پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کا سرکاری ڈیٹا بتاتا ہے کہ 25 مارچ سے دو جون کے لاک ڈاؤن کے دوران اس سے پہلے کے 12 ہفتوں کے مقابلے سرجیکل اور یگر طبی دیکھ بھال کے معاملات میں نمایاں گراوٹ درج کی گئی۔
نئی دہلی: ملک میں کورونا وائرس کے مد نظر لگائے گئے لگ بھگ 10 ہفتے کے لاک ڈاؤن کے دوران پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا(پی ایم-جےوائی)یعنی آیوشمان بھارت یوجنا سے فائدہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں ہفتہ وار اوسطاً 51 فیصدی سے زیادہ کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران (25 مارچ سے دو جون تک)اس منصوبے کے ایک ہفتہ کے اوسطاً فائدہ حاصل کرنے والوں کی تعداد لاک ڈاؤن سے پہلے کے 12 ہفتوں (ایک جنوری سے 24 مارچ)کے مقابلے میں گھٹی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 25 مارچ سے دو جون کے لاک ڈاؤن کے دوران آیوشمان بھارت یوجنا کی جانب سے شائع اعدادوشمار کے تجزیہ سے یہ پتہ چلا ہے۔
اس منصوبے کو چلانےنے والی تنظیم نیشنل ہیلتھ اتھارٹی(این ایچ اے)کے مطابق، اسی دوران آیوشمان بھارت سے فائدہ اٹھانے والے کچھ لوگوں نے اپریل اور مئی میں اعلان کیے گئے کورونا پیکیج کا فائدہ بھی اٹھایا تھا۔کل ملاکر سرجیکل میں 57 فیصدی کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے اس کا ہفتہ وار اوسطاً 62630 تھا، جو لاک ڈاؤن کے دوران 27167 رہ گیا۔
طبی معاملوں میں 46 فیصدی کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے اس کی شرح ہفتہ وار6341 تھی جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران یہ 35108 رہ گئی۔اوسطاً ہفتہ وار معاملوں کے تناظر میں دیکھیں تو 25 مارچ سے دو جون کے بیچ آیوشمان بھارت کے پلان کیئر میں 80 فیصدی گراوٹ آئی ہے، جبکہ ان پلان کیئر میں 56 فیصدی کی گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کا رجحان سرکاری کے بجائےنجی سیکٹر کی طرف دیکھا گیا، جس کی وجہ شاید سرکاری اسپتالوں پر کورونا کا بوجھ ہونا تھا۔لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران نمونیا، بخار سے متعلق بیماری اور پائریکسیا جیسی سانس سے متعلق بیماریوں کے پیکیج کے استعمال میں 68 فیصدی کی گراوٹ آئی۔
رپورٹ کے مطابق، اس مدت میں سب سے تیز گراوٹ موتیا بند ، گھٹنے اور کولہے کی سرجری میں دیکھنے کو ملی ہے۔لاک ڈاؤن سے پہلے موتیا بندہفتہ وار4073 سرجری کی تعداد لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں گھٹ کر 50 رہ گئی لیکن گزشتہ تین ہفتوں میں اس میں اچھال دیکھنے کو ملا اور یہ اوسطاً 687 ہو گئی۔
اسی طرح گھٹنے اور کولہے کی سرجری کے معاملے، جن کی تعداد عموماً 339 رہا کرتی تھی، لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں یہ تعداد 12 تک پہنچ گئی تھی۔اس کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں زیادہ خرچ والی کارڈیووسکلر سرجری میں لگ بھگ 80 فیصدی کی گراوٹ دیکھنے کو ملی۔ لاک ڈاؤن سے ایک ہفتے پہلے اس کے لیے 2269 معاملے تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے پہلے تین ہفتے میں اس کا اوسط 768 رہا۔
پہلے سے طے اور نظر انداز نہ کی جانے والی ایمرجنسی سرجری، جو لائف سپورٹ سسٹم ثابت ہو سکتی ہیں، ان میں اوسطاً لگ بھگ چھ فیصدی کی گراوٹ دیکھنے کو ملی۔ صرف کڈنی ڈائلیسس میں کسی طرح کی بڑی گراوٹ درج نہیں ہوئی۔اس اسکیم کے تحت کینسر کے علاج اور دیگر ضروری خدمات میں بھی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ زچگی کے لیے حاملہ خواتین کے بھرتی ہونے کی شرح میں بھی 26 فیصدی کی کمی آئی ہے۔
نیشنل ہیلتھ اتھارٹی کے مطابق، مردوں کے مقابلے لاک ڈاؤن کے دوران خواتین، بچوں اور بزرگوں کے فائدہ حاصل کرنے کی شرح میں بڑی گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں بڑےفرق کو ریاستی لحاظ سے دیکھیں تو آسام، مہاراشٹر اور بہار جیسی ریاستوں میں فائدہ اٹھانے والوں کی تعدادمیں 75 فیصدی کی کمی آئی ہے۔ حالانکہ اتراکھنڈ، پنجاب اور کیرل جیسے ریاستوں میں یہ اعداد وشمار 25 فیصدی ہی ہے۔
Categories: خبریں