بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے سال 2009 میں پہلی بار وی آرایس لیا تھا اور تب چرچہ تھی کہ وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ اب اسمبلی انتخاب سے کچھ ہی مہینے پہلے ان کے دوبارہ وی آرایس لینے کے فیصلے کو ان کے سیاسی عزائم سے جوڑکر دیکھا جا رہا ہے۔
تمام قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے 22 ستمبر کو بہار کے معروف اورمتنازعہ ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے دوسری بار رضا کارانہ ریٹائرمنٹ لے لیا۔بہار کےمحکمہ داخلہ نے اس سلسلے میں ایک آرڈربھی جاری کر دیا۔آرڈر میں لکھا گیا ہے،‘ڈی جی پی گپتیشور پانڈے کےمورخہ 22.9.2020 کی سہ پہر سے رضا کارانہ ریٹائرمنٹ قبول کیے جانے کے نتیجے میں اگلے حکم تک ڈی جی پی کااضافی چارج سنجیو کمار سنگھل کو دیا جاتا ہے۔’
گزشتہ 22ستمبر کی شام سرکاری احکامات کی کاپی سوشل میڈیا پر آنے کے ساتھ ہی گپتیشور پانڈے کا اپنا پبلسٹی سسٹم بھی متحرک ہو گیا۔ گپتیشور پانڈے نے اپنے فیس بک پیج پر مطلع کیاکہ وہ 23 ستمبر کی شام فیس بک لائیو کے ذریعے اپنی زندگی کی جدوجہد کے بارے میں بتائیں گے۔
اس کے کچھ دیر بعد انہوں نے دہلی کی ایک میڈیا ویب سائٹ کو دیے اپنے سوا گھنٹے کے انٹرویو کو شیئر کیا۔ اس انٹرویو کا کچھ حصہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے اپنے سوشل میڈیا پیج پر شیئر کر رہے تھے۔اتنا ہی نہیں، کچھ دنوں سے ایک گانے کا ٹیزر بھی سوشل میڈیا پر چل رہا تھا جس میں گپتیشور پانڈے کو بہار کا رابن ہڈ بتایا گیا ہے۔ اس گانے کو دیپک ٹھاکر نے لکھا اور گایا ہے۔
گزشتہ 22 ستمبر کی دیر رات ٹھاکر نے بھی‘پبلک ڈیمانڈ’ کا حوالہ دےکر پورا گانا اپنے یوٹیوب چینل پر جاری کر دیا۔ معلوم ہو کہ رابن ہڈ مغربی لوک کہانیوں کا ایک ہیرو ہے، جو امیروں کا خزانہ لوٹ کر اسے غریبوں میں بانٹ دیا کرتا تھا۔گپتیشور پانڈے1987 سے پولیس سروس میں ہیں، لیکن خود کو رابن ہڈ کیوں مانتے ہیں، یہ سمجھ سے پرے ہے۔
تین دن پہلے پانڈے نے بکسر کے جے ڈی یورہنما ودھیانچل کشواہا سے ملاقات کی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ودھیانچل کشواہا سے جب گپتیشور پانڈے کو لےکر سوال پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا تھا، ‘گپتیشور پانڈے اچھے آدمی ہیں، اگر پارٹی میں آئیں گے تو استقبال ہے۔’
دوسری طرف، انتخاب لڑنے کو لےکر گپتیشور پانڈے سے جب سوال پوچھا گیا تھا، تو انہوں نے اسے افواہ قرار دیا تھا۔لیکن، وی آرایس سےمتعلق آرڈر جاری ہوتے ہی گپتیشور پانڈے اچانک سوشل میڈیا پرجس طرح متحرک ہوئے، اس سے صاف ہے کہ پچھلے کچھ وقت سے وہ وی آرایس لیتے ہی اپنی امیج چمکانے کی تیاری کر رہے تھے۔
گپتیشور پانڈے پر مہربان بہار سرکار
گپتیشورپانڈےکی مدت کار اگلے سال فروری میں ختم ہو رہی ہے۔ایسے میں اسمبلی انتخاب سے لگ بھگ ایک ڈیڑھ مہینے پہلے اچانک وی آرایس لینے سے اس بات کو مضبوطی ملتی ہے کہ وہ اسمبلی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔اب تک بہار سرکار اور بالخصوص نتیش کمار کو لےکر ان کا جس طرح کاردعمل آتا رہاہے، اس سے لگتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پرجےڈی یو کے ٹکٹ پر میدان میں اتر سکتے ہیں۔
