سماجی کارکن کارکن اور سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری کا کہنا ہے کہ وومین کمیشن ایک طریقے سے سرکاری تحفظ کا اڈہ بن گیا ہے۔ جسے کہیں نہیں‘ایڈجسٹ’ کر پا رہے ہیں، ان کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہاں پر خواتین کے لیے کوئی سنجیدگی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو آج پورےکمیشن کوہاتھرس میں دکھنا چاہیے تھا۔
نئی دہلی: سماجی کارکن اور ‘سینٹر فار سوشل ریسرچ’ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری کا کہنا ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرم بالخصوص ریپ کے اتنے معاملے آ رہے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہیں کوئی سرکار بھی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ جب تک خواتین کے تحفظ کے لیے سرکاریں اور پولیس پوری سنجیدگی سے کام نہیں کریں گی، حالات ایسے ہی بنے رہیں گے۔خواتین کے خلاف ملک میں بڑھ رہے جرائم کے معاملوں پر ان سے بات چیت۔
تازہ اعدادوشماربتاتے ہیں کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرم کے معاملوں میں 7.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ این سی آربی کے مطابق 2019 میں روزانہ اوسطاً 87 ریپ کے واقعات درج ہوئے۔ اس صورتحال کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟
اب تو ریپ کے معاملے اتنے زیادہ آ رہے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ نہ تو کہیں کوئی سرکار ہے، نہ ہی کوئی پولیس ہے اور نہ ہی کوئی خواتین کی دیکھ ریکھ کرنے والا ہے۔ریاست کوئی بھی ہو اور وہاں حکومت کسی کی بھی ہو، جس طرح کا نظام حکومت اور انتظامیہ کا ہونا چاہیے تھا، وہ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ جس طرح سے سرکاروں کو ساری تیاری رکھنی چاہیے تھی،بالخصوص کووڈ 19کے دوران، وہ بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
خواتین کے خلاف مسلسل تشددمیں اضافہ ہو رہا ہے اور خود تازہ اعدادوشماراس کی گواہی دیتے ہیں۔
حال کے دنوں میں ہوئے ریپ کے کچھ واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔سیاست بھی جم کر ہو رہی ہے۔ کیا کہیں گی آپ؟
ہاتھرس کا معاملہ ہی دیکھیے، آٹھ دن لگ جاتے ہیں ایف آئی آر درج کرنے میں اور اس کے بعد جو بات آگے ہوئی ہے وہ پورے ملک کو پتہ ہے۔ لڑکی کی موت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ماں باپ کو اس کا چہرہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے اور اس کی لاش پولیس جلا دیتی ہے۔
خاتون کے ساتھ زیادتی ہو اور سرکار اس کے ساتھ کھڑی ہو، پولیس اس کا تعاون کرے تو پیغام جاتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرم کوبرداشت نہیں کیا جائےگا، لیکن یہ ہو نہیں رہا ہے، بلکہ مجرموں کو بچانے اور معاملے کو ڈھنکنے کی کوشش میں سرکار لگی ہوئی ہے۔ بالخصوص اتر پردیش میں۔
چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، جب تک خواتین کے تحفظ کے لیے پولیس پوری سنجیدگی سے کام نہیں کرےگی، جس طریقے سے سرکار کو کرنا چاہیے ویسے نہیں کرےگی تو یہی حالت رہےگی۔خواتین جو وزیرہیں یا تمام دوسرے عہدوں پر بیٹھی ہیں یا چاہے نیشنل وومین کمیشن ہو، ان کا رخ دیکھیے جیسے ملک میں کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔
آٹھ سال پہلے بھی ملک میں ایسا ایک معاملہ ہوا تھا، جس کے بعد کئی تدبیریں کی گئیں۔ نربھیا فنڈ بھی بنایا گیا تھا لیکن خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہیں آئی۔ کیا کہیں گی آپ؟
حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں اب تو۔ نربھیا سے بھی برا حال ہے۔ رہی بات نربھیا فنڈ کی تو اس کا غلط ستعمال ہی ہوا ہے صحیح استعمال نہیں۔ نربھیا فنڈ کے سلسلے میں جب ہم وزیرریل سے ملنے گئے تھے تواس وقت کے وزیر ریل نے کہا تھا کہ ہم نے اسٹیشن پر کیمرا لگا دیا ہے نربھیا فنڈ سے۔
ہمارے پاس ان کا یہ بیان ریکارڈ میں ہے۔ بعد میں بھی اس فنڈ کا غلط استعمال ہی ہوا ہے، کوئی صحیح استعمال نہیں ہوا۔ نربھیا فنڈ کو بڑھانے کی جگہ دھیرے دھیرے اس کو ختم کیا جا رہا ہے۔کسی طرح کی سوچ ہی نہیں ہے۔ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ خواتین محفوظ ہوں۔ اگر یہ چاہ رہے ہوتے تو کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ حالات ٹھیک نہ ہوں ۔
دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ریپ کے واقعات بہت زیادہ رونما ہوتے تھے، لیکن وہاں کی سرکاروں نے حالات کو کنٹرول کیا۔عورتوں کو سکیورٹی دی۔ لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ ہندوستان میں چاہے ریاست کی سرکاریں ہوں یا ملک کی سرکار ہو، اس بارے میں انہیں ذرا بھی پرواہ ہے۔
وومین کمیشن بھی ہے ملک میں۔ ریاستوں میں بھی ایسے کمیشن ہیں۔ ان کے رول کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟
کمیشن کا جب قیام عمل میں آرہا تھا تبھی ہم لوگوں نے کہا تھا کہ ایک ‘الیکٹورل کولاژ’بنایا جائے اور جوخواتین تحریک نسواں سے وابستہ ہیں یا خواتین کے حقوق کےلیےجدوجہد میں رہی ہیں، ان کوکمیشن میں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔
یہ ایک طریقے سے سرکاری تحفظ کا اڈہ بن گیا ہے۔ جسے کہیں نہیں‘ایڈجسٹ’ کر پا رہے ہیں، ان کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ کمیشن‘پالیٹکل پارکنگ لاٹ’ہے۔ یہاں پر عورتوں کےلیے کوئی سنجیدگی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو آج پورے کمیشن کو ہاتھرس میں دکھنا چاہیے تھا۔
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ سے انہیں ملنا چاہیے تھا۔ دلت بچی کے ساتھ جو ہوا ہے اور جس طریقے سے اس کے بعد کی حالت بن رہی ہے کون ان کے ساتھ کھڑا ہے؟ کمیشن کو کھڑا ہونا چاہیے تھا۔
وقار کے ساتھ جینے کےخواتین کے حقوق کویقینی بنانے کے لیے کیا قدم اٹھائے جانے چاہیے؟
سب سے زیادہ آج اگر کسی کے بارے میں فکر کرنی چاہیے تو وہ ہیں دلت، آدیواسی اور اقلیتی کمیونٹی کی خواتین۔ وہ سب سے زیادہ کمزور ہیں۔آج ہاتھرس کے معاملے کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہ اس لیے ہوا کیونکہ وہ دلت کی بیٹی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اہل خانہ کو سامنے آنا چاہیے۔ سماج کو سامنے آنا چاہیے۔ لڑکیوں کوخود آگے آنا پڑےگا۔
Categories: فکر و نظر