچے تو صرف ایک ہی ڈاکٹر تھے۔ ہم خود عرشی کو اسٹریچر پر ڈال کر کیجوئل وارڈمیں لےکر گئے۔ آدھے گھنٹے تک یہاں انہیں کسی نے نہیں دیکھا، پھر بہت منت سماجت کے بعد ایک ٹرینی ڈاکٹر نے انہیں ایک انجکشن دیا۔’اعجاز نے بتایا کہ پھر وہ لوگ عرشی کو لےکرایمرجنسی وارڈ میں گئے، لیکن یہاں بھی کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد آئے ڈاکٹر نے سٹی اسکین کروانے کو کہا، لیکن دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب عرشی کی سانسیں تھم گئیں۔
عرشی کے اہل خانہ کا ماننا ہے کہ ہاسپٹل ہاسپٹل بھٹکنے میں خراب ہواوقت اور کے ای ایم میں انہیں صحیح وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے انہیں بچایا نہیں جا سکا۔
اعجاز نے بتایا،‘ایمرجنسی وارڈ میں کئی مریض علاج کے انتظار میں پڑے تھے۔ نرسیں لوگوں پر چلا رہی تھیں، پوری طرح حال خراب تھا۔ جن تین چار گھنٹے ہم وہاں تھے، اس دوران اس وارڈ میں تقریباً 15 موتیں ہوئی تھیں۔’
اس کے دو دن بعد بامبے ہائی کورٹ نے ریاستی حکومتوں کو غیر کووڈ 19 مریضوں کا صحیح علاج یقینی بنانے کو کہا تھا۔ ہائی کورٹ کا یہ تبصرہ ان عرضیوں کے جواب میں آیا تھی، جن میں اس سے پہلے ہوئی دو غیرکووڈ اموات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
حالانکہ یہ حال صرف پرانی بیماریوں سے متاثر مریضوں کا نہیں ہے، بلکہ کئی ایسے مریض ہیں، جنہیں اس لاک ڈاؤن کے دوران کسی سنگین بیماری کے بارے میں پتہ چلا اور اب انہیں صحیح علاج کا انتظار ہے۔اتر پردیش کے الہ آباد کی 15 سال کی روشنی (بدلا ہوا نام)کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مدھیہ پردیش کے اندور میں پڑھنے والی روشنی کو جنوری مہینے سے بخار اور کھانسی کی شکایت تھی۔
کافی علاج کے بعد جب طبیعت نہیں سنبھلی، تب وہ مارچ میں اپنے گھر لوٹیں۔ یہاں گھر کے پاس کے ہی ایک مقامی ڈاکٹر کو دکھایا گیا، جس کی دوا سے فوری طور پر آرام تو ملا، لیکن بخارر کھانسی گئی نہیں۔اس بیچ ڈاکٹر نے خون کی جانچ اور ایکسرے کے لیے کہا۔ اس وقت تک لاک ڈاؤن کااعلان ہو چکا تھا۔ جیسے تیسے جانچ اور ایکسرے ہوا تو سامنے آیا کہ انہیں ٹی بی کا انفیکشن ہے اور جلد سے جلد ٹریٹمنٹ شروع کروانے کی ضرورت ہے۔
شہر کے تمام ہاسپٹل میں او پی ڈی بند ہیں اور نجی ڈاکٹر اپنے کلنک نہیں کھول رہے ہیں۔ ایسے میں مقامی ڈاکٹر اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر کی صلاح سے انہیں ٹی بی کی دوائیاں دے رہے ہیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے، لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران ٹی بی کے معاملے سامنے آنے کی تعداد میں بڑی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 14 سے 29 فروری کے بیچ ملک بھر میں ٹی بی کے 114460 معاملے سامنے آئے تھے، لیکن 1 سے 14 اپریل کے بیچ یہ تعداد گھٹ کر 19145 ہو گئی۔ پہلے مرحلہ کے لاک ڈاؤن کے 21 دنوں میں ٹی بی کے کل 34566 معاملے سامنے آئے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ٹی بی سے ہر دن ہزار سے زیادہ موتیں ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ٹی بی متا ثرہ آٹھ ممالک میں ہندوستان شامل ہے اور دنیاکے ٹی بی مریضوں کی کل تعداد کے 27 فیصدی مریض ہندوستان میں ہی ہیں۔سال 2018 میں دنیا بھر میں ٹی بی سے لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے جان گنوائی تھی، جس میں 29 فیصدی (تقریباً 4.4 لاکھ) مریض ہندوستان کے تھے۔ یہ تعداد ہندوستان میں اس مرض کی صورتحال بیان کرتی ہے۔
مارچ 2018 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2025 تک ملک سے ٹی بی کو ختم کرنے کی بات کہی تھی، جس کے لیے ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر زمینی میڈیکل پیشہ وروں کو اس بارے میں بیداری پھیلانے کاہدف دیا گیا تھا۔لیکن کووڈ بحران کے دوران اس طرح کی مہم بھی ٹھپ پڑی ہیں۔ملک میں ٹی بی کے سب سے زیادہ مریض اتر پردیش میں ہیں۔ یہاں کے 33 اضلاع میں ٹی بی کے متحرک معاملوں کی پہچان کے لیے اپریل میں مہم شروع کی جانی تھی، لیکن اسٹاف ہی نہیں ہیں۔
ریاست کے ٹی بی حکام نے بتایا کہ ان کے سبھی فیلڈ اسٹاف کووڈ 19سے متعلق ڈیوٹی پر ہیں۔ سرکاری اور نجی ہاسپٹل بند ہیں، ایسے میں جن مریضوں میں ٹی بی کی پہچان ہو چکی ہے، انہیں بھی سہولیات نہیں مل پا رہی ہیں۔ایمس دہلی کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ہرجیت سنگھ بھٹی کہتے ہیں،‘اس وقت اگر ملک میں سب سے زیادہ پریشانی میں کوئی ہے تو وہ نان کووڈ مریض ہیں، جو پرانی اور سنگین بیماری سے جوجھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں ٹی بی ایک عام بیماری ہو چکی ہے لیکن اس کا ٹریٹمنٹ موجود ہے۔ اگر آپ دوائیاں لیتے ہیں، تب تک یہ ٹھیک رہتی ہے، نہیں لیں گے تو حالت خراب ہوگی۔’
ان کا کہنا ہے کہ کووڈ وبا کے لیے وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے، وہیں جو پرانی اورسنگین بیماری سے جوجھ رہے مریض ہیں، ان کی پوری طرح ان دیکھی کی جا رہی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی ہاسپٹل اور نجی کلنک بند ہونے کے بیچ کچھ ڈاکٹر ویڈیو کال اور فون کی مدد سے اپنے مریضوں تک پہنچ رہے ہیں۔
سال 2005 میں جئے پور کے ایس ایف ایس علاقے میں رہنے والی 50 سالہ سنیتا(بدلا ہوا نام) کا گلے کے کینسر کا آپریشن ہوا تھا، گزشتہ نومبر میں اچانک گلے میں ہوئی تکلیف کے بعد پتہ چلا کہ یہ واپس لوٹ آیا ہے۔دسمبر میں دہلی کے شالیمار باغ کے ایک نجی ہاسپٹل میں ان کا دوبارہ آپریشن کیا گیا اور وہ ٹریٹمنٹ اب تک جاری ہے۔ ان کے گلے میں نلی لگی ہوئی ہے اورریگولر چیک اپ کروانا ہوتا ہے۔
لاک ڈاؤن کی حالت میں ان کے ڈاکٹر ویڈیو کال کے ذریعے انہیں دوائیاں بتا رہے ہیں اور صلاح دے رہے ہیں۔ حالانکہ نچلےاقتصادی طبقہ سے آنے والے مریضوں کے لیے اس طرح کی کوئی سہولت دور کی کوڑی ہی ہے۔بنیادی طور پر اتر پردیش کے چندوسی کے رہنے والے تسلیم کئی سالوں سے مغربی دہلی کے وکاس نگر میں رہتے ہیں اور ایک ٹھیکیدار کے یہاں یومیہ بڑھئی کا کام کرتے ہیں۔
ان کی بیوی شاہین (45) کو دو سال پہلے بریسٹ کینسر کا پتہ چلا تھا اور گزشتہ دسمبر میں ان کا دہلی کے ایمس میں آپریشن ہوا ہے۔ علاج کے دوران ہی ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کا تعلق شاہین کے دماغ سے ہے، جس کے لیے کچھ دوائیں ریگولرکھانی ہوں گی۔تسلیم کی کمزور اقتصادی صورتحال دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے پٹپڑگنج کے ایک این جی او کے بارے میں بتایا، جو مفت میں یہ دوائی مہیا کرواتے ہیں، لیکن کچھ مہینوں سے وہاں یہ دوائی ملنی بند ہو گئی ہے۔
تسلیم بتاتے ہیں،‘میں 500 روپے یومیہ کمانے والا آدمی ہوں، اتنی مہنگی دوا کہاں سے لاؤں گا؟ 7300 روپے ہفتے کی دوا آتی ہے۔ جب پٹپڑگنج میں دوا ملنی بند ہوئی تو پھر کچھ رشتہ داروں سے پیسے لےکر دوا لی، لیکن کچھ دنوں میں انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔’وہ آگے کہتے ہیں،‘اسی سب میں دو مہینے بیوی کو دوا نہیں ملی، تو حالت اور خراب ہونے لگی، اتنے میں لاک ڈاؤن ہو گیا، اب تو نہ کمائی ہےنہ دوائی!’
اس کے بعد شہریوں کا ایک گروپ، جو کو رونا بحران کےوقت کمزور طبقے والے لوگوں کو میڈیکل سہولیات مہیا کروانے کے لیے کام کر رہا ہے، کو تسلیم کی پریشانی کے بارے میں پتہ چلا، جنہوں نے فی الحال کچھ ہفتوں کے لیے شاہین کی دوا کا انتظام کیا ہے۔لیکن مسئلہ صرف دوائیوں کا ہی نہیں ہے۔ کینسر کے مریضوں میں اس بیماری کی اسٹیج بہت معنی رکھتی ہے، جس کی بنیاد پر ہی اس کا ٹریٹمنٹ طےکیا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب تک مریض میں اس کی اسٹیج کی پہچان ہوئی، تب تک مرض سنگین صورتحال میں پہنچ گیا۔
دہلی کے شاستری پارک کے رہنے والے محمد یونس(بدلا ہوا نام) کی کہانی ایسی ہی ہے۔ نومبر 2019 میں دانت کے درد کی دوا لینے پہنچے 40 سالہ یونس کو کچھ جانچ کے بعد انہیں اورل کینسر ہونے کی بات پتہ چلی، یہ دوسری اسٹیج پر تھا۔بایوپسی کے بعد ان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جلد سے جلد آپریشن کی صلاح دی گئی۔ اہل خانہ نے جیسے تیسے روپیوں کا انتظام کیا اور شالیمار باغ کے ایک نجی ہاسپٹل میں دسمبر میں ان کا آپریشن کیا گیا۔
اس کے بعد 40 دنوں کے اندر انہیں کیموتھیراپی اور ریڈی ایشن تھیراپی شروع کروانے کو کہا گیا لیکن نجی ہاسپٹل کا خرچ برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے اہل خانہ انہیں لے کر جی ٹی بی ہاسپٹل گئے، جہاں سے انہیں دہلی اسٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ، دلشاد گارڈن بھیجا گیا۔کئی طرح کے ٹیسٹ وغیرہ کے بعد فروری کے بیچ میں ان کا پہلا ریڈی ایشن شروع ہوا، جو بنا کسی رکاوٹ کے 31 مارچ تک چلا۔ اس بیچ ایک کیمو بھی ہوئی۔
لیکن 31 مارچ کو ہی یہاں کے ایک ڈاکٹر کو کووڈ پازیٹو پایا گیا، جس کے بعد اپریل کے پہلے ہفتے تک انسٹی ٹیوٹ کے 26 اسٹاف ، 4 مریض اور ایک مریض کے اہل خانہ کے کو رونا پازیٹو ملنے کے بعد اس کو بند کر دیا گیا۔
ان کی بیوی گلشن (بدلا ہوا نام) بتاتی ہیں، ‘2 مئی کو ایک مہینے بعد دوبارہ ریڈی ایشن تھیراپی شروع ہوئی ہے۔ کیمو کب ہوگی ابھی نہیں پتہ۔ اس بیماری کے ساتھ سب سے بڑا ڈر ہے کہ یہ واپس نہ لوٹ آئے۔ ایسےوقت میں جو تھیراپی اب تک پوری ہو جانی چاہیے تھی، وہ ہو نہیں سکی۔’
گلشن بتاتی ہیں کہ نجی ہاسپٹل کی طرف سے ایک دوائی عمر بھر کھانے کو کہا گیا تھا، جس سے حالت اور نہ بگڑے، لیکن لاک ڈاؤن کے بیچ یہ دوائی مل ہی نہیں رہی ہے۔گھر کی بگڑتی اقتصادی صورتحال، تین بیٹیوں کی ذمہ داری کے بیچ پھنسی گلشن کا ڈر ہے کہ کہیں تھیراپی میں ہوئی دیری اور سہی وقت پر دوائیوں کا نہ ملنا یونس کو ایسے حال میں نہ پہنچا دے، جہاں سے انہیں واپس لانا ممکن نہ ہو سکے۔
گلشن کا ڈر غلط نہیں ہے۔ ڈاکٹر بھٹی بتاتے ہیں، ‘اگر کسی کا کینسر کیمو تھیراپی سے کنٹرول ہو رہا تھا اور اب اسے وہ نہیں مل پا رہی ہے تو حالت بگڑےگی ہی، ہو سکتا ہے کینسر واپس لوٹ آئے اور ایسی صورتحال بھی آ سکتی ہے، جہاں اسے علاج یا دوائیوں سے بھی قابو نہ کیا جا سکے۔’
لاک ڈاؤن اور کووڈ 19 کے انفیکشن کی وجہ سے بند ہو رہے ہاسپٹل کے بیچ نہ صرف کینسر مریض بلکہ باقاعدگی سے ڈائلیسس لینے والے مریض بھی بے حدخراب صورتحال میں ہیں، جو ان کی زندگی کے لیے بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔عام طور پر وہ مریض، جن کے گردے سہی سے کام کرنا بند کر چکے ہوتے ہیں، انہیں ایک خاص وقفہ پر جسم سے پانی اور زہریلے عناصر نکالنے کے لیے ڈائلیسس کی ضرورت ہوتی ہے۔
ساتھ ہی ایسے مریضوں کی بیماری سے لڑنے کی قوت بےحد کم ہوتی ہے، جس سے ان میں کسی بھی طرح کے انفیکشن کا خدشہ بنا رہتا ہے۔مریض کی حالت دیکھتے ہوئے انہیں ہفتے میں دو سے تین بار ڈائلیسس کروانا ہوتا ہے، جس سے ان کے سبھی عضو سہی طرح سے کام کر سکیں۔ اگر ایسے مریض زیادہ وقت تک یہ نہ کروائیں تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔
اپریل کے دوسرے ہفتے میں دہلی کی 45 سال کی کنچن دیوی کووقت پر ڈائلیسس نہ ملنے سے ان کی جان چلی گئی ۔ گزشتہ ڈھائی سالوں سے وہ مشرقی دہلی کے ایک ہاسپٹل میں ریگولر ڈائلیسس کروا رہی تھیں، لیکن اس بار ہاسپٹل میں کووڈ انفیکشن ملنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔
ان کے بیٹے نے ایک اخبار کو بتایا کہ انہوں نے تین نجی اور ایک سرکاری ہاسپٹل میں فون کیا لیکن سبھی نے انہیں بھرتی کرنے سے منع کر دیا۔ ان کی لگاتار بگڑتی حالت کو دیکھ کر اہل خانہ ایک نجی ہاسپٹل کے ایمرجنسی محکمے میں پہنچے، جہاں جب تک ڈائلیسس دیا گیا، بہت دیر ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر بھٹی کا کہنا ہے کہ مریض کو ڈائلیسس نہ مل پانا اس کا قتل کرنے جیسا ہے کیونکہ اس مریض کی جان بچانے کا جو پروسس ہے، آپ نے اس سے اس کو محروم کر دیا۔کنچن کا علاج مشرقی دہلی کے شانتی مکند ہاسپٹل میں چل رہا تھا، جس کے ڈائلیسس سینٹر کو ہاسپٹل میں کو رونا انفیکشن ملنے کے بعد بند کیا گیا۔
دہلی کے مول چند ہاسپٹل کا حال بھی ایسا ہی ہے، جس کا ڈائلیسس سینٹر کو رونا انفیکشن کی وجہ سے بند کیا گیا ہے۔ ایسے میں یہاں آنے والے مریض اور ان کے اہل خانہ لاک ڈاؤن کے بیچ آنے جانے کے وسائل کے فقدان میں دردر بھٹکنے کو مجبور ہیں۔وزیرآباد کے سلمان کی ماں شاہدہ (50) کا علاج بھی اسی ہاسپٹل میں چل رہا تھا۔ انہیں شوگراور دل کی بیماری ہے اورریگولر ڈائلیسس کروانا ہوتا ہے۔
کتابوں پر جلد چڑھانے کا کام کرنے والے سلمان نے ای ڈبلیو ایس کارڈ بنوایا ہوا تھا، جس کی مدد سے مفت علاج مل جاتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب سے ہاسپٹل بند ہوا، شہر کے ہر کونے کے ہاسپٹل میں بھٹکنے کے بعد شاہین باغ کا ایک کلنک میں ڈائلیسس کرنے کے لیے تیار ہوا، جہاں ہر سیشن کے لیے تقریباً ڈھائی ہزار روپے فیس دینی ہے۔
وہ بتاتے ہیں، ‘دو مہینے ہونے کو آئے، کام بند ہے، دوستوں رشتہ داروں سے پیسے لےکر جیسے تیسے ماں کا علاج کروا رہا ہوں۔’حالانکہ ہاسپٹل کو مرکزی وزارت داخلہ اور دہلی سرکار کی جانب سے باربارسنگین بیماریوں سے متاثر مریضوں کو بھرتی کرنے اور صحیح علاج مہیا کروانے کی ہدایت دی گئی ہیں، لیکن لاک ڈاؤن کے بیچ سہی وقت پر ہاسپٹل تک پہنچنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
اس بیچ ہاسپٹل میں پھیلے انفیکشن کی وجہ سے کمزور امیونٹی (قوت مدافعت)کی وجہ سے سنگین بیماریوں سے جوجھ رہے مریضوں میں کسی بھی طرح کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں، جہاں کسی دوسری بیماری کے علاج کے لیے ہاسپٹل جا رہے مریض کو کو رونا کا انفیکشن ہوا، جو آخر میں جان لیوا ثابت ہوا۔دہلی کے جامعہ نگر کی رفعت (بدلا ہوا نام) کی ایک خاتون رشتہ دارشوگر اور لیور کی بیماری سے جوجھ رہی تھیں، جس کا علاج ایمس میں چل رہا تھا۔ ڈاکٹر کے ذریعے ایک انجکشن بتایا گیا تھا، جسے ریگولر لینا ہوتا تھا۔
لاک ڈاؤن ہو جانے کے بعد وہ پاس کے ایک کلنک میں ہر دوسرے دن یہ انجکشن لگوانے جا رہی تھیں، جب ایک دن انہیں سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔ان کے اہل خانہ کا ماننا ہے کہ انہیں یہ انفیکشن اسی کلنک سے ہوا ہو سکتا ہے، جہاں وہ انجکشن لگوانے جاتی تھیں۔ اہل خانہ نے کووڈ 19 کا ٹیسٹ کروایا جو پازیٹو نکلا۔
رفعت بتاتی ہیں کہ پریشانی یہیں سے شروع ہوئی۔ بد انتظامیوں کی صورتحال یہ تھی کہ پازیٹو پائے جانے کے 24 گھنٹے بعدایمبولینس رات کے ڈیڑھ بجے لینے آئی اور ایک سرکاری ہاسپٹل لے گئی۔ یہاں کہا گیا کہ بیڈ نہیں ہے اور انہیں صبح سویرےواپس گھر بھیج دیا گیا۔اس کے بعد کچھ لوگوں کے کال کرنے پر انہیں راجیو گاندھی ہاسپٹل لے جایا گیا، جہاں انہیں آئسولیشن وارڈ میں رکھا گیا۔ رفعت کے مطابق، اس وارڈ میں باہر سے تالا لگا دیا گیا تھا اور اگلے تین دنوں تک کوئی ڈاکٹر دیکھنے نہیں آیا۔
اس بیچ اہل خانہ نجی ہاسپٹل میں بھی رابطہ کر رہے تھے اور ایک دن بیڈ دستیاب ہو جانے پر انہیں ساکیت کے میکس ہاسپٹل میں لے جایا گیا۔ یہاں آنے تک ان کی طبیعت کافی بگڑ چکی تھی، کئی عضو متاثر تھے۔ انہیں وینٹی لیٹر پر بھی رکھا گیا، لیکن آخر میں انہیں بچایا نہیں جا سکا۔
رفعت کہتی ہیں، ‘پرائیویٹ ہاسپٹل میں دن کی 50 ہزار روپے فیس تھی، مڈل کلاس لوگ ہیں، کہاں سے اتنا پیسہ لائیں گے، یہی دیکھ کر سرکاری ہاسپٹل میں جانے کا سوچا، لیکن اگر پہلے ہی انہیں پرائیویٹ میں لے جاتے تو شاید جان بچ جاتی۔’ڈاکٹر بھٹی کہتے ہیں،‘یہ ہیلتھ ایمرجنسی آنی تھی سرکار اور سسٹم کے اوپر، لیکن یہ آ گئی ہے غیرکووڈ مریضوں کے اوپر، جو اب اس سے اکیلے لڑ رہے ہیں۔’وہ آگے کہتے ہیں کہ سرکار کو اگلے تین یا چھ مہینوں تک نجی ہاسپٹل کو ساتھ لےکر ایک ایسا سسٹم بنانا چاہیے، جس سے پہلے سے ہی خستہ حال چل رہی ہیلتھ سروسزکو سدھارا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے، ‘ہم ملک کے مزدوروں کی پریشانی دیکھ پائے کیونکہ وہ اکٹھے ہوکر سامنے آئے ہیں لیکن نان کووڈ مریض کہیں اکٹھے ہوکر سامنے نہیں آئے ہیں، اس لیے ان کا درد ہمیں پتہ نہیں چل رہا ہے۔’
Categories: فکر و نظر