گپتیشورپانڈے اس سے پہلے 2009 میں بھی رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔ اس وقت چرچہ تھی کہ بی جے پی کے ٹکٹ سے وہ لوک سبھا انتخاب لڑیں گے، لیکن عین وقت پرپانچ بار کے رکن پارلیامان لال منی چوبے کو ٹکٹ دے دیا گیا۔رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لینے کےتقریباً9 مہینوں کے بعد وہ دوبارہ سروس میں لوٹے۔ بہار سرکار نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور جس عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے استعفیٰ دیا تھا، اسی پر دوبارہ بحال ہو گئے۔
اس وقت پولیس محکمے کی تاریخ میں اسے ‘ریئریسٹ آف ریئر’ کیس مانا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ 27 فروری 2009 کو انہوں نے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی درخواست دی تھی، جس کو15 مارچ 2009 کو قبول کر لیا گیا تھا۔دستاویز کے مطابق، اسی سال 24 مارچ کو بہار کے محکمہ داخلہ کو گپتیشور پانڈے کا ایک خط ملا تھا، جس میں نوکری پر دوبارہ بحالی کی اپیل کی گئی تھی۔
اسی تاریخ میں اسی سلسلے میں وزیراعلیٰ نتیش کمار کے چیف سکریٹری کا بھی ایک خط ملا تھا، جسے 21 مارچ کو لکھا گیا تھا۔ لیکن،خط ملنے سے پہلے ہی رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا عمل مکمل ہو چکا تھا۔دستاویز میں آگے لکھا گیا ہے، ‘رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کاعمل مکمل ہونے کے بعدسروس میں واپس آنا ضابطہ اور قانون کے تحت ممکن نہیں ہے۔’
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ گپتیشور کی بحالی کس قانون کے تحت کی گئی؟ بہرحال، نوکری میں واپسی کے بعد تمام تنازعات کے باوجود ان کو پرموشن پر پرموشن ملتا رہا۔
ایک آئی پی ایس افسر جو مبینہ طور پر بی جے پی کے ٹکٹ سے لوک سبھا انتخاب لڑنے کے لیےوی آرایس لے چکا ہو، وہ یقینی طور پر غیرجانیدارتو ہو نہیں سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود نتیش سرکار نے نہ صرف ان کی تقرری کی بلکہ ریاستی پولیس میں سب سے اعلیٰ عہدہ بھی دے دیا۔
سال2009 میں ان کی دوبارہ بحالی پرسنگین سوال اٹھے تھے اور اب 22 ستمبر کو انہیں جس طرح آناً فاناً میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ دی گئی، اس پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
جانکاروں کا ماننا ہے کہ بہار سرکار نے ضابطوں کی ان دیکھی کرکے انہیں وی آرایس دیا ہے۔ نیشنل پولیس اکادمی میں ڈائریکٹر رہ چکے سینئرآئی پی ایس افسر شنکر سین نے د ی وائر کو بتایا،‘آئی پی ایس افسروں کوفوراً وی آرسی نہیں دیا جا سکتا ہے۔ وی آرایس دینے کا طے شدہ ضابطہ ہے۔’
انہوں نے بتایا،‘وی آرایس کے لیے ریاستی سرکار کے پاس درخواست دیے جانے کے بعد سرکار جانچ کرتی ہے کہ وی آرایس کے خواہش مند آئی پی ایس افسر کے خلاف کوئی جانچ تو نہیں ہو رہی ہے یا انہوں نے اپنی مدت کار میں کوئی غلط کام تو نہیں کیا ہے۔’شنکر سین نے بتایا،‘اس کے بعد ریاستی سرکار وی آرایس کی درخواست مرکزی حکومت کوفارورڈ کرتی ہے۔مرکزی حکومت کی اجازت ملنے کے بعد وی آرایس کا عمل مکمل ہوتا ہے۔اس عمل کو پورا کرنے میں 3 سے 6 مہینے لگتے ہیں۔’
واضح سیاسی رجحان
گپتیشورپانڈے کو وی آرایس دینے کاعمل سوالوں کے گھیرے میں تو ہے ہی، مگر جس طرح سے وہ سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے معاملے میں متحرک دکھے اور کسی سیاسی رہنما کی طرح بیان بازی کرتے رہے، اس سے ان کےسیاسی رجحان کا پتہ چلتا ہے۔
ویسے کسی آئی پی ایس افسر کا کسی سیاسی پارٹی کے لیے رجحان ہو ہی سکتا ہے، یہ غیرفطری بھی نہیں ہے، لیکن ایک آئینی عہدےپر بیٹھے شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عوامی طور پر ایک رہنماکی طرح نہیں، بلکہ پولیس افسر کی طرح برتاؤ کرے۔
لیکن، گپتیشورپانڈے نے گاہے بہ گاہے کسی رہنما کی طرح بیان بازی کی۔ خاص طور پر سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے معاملے میں انہوں نے ایک ڈی جی پی نہیں بلکہ ایک رہنما کی طرح بیان دیا۔ہر تیسرے دن وہ ٹی وی چینلوں کی لائیو ڈبیٹ میں آنے لگے۔ انہوں نے ریا چکرورتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نتیش کمار پر کمنٹ کرنے کی ریا چکرورتی کی اوقات نہیں ہے۔
انہوں نے سشانت سنگھ راجپوت کو بہار کا بیٹا قرار دیا اور انہیں انصاف دلانے کی بات کہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نتیش کمار نے انہیں بہار سرکار کی بات رکھنے کا اختیاردیا ہے۔
آئی پی ایس افسر گپتیشورپانڈے کے اس رویے کی شدید تنقید کرتے ہیں۔ شنکر سین کہتے ہیں،‘اس طرح کے بیان ایک ڈی جی پی کو نہیں دینا چاہیے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے جس طرح کی بیان بازی کی اور فعالیت دکھائی ہے، وہ ایک دم غلط ہے اور سرکاری سروس کے رول بک کے خلاف ہے۔’
حالانکہ اس سب کے بیچ گپتیشورپانڈے نے اپنے وی آرایس کے فیصلے کو لے کروضاحت بھی دی اور کہا کہ وہ سیاست میں جا سکتے ہیں۔
بدھ کو میڈیا کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا، ‘استعفیٰ کو لےکر مجھے دو مہینے سے ہزاروں فون آ رہے تھے اور سب پوچھ رہے تھے کہ میں وی آرایس کب لے رہا ہوں۔ کئی لوکل میڈیا میں یہ خبریں بھی چلنے لگیں کہ میں فلاں پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ سکتا ہوں۔ اس سے ایک غلط پیغام پبلک میں گیا۔ ایسے میں مجھے لگا کہ اگر میں اسمبلی انتخاب کے دوران ڈی جی پی کے عہدے پر بنا رہتا ہوں، تو میری غیرجانبداری پر سوال اٹھےگا، اس لیے میں نے وی آرایس لیا ہے۔’
انتخاب لڑنے کے سوال پر انہوں نے کہا، ‘میں نے اس پر ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے، لیکن اگر میرے لوگ صلاح دیں گے، توسیاست میں جانے کا فیصلہ لے سکتا ہوں۔ سیاست خدمت کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔’یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے سشانت کی موت پر اپنی سیاسی روٹی سینکی ہے، گپتیشورپانڈے نے کہا، ‘ایسا وہی لوگ کہہ رہے ہیں جنہیں مجھ سے خطرہ لگ رہا ہے۔’
تنازعات سے گپتیشور پانڈے کا ناطہ
گپتیشورپانڈے کے لیے تنازعات کا ساتھ نیا نہیں ہے، وہ اپنی مدت کار میں بھی تنازعہ میں رہے ہیں۔اٹھارہ ستمبر 2012 کو، جب وہ مظفر پور کے آئی جی تھے، تب ایک لڑکی نوارونا چکرورتی کو گھر سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ بعد میں معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپی گئی تھی۔
لڑکی کے والد اتلیہ چکرورتی نے اس اغوامعاملے میں گپتیشورپانڈے کے ملوث ہونے کاشک ظاہر کیا تھا۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئےاتلیہ چکرورتی نے کہا تھا کہ انہوں نے سی بی آئی سے کئی بار کہا تھا کہ گپتیشورپانڈے سے پوچھ تاچھ کی جائے، لیکن سی بی آئی افسر کہتے تھے کہ آئی پی ایس افسرسے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے مضبوط ثبوت چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا، ‘بعد میں سی بی آئی نے ان سے پوچھ تاچھ کی۔ اس کا مطلب ہے کہ سی بی آئی کے پاس ان کے خلاف ثبوت تھا۔’ سی بی آئی کی طرف سے کورٹ میں جمع کئے دستاویز میں یہ ذکر بھی ہے کہ سی بی آئی افسروں نے گپتیشورپانڈے سے پوچھ تاچھ کی تھی۔
دی وائر کے پاس موجوددستاویز میں لکھا گیا ہے، ‘کیس کی جانچ سے سیدھے طور پر جڑے تھانے کے انچارج اور معاملے کے جانچ افسر جیتیندر پرساد، مظفر پور کے اس وقت کے ایس پی جو ابھی ڈی آئی جی ہیں اور گپتیشورپانڈے جو اس وقت ڈی جی ہیں، سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔’
گپتیشور پانڈے ترہت ڈویژن کے ڈی آئی جی رہتے ہوئے ایک پروگرام میں بھوجپوری سنگر دیوی پر پیسے لٹاتے نظر آئے تھے۔
بہار کی سیاست میں آئی پی ایس افسر
بہار میں آئی پی ایس افسروں کا سیاست میں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسی سال اگست میں ڈی جی(ہوم گارڈس و فائر سروسز)کے عہدےسے ریٹائر ہوئے سنیل کمار جے ڈی یو میں شامل ہوئے ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ وہ بھی اسمبلی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ ان کے بھائی انل کمار کانگریس کے ٹکٹ پر بھورے اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ہیں۔
سال2003 میں ڈی جی پی رہے ڈی پی اوجھا نے سال2004 کاعام انتخاب بیگوسرائے سیٹ سے لڑا تھا، لیکن ضمانت بھی نہیں بچا پائے۔بہار میں آئی جی رہے بلویر چند نے بھی 2004 کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے ٹکٹ پر گیا سیٹ سے انتخاب لڑا تھا، لیکن ہار گئے تھے۔
اسی طرح سابق آئی جی للت وجے سنگھ نے 1989 میں جنتا دل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور جیت حاصل کی تھی۔لیکن، ڈی جی پی کے عہدہ پر رہتے ہوئے حدسے زیادہ متحرک ہونا، الکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں کوریج اور سیاسی رہنما کی طرح بیان بازی گپتیشورپانڈے کو دیگر آئی پی ایس افسروں کے مقابلے متنازعہ بناتا ہے۔
آرجے ڈی کےسینئر رہنما شیوانند تیواری نے دی وائر سے کہا، ‘ان کے دماغ میں پہلے سے ہوگا کہ سیاست میں جانا ہے اور اسے دھیان میں رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ڈی جی پی کے عہدے کا استعمال کیا۔’شیوانند تیواری کہتے ہیں،‘جس طرح وی آرایس کی درخواست فوراً قبول کر لی گئی، کوئی جانچ پڑتال نہیں کی گئی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار انہیں کتنافیور کرتی ہے۔ سشاسن میں سب کچھ ممکن ہے۔’
(امیش کمار رائے آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر