خبریں

دہلی انتخاب کے دوران بی جے پی رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد فسادات ہو ئے: رپورٹ

فروری2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات پر دہلی اقلیتی کمیشن کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی رہنما کپل مشراکی تقریر کے بعد فسادات شروع ہوئے تھے لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: دہلی اقلیتی کمیشن(ڈی ایم سی)نے اس سال فروری میں ہوئے فسادات کے لیےجمعرات کو جاری اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بی جے پی رہنماؤں پر انگلی اٹھائی ہےاور ان پر اسمبلی انتخاب کے دوران بیانات کے ذریعے مبینہ  طور پر لوگوں کو ‘اکسانے’ کا الزام لگایا ہے۔ڈی ایم سی کے بیان کے مطابق، ‘دہلی اسمبلی انتخاب کی تشہیری مہم کے دوران دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دہلی بی جے پی کے رہنماؤں نے سی اے اے مظاہرین کے خلاف تشدد بھڑ کانے کے لیےلوگوں کو اکسانے والے کئی بیانات دیے۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی رہنما کپل مشرا کے موج پور میں دیےبیانات کے بعد شمال مشرقی دہلی کے مختلف حصوں میں فسادات بھڑکے تھے۔ مشرانے دہلی پولیس کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پولیس ان مظاہرین کو نہیں ہٹاتی ہے تو ان کے لوگ سڑک خالی کرانے کے لیے اتر جائیں گے۔

معلوم ہو کہ اس وقت شہر کے مختلف حصوں میں متنازعہ شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا،‘یہ صاف  ہے کہ بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے اینٹی سی اے اے مظاہرہ  کو بدنام کرنے کے لیے دیے گئے بیانات کے بعد فسادات بھڑکے تھے۔ مظاہرین کے خلاف غیر مہذب تبصرے کیے گئے، جس میں فرقہ وارانہ  باتیں اور تشدد بھڑ کانے کی دھمکی بھی شامل تھی۔ شاہین باغ  مظاہرے کی منفی امیج دکھائی گئی تاکہ اینٹی شاہین باغ  نیریٹو تیار کیا جا سکے۔’

اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں عینی شاہدین کے بیانات کی بنیاد پر فسادات کے دوران ہوئے نقصان کے اندازے کو بھی پیش کیا ہے اور پولیس کارروائی کی  تفصیلات بھی دی گئی ہے۔انہوں نے کہا، ‘کچھ جگہوں پر پولیس بالکل خاموش تماشائی بنی رہی، جبکہ بھیڑ لوٹ پاٹ، گھر جلانے اور تشدد کا کام کر رہی تھی۔دوسری جگہوں پر پولیس نے شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ تشدد کا کام جاری رکھیں۔ کچھ مثالیں یہ بھی بتاتی  ہیں کہ کس طرح سے پولیس اور پیرا ملٹری آفیسر نے شرپسندوں کو محفوظ  طریقے سےان علاقوں سے باہر نکالا۔’

رپورٹ کو خارج کرتے ہوئے دہلی بی جے پی کے ترجمان  ہریش کھرانہ نے کمیشن پر اپنی پارٹی کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرنے  کاالزام لگایا۔پہلے ہی ایل جی انل بیجل اوروزیراعلیٰ  اروند کیجریوال کو سونپی جا چکی 130صفحے کی اس رپورٹ میں دہلی پولیس پر بھی ‘غیرفعالیت’ کاالزام لگایا گیا ہے۔

دہلی پولس کے ایڈیشنل ترجمان انل متل نے کہا، ‘ہمیں دہلی اقلیتی کمیشن کی جانب سے اب تک کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔ ہم اس کامطالعہ کریں گے اور پھر ردعمل  دیں گے۔ حالانکہ دہلی پولیس لوگوں کو آگے آنے اور اپنی شکایتیں درج کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہم نے ایک مضبوط پبلک  شکایت سسٹم بھی قائم کیا ہے، اخباروں میں اشتہارات جاری کیے ہیں اور لوگوں کو اپنی شکایتیں درج کرنے کے لیے ایک ہیلپ لائن نمبر شروع کیا ہے۔’

وہیں کھرانہ نے کہا،‘یہ ایک سیاسی  رپورٹ ہے۔ کیا اس میں کونسلرطاہر حسین کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ فسادات کے سلسلے میں جیل میں ہے؟’ڈی ایم سی کے دفتر میں کمیشن کے صدر ظفر الاسلام خان اور 10رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی  کی قیادت کرنے والے ایم آر شمشاد نے رپورٹ کو جاری کیا۔

رپورٹ کے اہم نتائج میں تشدد کے لیے ‘باربار اکساوے’ کاذکر کیا گیا ہے۔