جے ڈی یو کو پھسلنے سے روکنے میں ناکام رہے نتیش کمار کیا اس بار اپنے ادھورے وعدے پورے کر پائیں گے یا پھر اس پاری میں وہ بی جے پی کے ایجنڈہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے کو مجبور ہوں گے؟
کیا بہار میں چراغ پاسوان سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی مخالفت کرواکر بی جے پی نے ایک تیر سے دو نشانے لگائے ہیں؟ جے ڈی یو کی 28 سیٹ گھٹنے اور اپنی 23 سیٹ بڑھنے کے باوجود نتیش کمار کو ہی این ڈی اے کا وزیر اعلیٰ بنانے کا بی جے پی کا فیصلہ تو کم سے کم یہی بتا رہا ہے۔
کل243اسمبلی سیٹوں میں جے ڈی یو کے 43،بی جے پی کے 74اور ہم اور وی آئی پی کے 4-4 ایم ایل اے کی بدولت این ڈی اےنے125 سیٹ پاکراکثریت کی سرکار بنائی ہے۔اپوزیشن مہاگٹھ بندھن نے آرجے ڈی کے 75، کانگریس کے 19 اور کمیونسٹ پارٹیوں کے 16ایم ایل اے کے بوتے کل 110 سیٹ جیتی ہیں۔ باقی آٹھ سیٹوں میں پانچ اےآئی ایم آئی ایم، ایک ایل جے پی، ایک بی ایس پی اور ایک سیٹ آزاد امیدوار نے جیتی ہیں۔
بی جے پی کی یہ انتخابی حکمت عملی نہ ہوتی تو تقریباً12سال بہار میں اقتدار میں رہے این ڈی اے کی بدنامی کا ٹھیکرا نتیش کمار کے سر پھوڑنے کے بعد بی جے پی انہیں وزیر اعلیٰ کیوں بناتی؟
اس سے صاف ہے کہ روزگار اور بدعنوانی وغیرہ کی ناکامیوں کاقصور نتیش کے سر ڈالنے میں کامیاب بی جے پی، وزیر اعظم نریندر مودی کی امیج بےداغ بچاکر اس کے سہارے ایک تو ریاستی اسمبلی میں اپنی سیٹ بڑھانے اور دوسرے، چوتھی بار این ڈی اے کی سرکار بنانے میں کامیا ب ہوئی ہے۔
انتخابی حکمت عملی اور نتائج کے لحاظ سے بہار اسمبلی کا یہ انتخاب ماہرین سیاسیات کے لیے گہرے مطالعہ کا موضوع ہے۔ویسےانتخابی تشہیر کے دوران نتیش کی جانب سےوزیراعظم مودی کی تعریف اور ان کے نام پر ووٹ مانگنےاورنتائج آنے پر خود کے این ڈی اے کا وزیراعلیٰ نامزد ہونے پر ان کا شکریہ ادا کرنے سے بی جے پی کی حکمت عملی میں ان کی ملی بھگت کے الزام بھی لگ رہے ہیں۔
کہیں اسی لیے تو انتخابی نتائج آنے کے بعد بھی این ڈی اے اور خود نتیش کمار نے ایل جے پی اور چراغ پاسوان سے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیارنہیں کی؟مقصد تو انتخاب جیت کر اقتدار پانا تھا اور وہ ہو گیا، تو پھر اس میں سب سے اہم آلہ کارچراغ پر کارروائی کیوں کریں؟
آخر ایل جے پی نے تو این ڈی اے سرکار کی غیر مقبولیت کو نتیش پر فوکس کرکے گٹھ بندھن کو پار لگانے والےکا رول نبھایا ہے!ایل جے پی کی وجہ سےجے ڈی یو کو 28 سیٹوں کا سیدھا نقصان بھلے ہوا مگراقتدار تو مل گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سیاسی چال میں تو این ڈی اے کامیاب ہو گیا،مگر نوجوانوں کی ان امیدوں کو اس کی چوتھی سرکار کیسے پورا کرےگی، جن کے نام پر وزیراعظم مودی نے ووٹ مانگا ہے؟ کیونکہ نتیش کمار کے بقول تو سرکاری خزانہ پیسے سے خالی ہے؟
یہ دعویٰ خودوزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی نے انتخابی اجلاس میں تب کیا جب مہاگٹھ بندھن نے نوجوانوں کو 10 لاکھ سرکاری نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔یہ اوربات ہے کہ اس کے اگلے ہی دن بی جے پی نے 19 لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کر دیا جس میں سے 14 لاکھ نوکری پرائیویٹ سیکٹر میں بتائی گئیں۔
اس کے باوجود مہاگٹھ بندھن کےوزیراعلیٰ کےامیدوار تیجسوی یادو کے انتخابی اجلاس میں جمع نوجوانوں کی بھیڑ نے این ڈی اے کے پسینے لا دیے۔اسی لیےجے ڈی یو کو بھی 10 لاکھ روپے تک قرض دےکر لوگوں کا کاروبار کرانے کا بھروسہ دینا پڑا جس سے نتیش اور سشیل مودی دونوں ہی نوجوانوں کے سامنے جھوٹے پڑ گئے۔
تعجب یہ کہ سارے داؤپیچ کے باوجود این ڈی اے اس مہاگٹھ بندھن سے صرف 12774 یعنی 0.03 فیصدی ووٹ ہی زیادہ بٹور سکا جس کے مبینہ‘جنگل راج’سے اس نے خواتین اور بزرگوں کو ڈرا کر ان کے ووٹ حاصل کیے۔
اس سے تیجسوی یادو کا وہ دعویٰ ایک دم درست معلوم ہو رہا ہے کہ مقابلہ دراصل ان کے اور وزیراعظم مودی کے بیچ تھا نہ کہ نتیش کمار اور ان کے۔ظاہر ہے کہ تیجسوی کے پاس تو لمبی سیاسی پاری کھیلنے کو پوری عمر باقی ہے مگر وزیراعظم مودی اور نتیش کا وقت تو مٹھی میں ریت کی طرح پھسل رہا ہے!
