خبریں

ہریانہ: سی ایم کا قافلہ روکنے کے الزام  میں 13 کسانوں کے خلاف فساد اور قتل کی کوشش کا مقدمہ درج

ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر آئندہ میونسپل انتخاب کی تشہیر کے لیے گزشتہ منگل کو ایک عوامی اجلاس  کرنے امبالہ گئے تھے۔ اس دوران مظاہرہ کررہے کسانوں کے ایک گروپ  نے انہیں کالے جھنڈے دکھائے اور سرکار کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:مرکز کے نئے زرعی  قوانین کے خلاف مظاہرہ  کر رہے لوگوں کے ایک گروپ کے ذریعےوزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر کے قافلے کو مبینہ طور پر روکنے اور گاڑیوں  پر ڈنڈے پھینکنے کے واقعہ  کے ایک دن بعد گزشتہ بدھ کو ہریانہ پولیس نے 13 کسانوں کے خلاف قتل کی کوشش اور فساد کرنے سمیت مختلف دفعات  میں معاملہ درج کیا۔

اپوزیشن پارٹی کانگریس کی ریاستی صدر کماری شیلجا نے اس قدم کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سرکار کی مایوسی  کا پتہ چلتا ہے۔منگل کو مظاہرہ کررہے کسانوں کے ایک گروپ نے کھٹر کو کالے جھنڈے دکھائے تھے، جب ان کا قافلہ امبالہ شہر سے گزر رہا تھا۔

کچھ کسانوں نے کھٹر کے قافلے کو مبینہ طور پر روکنے کی کوشش کی، لیکن پولیس کچھ وقت بعد وزیراعلیٰ کو ایک محفوظ راستے پر لے جانے میں کامیاب رہی۔

کچھ سکیورٹی اہلکاروں  کی شکایت پر بدھ کو دیر رات کسانوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ امبالہ سٹی پولیس نے 13 کسانوں کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات307(قتل کی کوشش)، 147(فسادکرنے کی سزا)، 148(ہتھیار کے ساتھ دنگا کرنا)، 149 (ایک ہی مقصدکے ساتھ غیر قانونی طریقے سے جمع ہونا)، 506 (مجرمانہ  دھمکی)، 186 اور 353 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

اس پر ردعمل  دتیے ہوئے ہریانہ کانگریس کی چیف کماری شیلجا نے کہا کہ ہریانہ سرکار نے کسانوں کے خلاف معاملہ درج کر کےساری حدیں پار کر دی ہیں۔انہوں نے کہا، ‘بی جے پی سرکار کسانوں کی آواز کو لگاتار دبا رہی ہے۔ لوگوں کا اس سرکار پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر کو کسانوں نے کالے جھنڈے دکھائے۔

کھٹر آئندہ میونسپل انتخاب کی تشہیر کے لیے منگل کو عوامی اجلاس کرنے امبالہ گئے تھے۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔

دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

کسان تنظیموں  نے کہا ہے کہ سرکار نئے زرعی قوانین میں‘بے مطلب’ترمیم  کرنے کی بات کو نہ دوہرائے، کیونکہ انہیں پہلے ہی خارج کیا جا چکا ہے، بلکہ بات چیت  کو بحال کرنے کے لیےتحریری طور پر‘ٹھوس’پیشکش لےکر آئے۔

سرکار کی بات چیت کی پیشکش پر دیے جواب میں کسان رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر انہیں کوئی ٹھوس تجویز ملتی ہے تو وہ کھلے ذہن سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ صاف کیا کہ وہ  متنازعہ قوانین  کو پوری طرح سے رد کرنے اورایم ایس پی کے لیے قانونی گارنٹی سے کم پر کچھ بھی قبول  نہیں کریں گے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)