قابل ذکر ہے کہ 13 سے 15 دسمبر 2019 کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ہوئے تشدد کےواقعات کو لےکر دہلی پولیس کے خلاف کارروائی کی مانگ کو لےکر دہلی ہائی کورٹ میں دائرعرضیوں کے جواب میں پولیس نے کہا ہے کہ تشدد کےواقعات کچھ لوگوں کے ذریعے منصوبہ بند تھا۔
نئی دہلی: دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے دہلی ہائی کورٹ میں کہا ہے کہ دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ہو رہےشہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف مظاہرہ ‘چھٹ پٹ’واقعات نہیں بلکہ ‘منظم’واقعات تھے کیونکہ ‘شرپسند پتھر، لاٹھی اور پٹرول بم سے لیس تھے، جو صاف دکھاتا ہے کہ اس بھیڑ کا ارادہ اس حلقہ میں انتشار پیدا کرنا تھا۔’
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 13-15 دسمبر 2019 کے بیچ یونیورسٹی کے آس پاس ہوئے واقعات پر وکیل نبیلہ حسن کی طرف سے دائر پی آئی ایل کے جواب میں دہلی پولیس نے وکیل امت مہاجن اور رجت نائر کے ذریعے داخل ایک حلف نامے کے جواب میں یہ کہا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ‘…طلبا کے مظاہرہ کی آڑ میں اس علاقے میں جو کچھ بھی ہوا، ایسا لگتا ہے کہ کہ یہ کچھ لوگوں کے ذریعے مقامی حمایت(جو اسٹوڈنٹ نہیں تھے)کے ساتھ جان بوجھ کر علاقے میں تشدد پھیلانے کی منظم اور منصوبہ بند کوشش تھی۔’حلف نامے میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ‘ناگزیر وجوہات کی بناپرپولیس کا یونیورسٹی میں داخل ہونا بےحد ضروری ہو گیا تھا کیونکہ اسے شرپسندوں کے کے ذریعےپولیس پر پتھر اور دوسری خطرناک چیزیں پھینکنے کے لیے ڈھال کی طرح استعمال کیا جا رہا تھا، جیسا کہ دہلی پولیس کے ذریعےاکٹھا کئے گئے الکٹرانک شواہد میں بھی نظر آتا ہے۔’
معلوم ہو کہ ان عرضیوں میں سی اے اے مخالف مظاہرہ کے دوران یونیورسٹی میں پولیس کی مبینہ بربریت کے خلاف ہدایت دینے اور درج ایف آئی آر کو رد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔دہلی پولیس نے کہا کہ یہ عرضیاں پی آئی ایل کا غلط استعمال ہیں کیونکہ کیمپس میں اور اس کے آس پاس تشدد کےواقعات کچھ لوگوں کے ذریعےمنصوبہ بندتھا اور انہیں مقامی حمایت حاصل تھی۔
عرضی گزاروں میں سے ایک نبیلہ حسن نے یونیورسٹی کے باشندوں،طلبا اورعرضی گزاروں کے خلاف پولیس کی مبینہ بربریت کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔ تشدد کی جانچ کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کرنے کی مانگ والی مختلف عرضیوں کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ پولیس کی بربریت کا دعویٰ پوری طرح سے غلط ہے۔
معلوم ہو کہ جنوبی دہلی کے اس علاقے میں 15 دسمبر کو سی اے اے کے خلاف ہوئے ایک مظاہرہ کے بعد جامعہ ملیہ کیمپس میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اور یہاں ہوئے تشدد میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ پولیس پر الزام لگا تھا کہ اس نے بناانتظامیہ کی اجازت کے یہ قدم اٹھایا اور لائبریری میں گھس کر طلبا کو بری طرح پیٹا۔
بتایا گیا تھا کہ اس مظاہرہ میں شامل کچھ مقامی اور جامعہ طلبا نے پارلیامنٹ کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد انہیں پولیس کے ذریعے متھرا روڈ پر روک دیا گیا اور پھر تشدد بھڑکا۔ اس سے پہلے 13 دسمبر کو بھی اس حلقہ میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہوا تھا۔
ہائی کورٹ میں دائر اس پی آئی ایل کےعرضی گزاروں میں وکیل، جامعہ کے اسٹوڈنٹ، اوکھلا کے باشندے اور پارلیامنٹ کے سامنے بنی جامع مسجد کے امام شامل ہیں، جنہوں نے ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر،طلبا کے لیے علاج اور معاوضے کی بھی مانگ کی ہے۔
حلف نامے میں پولیس کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے ہے، ’65 پولیس اہلکاروں کا گھایل یا زخمی ہونا تشدد کے پیمانے کو دکھاتا ہے، جس کوکامیابی سے ختم کر دیا گیا تھا۔ سبھی 189 لوگوں (جن میں طلبا بھی شامل تھے) کو اسپتال لے جایا گیا تھا، جہاں سے سبھی کو ضروری علاج دےکر چھوڑ دیا گیا تھا۔ تصدیق کرنے کے مقصد سے جن لوگوں کو عارضی طور پر حراست میں لیا گیا تھا، ان میں سے جو اسٹوڈنٹ تھے، انہیں پولیس کے ذریعےیونیورسٹی کے پراکٹر کو بلاکر سونپ دیا گیا تھا، جنہوں نے طلبا کو پہچان کر یہ بات تحریری طور پر دی تھی۔ نہ اس وقت اور نہ ہی اس کے بعد کسی بھی اسٹوڈنٹ کو پولیس کے ذریعے گرفتار یا حراست میں لیا گیا ہے۔’
اس کے بعدجمعہ کو دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران جامعہ تشدد سے متعلق مختلف عرضیوں پر وہ اگلے ہفتے شنوائی کرےگا۔چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس پرتیک جالان کی بنچ نے معاملے کو 12 جون کے لیے لسٹ کیا۔ عرضی گزار کی طرف سے پیش سینئر وکیل کالن گونجالوس اور وکیل اسنیہا مکھرجی نے دہلی پولیس کی جانب سے دائر حلف نامے پر جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے وقت مانگا۔
کو رونا وائرس کی وجہ سے معاملے کی شنوائی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ دہلی پولیس کی طرف سےعرضیوں کو خارج کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں