فکر و نظر

بابری مسجد انہدام معاملہ: دو ایف آئی آر کی کہانی

بابری مسجد انہدام معاملے کی شروعات اس بارے میں درج دو ایف آئی آر 197 اور 198 سے ہوئی تھی۔ پہلی ایف آئی آر انہدام کے ٹھیک بعد ایودھیا تھانے میں لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج ہوئی تھی اور دوسری جس میں بی جے پی، سنگھ اور باقی تنظیموں کے رہنما نامزد تھے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: بدھ کو لکھنؤ کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے تمام32 ملزمین کو بری کر دیا۔خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو نے کہا کہ انہدام منصوبہ بند نہیں تھا، یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا۔ غیر سماجی عناصر گنبد پر چڑھے اور اس کو منہدم کر دیا۔

فیصلے میں یہ کہا گیا کہ ملزمین کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے، بلکہ ملزمین کے ذریعے مشتعل  بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کی شنوائی پوری کرنے کے لیے 30 ستمبر تک کاوقت دیا تھا۔ اس معاملے میں بی جے پی کے سینئررہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت 32 ملزم تھے۔

اس معاملے کی شروعات ان دو ایف آئی آر سے ہوئی تھی، جو انہدام معاملے میں درج کی گئی تھیں؛ ایف آئی آر نمبر197 اور 198۔پہلی ایف آئی آر انہدام کے ٹھیک بعدایودھیا تھانے میں درج ہوئی تھی، جس میں لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کو نامزد کیا گیا تھا۔

دوسری ایف آئی آر میں آر ایس ایس  اور بی جے پی کے لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، مہنت اویدیناتھ، وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)کے وشنو ہری ڈالمیا اور اشوک سنگھل کا نام تھا، جن پر انہدام کے لیےاشتعال انگیز بیانات دینے کاالزام  تھا۔

حالانکہ پہلی ایف آئی آر کے برعکس، دوسری ایف آئی آر میں سازش  کے الزام  نہیں جوڑے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی قابل دست اندازی جرائم کو لےکر 46 اور غیرقابل دست اندازی جرائم کے الزام میں ایک ایف آئی آر اور درج کی گئی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ 27 اگست 1993 کو اتر پردیش سرکار نے اس معاملے کو سی بی آئی کو سونپا تھا۔ سی بی آئی نے 5 اکتوبر 1993 ایک جوائنٹ چارج شیٹ داخل کی، جس میں 40 لوگوں کو ملزم  بتایا گیا تھا۔اس میں بی جے پی، وی ایچ پی ، شیوسینا اور بجرنگ دل کے رہنما شامل تھے۔ لیکن کچھ ہندوتوا کےرہنماؤں کے اوپر سے سازش  کے الزام  ہٹا دیے گئے تھے۔

سال2001 میں خصوصی سی بی آئی عدالت کے ذریعے اڈوانی، جوشی سمیت کچھ دیگر پر سے مجرمانہ سازش کے الزام  ہٹا دیے، جس کو 2010میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی صحیح ٹھہرایا تھا۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تکنیکی حقائق  پرمبنی تھا۔

تاریخ پر تاریخ

انہدام کے 25 سال بعد 19 اپریل2017 کو سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے آخرکار اس معاملے میں نچلی عدالتوں کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے اڈوانی، جوشی سمیت کچھ دیگررہنماؤں پر مجرمانہ سازش  کے الزامات کو برقرار رکھا۔

انہدام معاملے کی شنوائی کے لیے دو سال کی طے مدت  دیتے ہوئے جسٹس پی سی گھوش اور اور جسٹس آرایف  نریمن کی بنچ نے آرڈر دیا، جس میں انہوں نے لکھا کہ ‘موجودہ  معاملے میں،ہندوستان کے آئین کے سیکولرتانے بانے کو توڑنے والےجرم مبینہ طور پر لگ بھگ 25سال پہلے کیے گئے تھے۔

حالانکہ یہ شنوائی طے مدت  میں پوری نہیں ہوئی اور 19 جولائی 2019 کو سپریم کورٹ نے اس معاملے کو سن رہے اسپیشل جج ایس کے یادوکی مدت  کاربڑھادی۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا صرف اس مقصد سے کیا گیا ہےکہ 30 ستمبر 2019 کو ریٹائر ہونے والے یادو کیس کی شنوائی پوری کر سکیں اور معاملے میں فیصلہ سنا سکیں۔

انہیں فیصلہ سنانے کے لیے نو مہینے کاوقت دیا گیا تھا۔ لیکن پھر اس طے مدت میں فیصلہ نہیں آ سکا۔ 30 ستمبر 2020 کی تاریخ سپریم کورٹ نے گزشتہ 19 اگست کو طے کی تھی۔اس سے پہلے 8 مئی کوسپریم کورٹ  نے شنوائی پوری کرنے کے لیے تین مہینے کی مدت بڑھاتے ہوئے 31 اگست تک فیصلہ دینے کو کہا تھا۔


یہ بھی پڑھیں: بابری انہدام کا منصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا، اوما بھارتی نے خود ذمہ داری لی تھی: جسٹس لبراہن


اس سے پہلے گزشتہ سال 9 نومبر کو رام جنم بھومی بابری مسجد معاملے میں ہندوفریق  کو رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین دینے کا فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘6 دسمبر 1992 کو مسجد کے ڈھانچے کومنہدم کردیا گیا اور مسجد کو تباہ کر دیا گیا۔ مسجد کا گرایا جانا اس کی حالت کو بنائے رکھنے کے عدالت کے حکم اور اس کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی  تھی۔ مسجد کوتباہ کرنا اور اسلامی  ڈھانچے کا نام ونشان مٹا دینا قانون کی خلاف ورزی تھی۔

لبراہن کمیشن

غور طلب ہے کہ 16 دسمبر 1992 کو بابری مسجد انہدام کے واقعات  کی تفتیش کرنے کے لیے مرکزی حکومت  نے ایک کمیشن  کاقیام کیا تھا۔اس وقت پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جج ایم ایس لبراہن کی قیادت میں بنے اس کمیشن  کو تین مہینوں کے اندر جتنی جلدی ممکن ہو سکے، اپنی رپورٹ سرکار کو سونپنی تھی۔

لیکن اس نے 48 ایکسٹینشن لیے اور آزاد ہندستان کی سب سے لمبی چلنے والی انکوائری بنتے ہوئے کمیشن نے 30 جون 2009 کو اپنی رپورٹ سونپی۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا، ‘ونئے کٹیار، چنپت رائے جین، آچاریہ گریراج کشور، مہنت اویدیناتھ اور ڈی بی رائے نے شروعات سے ہی خفیہ  طریقے سے متنازعہ  ڈھانچے کو گرانے کا منصوبہ  بنانا شروع کر دیاتھا۔ انہدام کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا وہ یہ تھا کہ متنازعہ  ڈھانچے پر اچانک حملہ کیا گیا، اسی کے ساتھ صحافیوں پر اچانک حملہ ہوا، اس کے بعد تکنیکی مدد سے آگے بڑھا گیا جیسے دیواروں میں چھید کر پھندے بناکر رسیاں لگائی گئیں اور گنبد کے نیچے کی دیواریں گرا دی گئیں۔’

رپورٹ میں آگے کہا گیا، ‘سرکار نے فورس کا استعمال  نہ کیا جانا یقینی بنایا،یہاں تک کہ انہوں نے فورسز کی تعیناتی نہیں کی اور تحریک  کے رہنماؤں اور کارسیوکوں کے خلاف کسی بھی طرح کے فورس کے استعمال کو روکا۔ کسی بھی ممکنہ  واقعہ  سے نمٹنے کے لیے کسی حادثاتی منصوبہ کے تیار نہ ہونے سے نہ صرف یہ اشارہ گیا کہ پولیس، ایگزیکٹو اور سرکار اس کی حمایت میں ہیں بلکہ اگر کوئی سازش ہوئی ہے، تو وہ اس کونظر انداز کر دیں گے۔متنازعہ  ڈھانچے کے آس پاس کی تعمیرات  کوبرابر کرنے میں سرکار کی شمولیت، عدالت کے آرڈرکے خلاف چبوترے کی تعمیر، نہ صرف گولی نہ چلانے کے خصوصی آرڈر دینا بلکہ کارسیوکوں کے خلاف فورس کا استعمال  نہ کرنے کو کہنا شواہد سے نکل کر سامنے آتا ہے۔’

لال کرشن اڈوانی اور کلیان سنگھ کا رول

سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق، 5 دسمبر 1992 کو ونئے کٹیار کے گھر پر ہوئی جس خفیہ میٹنگ میں مسجد کو گرانے کا حتمی فیصلہ  لیا گیا تھا، اڈوانی وہاں موجود تھے۔سی بی آئی نے انہیں بابری انہدام کے مجرمانہ  معاملے کا سازشی  بتایا تھا۔ اسی معاملے کے ایک دیگر اہم ملزم کلیان سنگھ تھے، جو انہدام کے وقت  اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ 27 نومبر 1992 کو انہیں کی سرکار نے سپریم کورٹ کو یقین دلاتے ہوئے ایک حلف نامہ دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ان کی سرکار عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کوروکنے کے لیے پوری طرح سے اہل  ہے اور موجودہ حالات  مرکزی حکومت کی جانب سے فورس کی مجوزہ  مدد کی ضرورت نہیں ہے۔’

ہندستان ٹائمس کو دیے ایک حالیہ انٹرویو میں سنگھ نے کہا، ‘میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ اس دن (6 دسمبر 1992 کو)تیاریوں کے بیچ میرے پاس ایودھیا کے ڈی ایم کا فون آیا تھا، جہاں انہوں نے بتایا کہ وہاں تقریباً ساڑھے تین لاکھ کارسیوک اکٹھا ہو چکے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ فورس وہاں تک پہنچنے کے راستے میں ہے لیکن انہیں کارسیوکوں نے ساکیت کالج کے باہر ہی روک دیا ہے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ ان پر (کارسیوکوں پر)فائرنگ کے آرڈر ہیں یا نہیں۔ میں نے تحریر میں انکار کیا اور اپنے آرڈر، جو آج بھی کہیں فائلوں میں مل جائےگا، میں کہا تھا کہ اس گولی باری سے کئی لوگوں کی جان جا سکتی ہے اور ملک بھر میں انتشار اور نظم ونسق  کی حالت پیدا  ہو سکتی ہے۔’

اُن کے اس فیصلے (چھ دسمبر) کے بارے میں  ایک اور سوال پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ‘مجھے اپنے فیصلے پر ناز ہے کیونکہ آج میں فخرکے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے سرکار بھلے ہی کھوئی ہو، پر کارسیوکوں کو بچا لیا۔ اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ انہدام نے ہی آخرکار مندر کا راستہ  ہموار کیا تھا۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)