مرکزی حکومت کی جانب سےلائے گئے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لےکرکئی ریاستوں کے کسان دہلی کی مختلف سرحدوں پرایک مہینے سے زیادہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔
نئی دہلی:مرکز اور کسانوں کے بیچ ہونے والی اہم بات چیت سے ایک دن پہلے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے جمعرات کو کہا کہ سرکار تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے علاوہ کسی بھی تجویز پر غور کرنے کو تیار ہے۔حالانکہ، کسانوں کی مرکزی حکومت سے ایک بنیادی مانگ نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی ہے۔
کسان تنظیموں کے نمائندوں سےبات چیت کی سرکار کی جانب سے مرکزی وزیر پیوش گوئل اور وزیر مملکت سوم پرکاش کے ساتھ قیادت کر رہے وزیر زراعت تومر نے کہا کہ وہ ابھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آٹھ جنوری کو وگیان بھون میں 40کسان تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی بیٹھک کا کیا نتیجہ نکلےگا۔
وزیر نے پنجاب کے نانک سر گرودواراکےسربراہ بابا لکھا کو تعطل ختم کرنے کے لیے ایک تجویز دینے کی بات سے بھی انکار کیا۔ وہ ریاست کے ایک جانےمانے مذہبی رہنما ہیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے جمعرات کو پنجاب کے نانک سر سکھ کمیونٹی کے سربراہوں میں سے ایک بابا لکھا سنگھ سے ملاقات کی۔ بابا لکھا سنگھ احتجاج کی جگہوں پر لنگر کا انعقادکر رہے ہیں۔
وزیر مملکت کیلاش چودھری نے کہا کہ زراعت کے شعبےکے لیےزیادہ اصلاحات کامنصوبہ بنایا گیا تھا اور ان کواحتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔
چودھری نے کہا، ‘کسان تنظیمیں کمیشن ایجنٹ کے اثر میں آکر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ تو ایک شروعات ہے۔ آگے جاکر انسکٹیسائڈ بل(انسکٹیسائڈ مینجمنٹ بل،2020) اور بیج بل بھی آئیں گے۔ اس وقت بھی کسانوں کو گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ کسانوں کے لیےتبدیلی کی شروعات ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، بابا لکھا سنگھ نے کہا کہ انہوں نے کسان تنظیموں کو تومر سے ملنے کے بارے میں بتایا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ اگر ان کے پاس سرکار کے لیے کوئی پیغام ہے تو ضرور بتائیں۔تومر نے ان سے کیا کہا، اس پر انہوں نے کہا، ‘عوامی طور پر اس بارے میں کوئی بھی چرچہ عقل مندی نہیں ہوگی۔ یہ مقصد کو کمزور کرےگا۔’
بیٹھک کے بارے میں پوچھے جانے پر بابا لکھا سنگھ نے کہا، ‘یہ اہم نہیں ہے کہ انہیں مدعو کیا گیا تھا یا انہوں نے خود وزیر زراعت سے ملاقات کی تھی۔ اہم یہ ہے کہ میں اس معاملے کوسلجھانا چاہتا ہوں۔ میں سرکار اور کسانوں کے بیچ ثالث کے طور کام کرنا چاہتا ہوں۔ تومر کے ساتھ میری ملاقات اچھی رہی۔’
وہیں، نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ انہوں نے دھرم گرو کو کوئی تجویز نہیں دی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سرکار نے کہا ہے کہ اگرقوانین کو رد کرنے کے علاوہ کوئی تجویز ہے، تو اس پر بات کی جا سکتی ہے۔’یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ کسانوں کے ساتھ ثالثی کرنے کے لیے پنجاب کے دیگر مذہبی رہنماؤں سے بھی ملیں گے، وزیر نے کہا، ‘میں سب سے ملوں گا چاہے وہ کسان ہوں یارہنما۔’
تومر نے بابا لکھا سنگھ کو پہلے سے جاننے کا دعویٰ بھی کیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں ان سے پہلے سے بات کرتا تھا، لیکن آج وہ مجھ سے ملنے دہلی آئے تھے، اس لیےیہ خبر بن گئی۔’وہیں، کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہیں بابا لکھا سنگھ کی تجویز کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
بھارتیہ کسان یونین(داکنڈا)کے جگموہن سنگھ پٹیالہ نے کہا کہ وہ 13-14 اہم یونینوں اور ان کے رہنماؤں کے رابطےمیں ہیں اور انہوں نے کرانتی کاری کسان یونین اور بھارتیہ(رجیوال)سے بھی بات کی ہے۔ انہیں لکھا سنگھ کی تجویز کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘ہم نے بابا لکھا سنگھ کی جانب سے ایسا کچھ نہیں سنا۔ 31 یونینیں ہیں۔ اگر انہوں نے ایک یا دو یونینوں سے بات کی ہے تو مجھے نہیں پتہ۔ انہوں نے 13 سے 14اہم یونینوں سے بات نہیں کی ہے۔ اتنا ہی نہیں کسی بھی یونین نے ہمارے کسی بھی وہاٹس ایپ گروپ میں لکھا سنگھ کی کسی تجویز کی جانکاری نہیں دی ہے۔’
جگموہن سنگھ نے کہا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ قانون رد ہوں۔ اس صورت میں ایک ثالث کیا کر سکتا ہے؟ اگر ہم قوانین کو رد کیے بنا پنجاب واپس چلے جاتے ہیں، تو ہم زندہ لاش کی طرح ہوں گے۔’
بابا لکھا سنگھ کا لدھیانہ ضلع میں اپنا ڈیرا ہے اور وہ سنت سماج سے جڑے ہوئے ہیں، جن کا پنجاب میں اکالی دل بی جے پی سرکار کے دوران اثر تھا۔ ساتھ ہی وہ ایودھیا میں رام مندر بھومی پوجن کے لیے بلائے گئے لوگوں میں سے ایک ہیں۔
مرکز کی جانب سے لائے گئے نئے تین قوانین کے خلاف پچھلے ایک مہینے سے بھی زیادہ سے ہزاروں کسان راشٹریہ راجدھانی کی الگ الگ سرحدوں پر گزشتہ26 نومبر سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں