گزشتہ19دنوں سے دہلی کی مختلف سرحدوں پر مرکزکی جانب سے لائے گئے نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کے ساتھ احتجاج کر رہے ‘سنیوکت کسان مورچہ’ کے 40 کسان رہنما سوموار صبح 8 بجے سے شام 5 بجے کے بیچ تمام سرحدوں پر بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ان میں سے پچیس سنگھو، 10 ٹکری بارڈراور پانچ یوپی بارڈر پر بیٹھیں گے۔
نئی دہلی: متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف پچھلے 19دنوں سے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں نے سوموار کو دن بھر کی بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔کسان تنظیموں نے کہا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی مظاہرہ کیا جائےگا۔
ہندستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق،بھارتیہ کسان یونین کے جنرل سکریٹری ہریندر سنگھ لاکھووال نے کہا، ‘ہم حکومت کو بیدارکرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ‘سنیوکت کسان مورچہ’ کے 40 کسان لیڈرسوموار صبح 8 بجے سے شام 5 بجے کے بیچ سبھی سرحدوں پر بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ان میں سے پچیس سنگھو بارڈر پر، 10 ٹکری بارڈر اور پانچ یوپی بارڈر پر بیٹھیں گے۔’
وہیں، دہلی میں غازی آباد کی سرحد پر احتجاج کررہے کسانوں نے کہا کہ وہ دن بھر کی بھوک ہڑتال کی تیاری کر رہے ہیں۔
Delhi: Farmers' leaders sit on hunger strike at Tikri border as their protest against Centre's farm laws enters 19th day.
"Centre is being stubborn about our demands. This is an attempt to wake them up," says Balkaran Singh Brar, Working President, All India Kisan Sabha, Punjab pic.twitter.com/KY7mgGwJiT
— ANI (@ANI) December 14, 2020
خبررساں ایجنسی اے این آئی نے لکھیم پور کھیری کے ایک کسان کے حوالے سے کہا، ‘جب ہم گنے کی ٹرالیوں کو ملوں میں لے جاتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ ہم 24 گھنٹے کے لیے کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم بھوک ہڑتال کے لیے تیار ہیں۔’
اس سے پہلے کسان لیڈر گرنام سنگھ چڈھونی نے اتوار کو کہا تھا کہ سوموار صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہونے والی یہ بھوک ہڑتال 14 دسمبر سے احتجاج کو تیز کرنے کے کسانوں کےمنصوبہ کا حصہ ہے۔چڈھونی نے سنگھو بارڈر پر پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ رہنما اپنی اپنی جگہوں پر بھوک ہڑتال کریں گے۔
انہوں نے صحافیوں سے کہا تھا، ‘ملک بھر کے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر پر دھرنے بھی دیے جائیں گے۔ اجتجاج اسی طرح جاری رہےگا۔’
چڈھونی نے کہا تھا، ‘کچھ گروہ احتجاج ختم کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کےپاس کیے ہوئے قوانین کے حق میں ہیں۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ وہ ہم سے نہیں جڑے ہیں۔ ان کی حکومت سے ملی بھگت ہے۔ انہوں نے ہمارے اجتجاج کو کمزور کرنے کی سازش کی ہے۔ حکومت کسانوں کے اجتجاج کو ختم کرنے کے لیے سازش کر رہی ہے۔’
Centre will continue buying crops at the same amount, as they use to before, that's what 'buying at MSP' means for them. But we can't survive on that anymore. And Centre is not buying crops at MSP from all states: Gurnam Singh Chaduni, President, Bhartiya Kisan Union (Haryana)
— ANI (@ANI) December 14, 2020
کسان لیڈر شیو کمار ککا نے کہا، ‘سرکاری ایجنسیاں کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روک رہی ہیں، لیکن جب تک ان کی مانگیں نہیں مان لی جاتیں تب تک احتجاج جاری رہےگا۔’انہوں نے کہا، ‘ہمارا رخ واضح ہے ہم چاہتے ہیں کہ تینوں قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ اس احتجاج میں حصہ لے رہے تمام کسان یونین متحد ہیں۔’
ایک اور کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا، ‘اگر حکومت بات چیت کی ایک اور تجویز رکھتی ہے تو ہماری کمیٹی اس پر غور کرےگی۔ ہم سبھی سے احتجاج کے دوران امن وامان برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہیں۔’کسان لیڈر سندیپ گیڈے نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 19 دسمبر سے مجوزہ کسانوں کی غیرمعینہ مدت کی بھوک ہڑتال رد کر دی گئی ہے۔ اس کے بجائے سوموار کو دن بھر کی بھوک ہڑتال کی جائےگی۔
بتا دیں کہ پنجاب اور ہریانہ جیسی ریاستوں کے سینکڑوں کسانوں نےمتنازعہ قوانین کے خلاف دو ہفتہ سے زیادہ سے دہلی کی سرحدوں سے سٹے کچھ شاہراہوں کو جام کر دیا ہے۔انہیں خدشہ ہے کہ حکومت ریاست کی جانب سے کم سے کم مقررہ قیمتوں پر سیدھے فصل خرید نابند کر دےگی جس کوایم ایس پی کہا جاتا ہے۔
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت امبانی اور اڈانی جیسے بڑے کارپوریٹ گروپوں کی خودمختاری کاراستہ کھولنے کی تیاری کر رہی ہے۔جب تک سرکار ان قوانین کو رد نہیں کرتی ہے، اجتجاج کرنے والے کسانوں نے ملک بھر میں اپنے مظاہرہ کو بڑھانے کی قسم کھائی ہے۔ حکومت نے اب تک ان کی مانگ پر دھیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔
پچھلے 9 دسمبر کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ بیٹھک کے بعدوزارت زراعت کے ذریعہ متنازعہ قوانین کے بارے میں بھیجے گئے مسودہ کو کسان تنظیموں نےمتفقہ طور پرخارج کر دیا تھا۔تنظیموں نے کہا تھا کہ 14 دسمبر کو کسان بی جے پی کے دفتروں کا گھیراؤ کریں گے اور ملک کے کئی حصوں میں ان قوانین کے خلاف مظاہرہ کریں گے ۔ ملک کے کئی حصوں کے کسانوں کو دہلی بلایا جا رہا ہے۔
Categories: خبریں