بہرحال تقریباً14 سال بطوروزیراعلیٰ نتیش راج کے باوجود بہار ملک کی سب سے پسماندہ ریاست ہے۔ ریاست کی فی شخص آمدنی ملک میں سب سے کم ہے۔پورے 30 سال پسماندہ اورمحروم طبقات کے وزرائے اعلیٰ کے باوجودتقریباً 89 فیصدی دیہی پس منظر والے بہار میں کھیتی کی زمین سے لےکر ریاست کی نوکر شاہی تک اشرافیہ کا دبدبہ برقرار ہے!
ہندوستان کی سالانہ کل فی شخص آمدنی سال 2019-20 میں جہاں 134226 روپے تھی، وہیں بہار میں اس کا اوسط 46664 روپے ہی رہا۔ محض 3888 روپے سے بہار کے عام آدمی کو پورے مہینے اپنے گھروالوں کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔
ایسا بھومیہاروں کے پاس یادووں کے مقابلے دوگنی اور بے حد پسماندہ کمیونٹی کے مقابلے چار گنا زیادہ زمین ہونے کی وجہ سے ہے۔ ایسا سال 2009 کے سروے سے ظاہر ہوا ہے۔بہار میں چونکہ 89 فیصدی حلقہ آج بھی دیہی ہے اس لیے زمین کی عدم مساوی ملکیت نے لوگوں کو بےحد غریب بنا رکھا ہے۔ این ڈی اے نے سال 2005 میں اراضی اصلاحات نافذ کرنے اور 2010 کے انتخاب میں ان طبقات کو تین ڈسمل زمین دینے کا وعدہ بھی جھوٹلا رکھا ہے۔
ووٹنگ میں ان طبقات نے اس کا بدلہ لےکر نتیش کمار کاقد تو گھٹایا مگر انہیں اقتدار سے ہٹانہیں پائے۔ انہوں نے اراضی اصلاحات کے لیے بندوپادھیائے کمیشن تو بنایا، مگر اس کی 2008 میں ملی رپورٹ نافذ کرنے میں اشرافیہ سے بنااقتدار کافارمولہ آڑے آ گیا۔
یہ اوربات ہے کہ اشرافیہ نے اب کی بار انہیں منجدھار میں چھوڑکر بی جے پی کو ان کے سر پر بٹھا دیا۔دیکھنا یہی ہے کہ نہ خدا ملا، نہ وصال صنم کی طرزپربےحد پسماندہ اور اقلیتوں کی حمایت سے ہاتھ دھوکر بھی جے ڈی یو کو پھسلنے سے روکنے میں ناکام نتیش کمار کیا ادھورے وعدے پورے کر پائیں گے؟
یا پھر بی جے پی کے ایجنڈہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے کو مجبور ہوں گے؟ کیونکہ بی جے پی اپنے جانے پہچانے ہتھکنڈوں سے اپنا ووٹ بینک تیزی سے بڑھانے کی پوری کوشش کرےگی ہی۔ساتھ ہی اےآئی ایم آئی ایم کے بھی اکٹھے پانچ سیٹ جیتنے سے حوصلہ پاکراقلیتوں کے وسیع پولرائزیشن میں بدل جانے کے آثار ہیں۔
کیا ساتویں بار وزیراعلیٰ بنے نتیش کمار کمزور ہونے کے باوجود اس کھینچ تان سے نمٹ کر عوام کا بھروسہ پھرسے حاصل کر سکیں گے؟
(مضمون نگار سینئرصحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر